آئی ایم ایف معاہدہ اور پاکستان کی خود مختاری

موجودہ حالات میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرضہ لینا پاکستان کی مجبوری تو ہے لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کو اس حال تک ان لوگوں نے پہنچایا ہے جو یکے بعد دیگرے حکومتیں تشکیل دیتے یا ان کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ ہر حکومت میں شامل سیاستدان انتخابات سے عوام کے سامنے پہلے بہت سے دعوے اور وعدے کرتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ منتخب ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچتے ہیں انھیں یہ یاد نہیں رہتا کہ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران کیا کچھ کہا تھا۔ عوام کو ملک کی خود مختاری اور استحکام کے سہانے سپنے دکھانے والے یہ لوگ آج ملک کو اس حالت میں لا چکے ہیں کہ اب ہم آئی ایم ایف جیسے اداروں کی بیساکھیوں کے بغیر چل ہی نہیں سکتے، اور اس کی بھی سب سے بڑی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے جو مراعات و سہولیات دی جاتی ہیں ان کے لیے جتنی رقم کی ضرورت ہوتی ہے وہ اگر مہیا کر دی جائے تو پھر خزانے میں اتنا سرمایہ نہیں بچتا کہ اس سے ملک کے معاملات کو ٹھیک طریقے سے چلایا جاسکے۔ اب ایک بار پھر ہم کشکول لے کر آئی ایم ایف کے در پر کھڑے ہیں اور اس کی طرف سے جو کچھ کہا جارہا ہے اس کا صاف سیدھا مطلب یہی ہے کہ پاکستان کو پوری طرح اس عالمی ساہوکار کا غلام بنا دیا جائے۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ چین نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی حمایت کی ہے، آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری میں چین پاکستان کی حمایت کرے گا۔ ہمیں چین اور امریکا دونوں بلاکس کے ساتھ آگے چلنا ہے۔ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ملکی معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہے ہیں، اگر ٹیکسز بڑھانے ہیں تو حکومت کو بھی عوام کو سہولیات دینا ہوں گی، مقامی سطح پر ٹیکسز کے حوالے سے بات چیت چل رہی ہے، کوشش کر رہے ہیں کہ نچلے طبقے پر ٹیکس کا بوجھ نہ ڈالا جائے۔ وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ تاجر دوست سکیم متعارف کرائی ہے، تاجروں کے لیے ٹیکسیشن کے عمل کو انتہائی آسان کردیا ہے، ٹیکس نادہندگان ملک اور عوام کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، ٹیکس واجبات کی ادائیگی سے معیشت مضبوط ہوگی، تاجر اور سرمایہ کاروں کے لیے سہولیات کی فراہمی ترجیح ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ یکم جولائی سے انڈسٹری کو 68 ارب کے ریفنڈز دیے جاچکے ہیں، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی اصلاحات پر ہر ہفتے میٹنگ ہوتی ہے، وزرائے اعلیٰ زرعی شعبے میں ٹیکس کے لیے قانون سازی لائیں گے، تنخواہ دار طبقہ مجھے کہتا ہے آپ نے ہمارے لیے کیا کیا۔
محمد اورنگزیب نے پریس کانفرنس کے دوران مزید کہا کہ نان فائلرز کا پورا لائف سٹائل کا ڈیٹا موجود ہے، ڈیٹا ہی سب سے بڑا ثبوت ہوگا، ایف بی آرسے ہراسگی ختم ہوگی، نان فائلز کو سینٹرلائزڈ طریقے سے نوٹس کیے جائیں گے، نان فائلرز کو براہ راست نوٹس نہیں بھیج سکیں گے۔ ایک سوال بار بار کیا جا رہا ہے کہ غریب طبقہ پر متعدد ٹیکسز لگا دیے ہیں لیکن حکومت کیا کر رہی ہے، تو میں بتانا چاہتا ہوں کہ وفاقی حکومت اپنے اخراجات سنجیدگی سے کم کرنے پر غور کر رہی ہے اور رائٹ سائزنگ کے لیے 5 وزارتوں کا جائزہ لے رہے ہیں۔ 5 وزارتوں کے بعض شعبوں کا انضمام کر سکتے ہیں، کابینہ کی کمیٹی 5 وزارتوں کے معاملے پر کام کر رہی ہے، آئی ٹی اور ٹیلی کام کے انضمام پر غور کر رہے ہیں، صحت کا شعبہ صوبوں کی ذمہ داری ہے، کشمیر اور گلگت بلتستان کی وزارتیں ضم کرنے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر عشرت حسین کا اداروں کے حوالے سے کام آگے نہیں جاسکا۔
چین کے بارے میں بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے چین کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات ہیں، چین کے ساتھ توانائی پر تفصیلی بات چیت ہوئی، دورہ چین میں پانڈا بانڈ اور کول پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے پر منتقلی کی بات بھی ہوئی۔ چین کے وزراءنے آئی ایم ایف سے بات چیت کو سراہا، آئی ایم ایف بورڈ کی منظوری میں چین پاکستان کی حمایت کرے گا۔ محمد اورنگزیب کا مزید کہنا تھا کہ مقامی یا بیرون ملک سرمایہ کاروں سے معاہدے یکطرفہ ختم کریں گے تو آگے کیسے چلیں گے، اگر میکرو اکنامک استحکام نہیں لاتے تو مسائل پیدا ہوں گے، تمام سرمایہ کاری برآمدی صنعتوں کو کرنا ہوگی۔
وفاقی وزیر خزانہ اس پوری صورتحال کو یوں پیش کر رہے ہیں جیسے اس سے پاکستان کو بہت فائدہ پہنچنے والا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح پھنستا جارہا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ عالمی ساہوکار کی شرائط مزید سخت ہوتی جارہی ہیں۔ محمد اورنگزیب جن اقدامات کی بات کر رہے ہیں ان کے لیے انھیں بیرون ملک سے لا کر مسلط کرنے کی ضرورت ہرگز نہیں تھی، یہ کام تو پاکستان میں موجود بہت سے لوگ کرسکتے تھے۔ آئی ایم ایف کی ہر طرح کی شرائط اور پابندیوں کو اگر مان لیا جائے تو پاکستان ایک ایسی ریاست بن جائے گا جس کی سالمیت محض بات چیت کی حد تک کی باقی رہ جائے گی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ حکومت میں شامل ملک کی دو بڑی جماعتیں اس صورتحال میں ایسی مطمئن دکھائی دے رہی ہیں جیسے یہ معمول کی کارروائی ہو اور ان کے نزدیک ملک کی خود مختاری کوئی اہمیت ہی نہیں رکھتی۔ یہ وہی دو جماعتیں ہیں جن کی قیادت کی طرف سے بار بار دعوے کیے جاتے ہیں کہ ملک کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے انھوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔
آئی ایم ایف سے جو سودے بازی چل رہی ہے اس سے بادی النظر میں یہی تاثر مل رہا ہے کہ ملک کو عملاً آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے اور اس کی خود مختاری اور آزادی داو¿ پر لگا دی گئی ہے۔ تمام تر کڑی شرائط من و عن قبول کرنے کے باوجود آئی ایم ایف کا معاہدے کے لیے تین ملکوں کی تصدیق کی بات کرنا حکمرانوں کے لیے انتہائی تشویش ناک ہونا چاہیے۔ اگر اس کی اس شرط پر بھی سر تسلیم خم کر لیا گیا تو کل کو یہ ہماری سلامتی کے درپے ہمارے ازلی دشمن بھارت جیسے ملک کو بھی ہم پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا۔ ملکی سلامتی اور خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ بہتر ہے کہ ملکی وسائل اور دوست ممالک کی معاونت پر انحصار کیا جائے تاکہ آئی ایم ایف سے مکمل چھٹکارا مل سکے۔

ای پیپر دی نیشن