ڈرامے اور ڈرامے باز

سینٹ کے پا رلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہنستے بستے پاکستان کو منصوبے کے تحت پستی میں دھکیلا جا رہا ہے۔ عرفان صدیقی کا اصل تعلق علم و ادب سے ہے اور علم و ادب سے تعلق رکھنے والے آج بھی اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔ عرفان صدیقی حساس دل رکھنے والے انسان ہیں لیکن وہ ایک لمحے کو یہ بھی سو چیں کہ اِس وقت حکومت تو اُنکے محبوب لیڈر نواز شریف اور اُنکے خاندان کی ہے۔ نواز شریف کسی کی بات مانیں نہ مانیں مگر عرفان صدیقی کی بات کو وہ کبھی نہیں ٹال سکتے تو میں اپنے ذی وقار کولیگ سے یہی فرمائش کر سکتی ہوں کہ آپ اپنے محبوب لیڈر کو بتا ئیں بلکہ سمجھائیں کہ حکومت اُنکا پورا خاندان کر رہا ہے۔ بھائی وزیر اعظم، بیٹی وزیر اعلیٰ، سمدھی وزیر خارجہ اور آگے سے نائب وزیر اعظم بھی بنا دیا ہے جس پر ملک بھر میں ہر آدمی نے انگلیاں اٹھائی ہیں۔ کیا اس ملک میں سارے لائق اور قا بل لوگ مر گئے ہیں کہ اسحا ق ڈار کو ایک اہم ترین وزارت دیکر ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا گیا ہے پھر اللہ کے فضل سے یہ حضرت سینیٹر بھی ہیں۔ اس سے پہلے بھی جب اسحاق ڈار ایک دن سینٹ اجلاس میں نہیں آئے اور لند ن میں بیٹھے مزے کر رہے تھے تو پی ڈی ایم حکومت میں واپس آ کر پورے پانچ سال کی تنخواہ بونس الائونسز سب وصول کر لیے تھے۔ یہ پیسہ غریب عوام کی جیبوں سے زبردستی نکالا گیا تھا۔ اب آج وہ بطور سینیٹر، وزیر خارجہ اور ڈپٹی وزیر اعظم کے عہدوں کا پرو ٹوکول، تنخواہیں، مرا عات سب وصول کر رہے ہیں۔ اس بات کی صرف ایکدن میں انو یسٹی گیشن ہو سکتی ہے۔ وزیر اعظم خوشنودی کی خاطر لاکھ کہیں کہ اسحاق ڈار اور وزراء تنخواہیں نہیں لے رہے مگر ہم جانتے ہیں کہ جن کی نیچر یہ ہو کہ چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔۔۔۔بھلا وہ تنخواہیں کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ اس ملک کا نا خوانداہ جاہل آدمی بھی جانتا ہے کہ پوری کابینہ ڈٹ کر تنخواہیں لیتی ہے۔ تمام مرا عات حا صل کر تی ہے اور اُن کے پرو ٹوکول پر کروڑوں اربوں روپے سالانہ گا را مٹی ہو تا ہے جبکہ یہ لوگ اپنی اپنی وزارتوں میں ٹکے کا کام نہیں کررہے ہیں۔ وزارتِ اطلاعات کا کام الزام تراشی اور جھوٹ در جھوٹ ہے۔ وزارت قانون اپنی مرضی سے آئین اور قانون کی تشریح اوراپوزیشن کو لعن طعن کرتا ہے۔ پی ٹی آئی پر چاہے صبح شام فا تحہ خوانی ہو یا لعنت ملامت کی جائے وہ اسی قابل ہے،لیکن کم از کم یہ لوگ اپنے حصے کا کام تو کریں۔ وزارتِ خا رجہ کو ہی لے لیں جو سُقم اور ابہام سے بھری ہے۔ اسحاق ڈار کو صرف دو ہی کام ہیں۔ ایک پیسہ بنانا دوسرے غیر ملکی سیر سپاٹے۔ عرفان صدیقی صاحب! آپ بُرا محسوس کر رہے ہونگے کہ میں یہ کیا کہہ رہی ہوں مگر کیا کروں، عا دت سے مجبور ہوں۔ یہ ملک میرے آبائو اجداد نے اپنی جانوں اور جائدادوں کی قربانیاں دیکر بنایا تھا۔ جب پاکستان کو تباہ و برباد ہوتے دیکھتی ہو ں تو تڑپ جاتی ہوں۔ سچ کی انگلی تھام کر مجھے حق کی آواز بلند کرنی ہی پڑ جاتی ہے۔ آپ یقینا جانتے ہیں کہ سچ کڑوا کسیلا ہو تا ہے۔ میاں نواز شریف سے میری فیملی کا تعلق لگ بھگ پچا س سال پرا نا ہے۔ میری دادی آمنہ سعید بیگم اور مریم نواز کی دادی بیگم شمیم شریف آپس میں دوستوں اور بہنوں جیسی تھیں۔ نواز شریف کے لیے میرے پورے خاندان نے بہت خدمات انجام دی ہیں۔ ہم اپنے حلقے سے نواز شریف کے علاوہ کسی کو جیتنے نہیں دیتے تھے۔ نواز شریف میری دادی کے بہت چہیتے تھے۔ بیگم کلثوم نواز شریف اور میری دوستی بہت مشہور تھی۔ نوا ز شریف اور بیگم کلثوم نواز مجھ سے کبھی غافل نہیں رہے۔ وہ جدہ سے بھی مجھے فون کیا کرتے تھے لیکن میں جو کچھ کہہ رہی ہوں، بطور پاکستانی کہہ رہی ہوں کہ میاں نواز شریف نے بیشمار اچھے اور انمٹ کام کیے ہیں۔ اس وقت اُن کے کم و بیش تین درجن عزیز صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی،سینٹ میں بیٹھے ہیں۔ قرضے بھی دھڑادھڑمل رہے ہیں اور آئی ایم ایف بھی مہربان ہے۔ پورے ملک پر ٹیکسوں کی مد میں کھربوں روپیہ بھی اکھٹا کیا جا رہا ہے پھر ہر وقت خالی خزانے کا رونا کیوں رویا جارہا ہے۔ مریم نواز نے کوڑا ٹیکس لگا کر اپنے لیے بے پناہ مسائل پیدا کر لیے ہیں۔ ساری دنیا میں ’کوڑا ٹیکس‘ کا مذاق اُڑا یا جا رہا ہے۔ لوگ پہلے ہی خاکروبوں کو ماہانہ ادا ئیگیاں کر تے ہیں۔ سوسائیٹیاں کوڑے اُٹھانے اور مینٹنینس وصول کرتی ہیں اور یہ رقم دوگنا زا ئد ہر مہینے وصول کی جاتی ہے۔ ایسے میں کوڑا ٹیکس لگا کر اپنے پائوں پر کلہاڑا مارنے کے مصداق ہے۔ ہر شخص حیران ہے یا ہنس رہا ہے کہ یہ انتہائی شرمناک اور تضحیک آمیز ٹیکس ہے جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے کیونکہ صفائی اور صحت ریاست کی ذمہ داری ہو تی ہے۔ صدیقی صاحب ذرا بتا ئیے تو سہی کہ کو ن سے فا ضل عا قل مشیر ان لوگوں کو ایسے تضحیک آمیز مشورے دیتے ہیں۔ملک میں پہلے ہی چینی کے لالے پڑے ہیں اور چینی چا ندی کے بھائو بک رہی ہے لیکن شوگر ملز مالکان نے مزید12 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت مانگی ہے جو مل گئی ہے۔کیا یہ کُھلا تضاد نہیں ہے کہ اپنی بہترین چینی باہر بیچی جائے گی پھر ہلکی اور گھٹیا باریک چینی با ہر سے منگوائی جائے گی۔ کیا یہ ایک بڑا اور گھٹیا ڈرامہ نہیں ہے۔ سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ آئی پی پیز کو بغیر آڈٹ 341ارب روپے دیدئیے گئے ہیں ۔ پچھلے سال پی ڈی ایم کی حکومت نے پینشن میں اضافہ 17.5% اور اس مرتبہ 15% ، کیونکہ پینشنرز کو چند ہزار روپے کی پینشن دینے سے قومی خزانہ خالی ہو جاتا ہے۔جن لوگوں نے زندگی کے تیس چا لیس سال ملک اور اداروں کی خدمت کر کے جوانیاں گنوائی ہیں۔انھیں بڑھاپے کمزوری، بیماری اور تنہائی کی حالت میں چند ہزار روپے کی پینشن دیتے حکومت کا دم نکلتا ہے لیکن آئی پی پیزبغیر کسی کام اور بغیر بجلی فراہم کئیے اربوں روپیہ کھا رہے ہیں۔ اُنکے گلے میں پٹہ نہیں ڈا لا جاتا ۔جما عت اسلامی نے بجلی کے بِلوں پر ناجائز رقمیں وصول کر نے پر دھرنا دیا ہوا ہے تو حکومت کی جانب سے نئی ڈرامہ بازی شروع ہو گئی ہے جب بجلی پانی گیس نہیں آتی۔ تینوں کی لوڈ شیڈنگ چلتی ہے پھر ایک اے سی، دو تین پنکھے اور لائٹس جلانے پر ہزاروں لاکھوں کے بِل کیو ں دیں اور کہا ں سے دیں۔ پینشنرز دوا لیں، روٹی کھائیں، کرائے دیں یا بِل بھریں۔ حال ہی میں حکومت کے تعا ون سے ایک بڑا ڈرامہ ر چا یا گیا ہے جب پاور ڈویژن نے ڈرامہ کر نے کے لیے کہا کہ پارلیمنٹیرنزکو مفت بجلی نہیں ملے گی تو اراکین پارلیمنٹ نے سپیکر سے احتجاج کیا کہ ہم بجلی پانی گیس کا بِل دیتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی بڑا اور بدبو دار جھوٹ ہے کیونکہ ان سب کو گاڑیاں پٹرول رہا ئشگاہیں، بجلی پانی گیس فون سب فری ہے۔ یہ لو گ انتہائی شدید گرمی اور حبس میں تھری پیس سوٹ پہن کر گھروں دفاتر اور اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں جہاں بڑے بڑے اے سی پلانٹ پوری طاقت توانائی سے چل رہے ہوتے ہیں۔ ایک ایسا غریب ملک جہا ںلوگ بھوک پیاس سے تڑپ رہے ہیں۔ گھر کی چیزیں اور بچے بیچ رہے ہیں۔ لیکن حکومت کے اللیّ تللیّ ختم نہیں ہو رہے۔ آدھا ملک باہر جا رہا ہے اور آدھا بھوک افلاس سے مر رہا ہے۔ اگلے سال پاکستان میں لوگ باقی نہیں رہیں گے۔ عرفان صدیقی صاحب، سچ کے لیے معذرت چا ہتی ہوں مگر بہت ساری کالی بھیڑیں حکومت کے اندر ہیں۔ میاں نواز شریف کو میر ی طرف سے کہیں کہ ان سب کو ختم کر ڈالیں ورنہ یہ لوگ پاکستان کو زندہ نہیں چھوڑیں گے۔  

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...