اسلام آباد کے ایک اہم اور مصروف سگنل کیساتھ چند درجن نوجوان ایک بڑا بینر اور ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے کھڑے تھے بینر پر ان احتجاج کرنیوالے نوجوانوں کے مطالبات درج تھے اور پلے کارڈز پر لکھا تھا اگرآپ ہمارے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں تو ن کے حق میں گاڑی کا ہارن دوباربجادیں یقین جانیں ہر گاڑی ان نوجوانوں کیلئے ہارن بجا کررہی گزری رہی تھی۔ لوگوں کو شاید ان نوجوانوں کا طریقہ احتجاج پسند آرہا تھا اور کچھ لوگ تو گاڑی ایک جانب گھڑی کرکے کچھ دیر کیلئے ان کیساتھ کھڑا بھی ہورہے تھے۔ احتجاج دنیا بھر میں ہوتے ہیں اور ہم تو ان احتجاجوں میں کچھ زیادہ ہی خود کفیل ہوچکے ہیں۔ آئے دن احتجاج اور دھرنے۔ اسلام آباد کے باسی تو کچھ زیادہ ہی ان احتجاجوں کے ستائے ہیں جو بھی احتجاج کیلئے اٹھتا ہے اسلام آباد کے ڈی چوک سے پیچھے کسی جگہ کا نام ہی نہیں لیتا۔ یا پھر راولپنڈی اسلام آباد کو ملانے والے فیض آباد پر دھرنا دیکر جڑواں شہروں کی لگ بھگ ایک کروڑ کی آبادی کو مشکلات سے دوچار کردیا جاتا ہے ہمارے یہاں سری لنکا، کینیا اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں ہونے والے احتجاج کی مثالیں دی جاتی ہیں کچھ حکومت مخالف سیاستدان تو اپنی خواہش کو پیشگوئی بنا کر بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں کہ یہاں بھی سری لنکا، کینیا اور بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔ احتجاج تو ہر ملک اور معاشرے میں ہوتے ہیں لیکن ہماری طرح بڑی اور اہم شاہراہوں پر دھرنوں جیسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں شایدان ملکوں میں احتجاج کرنیوالوں کو عوام کی مشکلات کا احساس ہوتا ہے یا پھر حکومت کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے دیکھا جائے تو ہمارے یہاں احتجاجوں کی کامیابی کا ریکارڈ کچھ اچھا نہیں ماضی قریب میں دیکھیں تو احتجاج کئی ہوئے، کامیاب اکا دکا ہی ہوسکے۔وہ بھی کسی حد تک اور کچھ مخصوص حالات اور وجوہات کی بنا پر۔ ہمارے یہاں احتجاج مکمل ہی نہیں ہوتا جب تک راستے بند نہ ہوں یا پھر کوئی لاٹھی چارج آنسو گیس وغیرہ والا کام نہ ہوجائے میڈیا کوریج ہی احتجاجیوں کا مقصد ہوتا ہے جو ایسے ہی پورا ہوسکتا ہے۔ اب دیکھیں تو کسی جماعت کو دھرنا دینے کیلئے کسی کونے میں جگہ دیدی جائے تو وہ وہاں کیوں بیٹھیں گے وہاں وہ مہینوں بیٹھے رہیں کسی کو کیا ہوگا۔ ہوگا تب ہی جب راستے بند ہوں گے لوگوں کو تکلیف ہوگی وہ چیخیں گے میڈیا شور ڈالے گا اور حکومت کو راستے کھلوانے کیلئے بات چیت کرنا پڑے گی۔ یعنی عوام کی مشکلات کی قیمت پر ہی یہ احتجاج کامیاب ہوسکتے ہیں ، ہمارے یہاں مہنگائی کیخلاف بھی کئی مارچ اور دھرنے ہوئے لیکن یہ مارچ اور دھرنے کامیاب نہیں ہوسکے۔ وجہ کیا ہوتی ہے وجہ یہی ہوتی ہے کہ یہ احتجاجی تحریکیں سیاسی بن جاتی ہیں مہنگائی کی آڑ میں ہونے والی سیاست واضح دکھائی دیتی ہے۔ مظاہروں اور احتجاجی تحریک کیلئے مقاصد واضح اور قابل عمل ہونے چاہیں۔ اگر کوئی مہنگائی کم کرنے کا مطالبہ لیکر آجائے گا تو کیا مہنگائی ایک مطالبے پر ختم ہوسکتی ہے۔ بالکل نہیں۔ تو کیا ہونا چاہیے اور کیسے ہونا چاہیے اس پر کام کرکے مطالبات سامنے لائے جانے چاہئیں۔ آجکل بجلی کے بل سب کا مسئلہ بن چکے ہیں اب صرف یہ مطالبہ کردینا کہ بجلی سستی کردی جائے تو سیاست کرنیوالی جماعتیں بخوبی جانتی ہیں کہ اس وقت ایسا ممکن نہیں لیکن ہو کیا سکتا ہے اور کیسے ہوسکتا ہے اس پر کام کرکے حکومت کے سامنے مطالبہ رکھا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلی بات جب معاشی حالات درست نہیں تو اس کا بوجھ کسی ایک طبقے پر تو نہیں آنا چاہیے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے جن لوگوں کو مفت بجلی اور پٹرول مل رہا ہے اس کو تو فوری بند تو کیا جاسکتا ہے۔ پھر اب تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آچ±کی ہے کہ ملک میں لگائے جانیوالے پرائیویٹ بجلی گھر جنہیں آئی پی پیز کہا جاتا ہے کسطرح عوام کو خوب چوس رہے ہیں ان کے معاہدوں پر کسطرح نظر ثانی ہوسکتی ہے اس حوالے سے حل نکال کر سامنے رکھا جائے اور حکمران کو کوئی راستہ نہ دیا جائے کہ وہ کوئی جواز پیش کرسکیں۔ سب سے اہم بات کہ اگر مسئلہ عوامی ہے تو سیاست کو الگ رکھ کر بات کی جائے۔ ویسے احتجاج کرنے سڑکیں بلاک کرنے سے تو انھی عوام پر بوجھ پڑے گا انہی کی زندگی مزید مشکل ہوگی جو پہلے ہی معاشی حالات سے پریشان ہیں۔ جسے دفتر یا اپنے کام پر جانے کیلئے احتجاج کیوجہ سے دو، تین گنا زیادہ کرایہ دینا پڑے۔ اضافی پٹرول خرچ کرنا پڑے یا احتجاج دھرنوں کی وجہ سے ان کا کاروبار بند ہو جائے تو پھر یہ عوام کیلئے تو احتجاج نہ ہوا۔ تو احتجاج عوام کیلئے کرنا ہے تو عوام کا خیال پہلے رکھا جائے، احتجاج کو دنیا بھر کے مہذب ملکوں میں آئینی حق قرار دیا جاتا ہے لیکن ان مہذب معاشروں میں احتجاج کرنیوالے بھی مہذب انداز ہی اختیار کرتے ہیں۔ اور اگر سڑکیں اور راستے بند کرنیوالا احتجاج آئینی حق ہے تو معذرت کیساتھ آزادی سے نقل و حرکت دوسروں کا بھی قانونی حق ہے اور اپنا حق لینے کیلئے دوسرے کا حق چھینا نہیں جاسکتا۔