خونیں انقلاب کے آثار
جس قوم میں حکمرانوں کی مسلط کی گئی ناقابل برداشت مہنگائی نے عوام کو اپنی زندگیوں سے عاجز کر دیا ہو اور وہ خودکشیوں‘ خودسوزیوں اور دریاﺅں‘ نہروں‘ نالوں میں کود کر ڈوب مرنے کا راستہ اختیار کر چکے ہوں‘ بجلی کے بل ادا کرنے کی سکت نہ رکھتے ہوئے بھائی اپنے ہی ہاتھوں سے بھائی کو ذبح کر رہا ہو اور مہنگائی‘ بے روزگاری کے جان لیوا جھٹکے اپنے لئے ناقابل برداشت ہوتے دیکھ کر جس قوم کے بچے‘ جوان اور بوڑھے لوٹ مار کے راستے پر چل نکلیں اور عوام میں بڑھتی اس مایوسی‘ نفرت و حقارت اور اضطراب کو دیکھ کر بھی حکمران طبقات نے نہ صرف کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہوں بلکہ وہ عوام کو غربت‘ مہنگائی کی طرف دھکیلنے والی اپنی پالیسیوں سے رجوع کرنے پر بھی آمادہ نہ ہوں‘ تو کیا اس قوم اور اس قوم کے بطور معاشرہ زندہ رہنے کے کوئی آثار نظر آسکتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ آج اسی کشمکش میں ہے جس کے عوام حکمران طبقات ہی کے ہاتھوں قبرستان کی جانب دھکیلے جا رہے ہیں اور اپنی عیش و عشرت‘ اللے تللوں اور مراعات پر کوئی حرف نہ آنے دینے بلکہ مزید عیش و عشرت کے راستے نکالنے کی قانون سازی کرنے اور میزانیوں میں بدرجہ اتم اس کا پوری دیدہ دلیری کے ساتھ اہتمام بھی کرنے والے حکمران اشرافیہ طبقات راندہءدرگاہ عوام کو بھی کھلی کرپشن اور کھلی لوٹ مار کے راستے پر ڈال رہے ہیں۔ کیا اس معاشرے کو ہم شرف انسانیت کی پاسداری والا معاشرہ کہہ سکتے ہیں۔
آج پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ چکا ہے مگر حکمران طبقات کے کانوں پر جون تک نہیں رینگ رہی۔ میڈیا کی فعالیت کے دور میں آپ عوام کو کسی بھی ظلم پر احتجاج نہ کرنے والا جانور سمجھ کر بجلی‘ گیس‘ پٹرول کے نرخوں میں انکی استطاعت سے باہر نکلنے والا اضافہ مسلط کرتے جائیں گے تو چارو ناچار عوام بھی اپنے ساتھ ہونیوالی اس سرکاری لوٹ مار کے منابع تک جا پہنچیں گے۔ سو اتحادی حکومت نے بجلی‘ پانی‘ گیس کے بلوں میں بیسیوں ٹیکس لگا کر اور پھر مختلف سلیبز بنا کر بجلی کے ایک سو، دو سو یونٹ کے بل بھی دس‘ بیس ہزار روپے تک پہنچا دیئے جس سے بالخصوص تنخواہ دار طبقات کی تنخواہیں صرف بجلی کے بل ادا کرنے پر ہی صرف ہونے لگیں تو بجلی بلوں میں اس شتر بے مہار اضافے کے محرکات بھی لوگ کھوج لگا لگا کر میڈیا پر لے آئے چنانچہ آج کے بچے بچے کو علم ہو چکا ہے کہ تین دہائیاں قبل اس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے نام پر نجی تھرمل اور رینٹل پاور کمپنیوں کے ساتھ جو معاہدے کئے تھے‘ انہی کمپنیوں نے قومی خزانے کی لوٹ مار کرکے ملک کی معیشت کو اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ آج اسے دیوالیہ پن سے بچانے کیلئے حکومت مفلس عوام کے تن پر رہ جانے والی لنگوٹی بھی چھین لینے کے درپے ہے۔
اسی جستجو میں سوشل‘ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے قوم کے بچے بچے کو علم ہو چکا ہے کہ یہ نجی پاور کمپنیاں کس کس کی ملکیت ہیں اور انکے ساتھ کئے گئے من مانے معاہدوں کی بدولت بجلی کی پیداوار کا ایک یونٹ تک نیشنل گرڈ میں شامل نہ کرنے کے باوجود انہیں اب تک کتنے کھرب روپے کیپسٹی چارجز کے نام پر قومی خزانے سے ادا کئے جا چکے ہیں۔ انوارالحق کاکڑ کی نگران حکومت کے ایک وزیر گوہر اعجاز نے تو نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ کئے ان معاہدوں کی سرکاری دستاویزات لا کر پریس کانفرنس کر ڈالی اور ایک ایک نجی پاور کمپنی کا سارا کچا چٹھہ کھول کر بجلی کے بلوں میں جان لیوا اضافے کی اصل حقیقت بیان کر دی۔ اب وہ ان کمپنیوں کیخلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ کاش وہ یہ کام اس وقت ہی کرلیتے جب وہ متعلقہ نگران وزارت کے منصب پر فائز تھے اور نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ ہر دور حکومت میں ہونیوالے معاہدوں اور ان معاہدوں کی میعاد میں توسیع کے معاملات انکے نوٹس میں آئے تھے۔ شاید اس وقت ان کا حلف آڑے آیا ہو۔ اب انہوں نے چاہے جس بھی اور جس کے بھی ایجنڈے کے تحت نجی پاور کمپنیوں کے جاری و ساری معاہدوں کیخلاف پریس کانفرنس کی‘ انہوں نے بہرصورت حکمران طبقات کی عیش و عشرت اور انکے اختیارات کے ناجائز استعمال کا بھانڈا پھوڑ کر ان کیخلاف عوام کے انقلاب کا جواز تو پیدا کر دیا ہے۔ اس سے یہ حقیقت بھی کھل کر سامنے آگئی کہ پیپلزپارٹی‘ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی سمیت ہر پارٹی لیڈر نے اقتدار میں آکر نہ صرف ان معاہدوں کی توثیق و توسیع کی بلکہ بندر بانٹ میں صرف اپنوں کو نوازنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سو قومی خزانے کی لوٹ مار کرنے والی یہ نجی پاور کمپنیاں کسی حکمران کی اولاد کی ملکیت ہیں‘ کسی کے بھائی‘ بھانجے، چاچے‘ مامے ان کمپنیوں کے مالک ہیں اور کسی حکمران کا کاروباری شراکت دار ان کمپنیوں کا مالک نکلا ہے۔ اور جن بیرونی کمپنیوں کو تھرمل پاور پلانٹس کے لائسنس دیئے گئے‘ ان میں بھی زیادہ تر ہمارے حکمران اشرافیہ طبقات ہی کی شراکت داری ہے۔ ایسی اذیت ناک معلومات حاصل ہونے کے بعد بجلی کے ناجائز بلوں سے عاجز آئے عوام کا مزاج کیوں نہیں بگڑے گا جو پہلے ہی اپنی زندگیوں کی ناآسودگیوں کا یہ کہہ کر انہی حکمران طبقات کو ذمہ دار ٹھہرا رہے تھے کہ
آپ تے پِیویں بکّاں شربت
سانوں گھٹ گھٹ زہر پلاویں
جماعت اسلامی نے عوام کے انہی جذبات کا بروقت احساس کیا اور روایتی سیاست کاری سے باہر نکل کر صرف بجلی کے ناروا بلوں اور نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ ہونیوالے معاہدوں کیخلاف عوام کو باہر نکال لائی ہے جس کا دھرنا پورے جذبے کے ساتھ لیاقت باغ راولپنڈی میں جاری ہے۔ حکومتی ٹیم امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان اور لیاقت بلوچ کی سربراہی میں قائم کی گئی‘ انکی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ گونگلوﺅں سے مٹی جھاڑنے والے مذاکرات میں مصروف ہے اور انہیں دھرنا ختم کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر جماعت اسلامی کی قیادت حکومتی رویے کو دیکھ کر دھرنا تحریک پورے ملک میں پھیلانے کا عزم باندھے بیٹھی ہے۔
حافظ نعیم الرحمان نے دوٹوک اعلان کیا ہے کہ بجلی بلوں میں لگائے گئے تمام ناروا ٹیکسوں کے خاتمہ اور آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی منسوخی تک ان کا دھرنا جاری رہے گا۔ بلاشبہ یہ خالصتاً عوامی جذبات کی ترجمانی کرنے والی تحریک ہے جسے بزور دبانے کی کوشش کی جائیگی تو راندہ درگاہ عوام اس تحریک کا دھارا انقلاب کی جانب موڑ دیں گے۔ اس انقلاب کا رخ کس جانب ہو گا‘ وزیراعظم شہبازشریف صاحب کو بخوبی اس کا ادراک ہے جو بڑھتے عوامی اضطراب کی بنیاد پر ہی خونی انقلاب کا اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں عندیہ دیتے رہے ہیں۔
آج اس سے بڑی سفاکی اور کیا ہو سکتی ہے کہ محترم وزیراعظم کی کابینہ کے دو ارکان اپنے بیانات کے ذریعے مضطرب عوام کو مزید مشتعل کرکے انہیں خونیں انقلاب کا راستہ اختیار کرنے کی خود ہی دعوت دے رہے ہیں۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا یہ کہنا کہ پارٹیاں سیاست اور لانگ مارچ کے بجائے ملکی مسائل کا حل نکالیں اور توانائی کے وزیر اویس لغاری کا یہ کہنا کہ نجی پاور کمپنیوں کے ساتھ کئے گئے معاہدے بہرصورت برقرار رہیں گے جن میں کسی قسم کا ردوبدل نہیں کیا جا سکتا‘ کیا مضطرب عوام کو مشتعل کرکے خونیں انقلاب کے راستے پر چلنے کی دعوت نہیں دے رہا۔ یقیناً ان حالات میں سیاسی جماعتوں اور انکی قیادتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ عوام کے جذبات کے ساتھ کس طرح کھڑی ہوتی ہیں اور ان کیلئے دوزخ بنائی جانے والی اس دھرتی کو انکے قبرستان میں تبدیل ہونے سے بچانے کیلئے کیا کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر حکمران اتحادی جماعتوں نے موجودہ حالات میں اپنی سیاسی بقاءکیلئے کوئی چارہ کرنا ہے تو انہیں بہر صورت عوام کے زخموں پر حقیقی ریلیف والے پھاہے رکھنے ہونگے یا اپنی مجبوریوں کا اعلانیہ اظہار کرتے ہوئے اقتدار سے باہر آکر خود کو عوامی جذبات کا حصہ بنانا ہوگا۔ آج کی سیاست کسی پارٹی کے بانی قائد کی صرف رہائی اور انہیں ہر صورت اقتدار میں واپس لانے کی سیاست نہیں بلکہ آج کی سیاست خالصتاً عوام کو مہنگائی‘ ناروا بجلی بلوں اور قومی خزانے کی لوٹ مار کرنے والی نجی پاور کمپنیوں سے نجات دلانے کی سیاست ہے اور سیاست کا یہ تقاضا اس وقت صرف جماعت اسلامی نبھا رہی ہے۔