پاکستانی قوم آج کل ایک ایسے عذاب کا شکار ہوچکی ہے کہ جس کا تدارک ابھی دور دور تک نظر بھی نہیں آتا، قوم پر جو عذاب مسلط کیاگیاہے یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ آہستہ آہستہ جونک کی طرح اس ملک کا خون چوسنا شروع کیاگیا اب ملک میں سکت باقی رہی ہے نہ قوم میں مگرجونکوں کو تو خون چاہئے وہ تو ہر صورت یہ چوسیں گی کیونکہ انکے ساتھ معاہدے ہی اس طرح کے کئے گئے ہیں۔
1988 ء میں جب پیپلزپارٹی کی حکومت آئی تو اس وقت سرکار کے کھاتے میں چلنے والے بجلی پیداکرنیوالے کارخانوں کی نجکاری کردی گئی اوراس نہتی قوم کو پہلی بار لفظ آئی پی پیز سننے کو ملا، پھر بے نظیر بھٹو،نوازشریف اور جنرل پرویز مشرف نے بھی اس بھولی قوم کو مڑدہ سنایا کہ لوڈشیڈنگ کا مستقل حل تلاش کرلیا گیا ہے دراصل یہ حل نہیں تھا بلکہ قوم کو زندہ درگور کرنے کے معاہدے تھے جن کے مطابق فرنس آئل سے پیدا بجلی بھاری قیمت پر خریدی جانی تھی۔
پاکستان میں اس وقت ہر شہری بجلی کے ہوشربا بلوں کی وجہ سے پریشان نظر آرہا ہے، یہ پریشانی اب خودکشیوں کی طرف بڑھ رہی ہے،لوگ گھرو ں کا ساما ن بیچ بیچ کر بجلی کے بل ادا کروارہے ہیں مگر یہ وار تو اب ہر مہینے پہلے سے کاری ثابت ہورہا ہے ان حالات میں غریب کدھر جائیں؟
عوام کو جیتے جی مارنے کا سہرا ’’الحمدللہ‘‘ ہمارے حکمرانوں کے سر ہی سجتاہے ہمیشہ کی طرح جنہوں نے بجلی پیدا کرنیوالے سرمایہ کاروں کے ساتھ ایسے ملک دشمن معاہدے کئے ہیں کہ و ہ بجلی پیدا کریں یا نہ کریں انکے ساتھ جتنی بجلی پیدا کرنے کامعاہدہ کیا گیا ہے اتنی رقم انہیں ہرمہینے ڈالروں میں ہرصورت ادا کرنی ہے اور اکثر یہ کارخانے بغیر بجلی پیدا کئے بھاری بھررقم سود سمیت وصول بھی کررہے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت کم وبیش 45824 میگاواٹ بجلی پیدا کرنیکی کی گنجائش موجود ہے مگر ملکی طلب شدید ترین گرمی میں بھی 30 ہزار میگا واٹ کے قریب ہے جبکہ ٹرانسمیشن لائنز کی حالت بھی تسلی بخش نہیں مگر حکومت آئی پی پیز مالکان کو ہر مہینے 45824میگاواٹ کی رقم ادا کررہی ہے، آئی پی پیز ایک ایسا سفید ہاتھی بن چکا ہے جو ملک کے تمام وسائل ہڑپ کررہاہے۔
پاکستان میں پانی سے پید اہونے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت انتہائی کم ہے مگر فرنس آئل سے پید ا ہونیوالی بجلی عوام کو 70 سے 80 فی یونٹ تھوپی جارہی ہے۔
واپڈا ذرائع کے مطابق اب ملک میں پن بجلی اورنیوکلیئر یونٹس سے بجلی پیدا کرنیکی کی گنجائش 38 ہزار میگاواٹ تک پہنچ چکی ہے جبکہ پاکستان میں بجلی کی ضرورت 25 سے 30 ہزار میگاواٹ تک ہے اور فی یونٹ اسکی پیدا واری لاگت بھی صرف تین روپے تک ہے لیکن دوسری طرف جو آئی پی پیز معاہدے ہیں انکے ہوتے ہوئے صرف ان ’’جنات‘‘ کا پیٹ ہی یہ قوم بھر دے تو بہت بڑی کامیابی ہوگی۔
عمران خان کے دور میں پاکستان میں نئے ڈیم بنانے کیلئے نہ صرف فنڈریزنگ کی گئی بلکہ سنگ بنیاد بھی رکھے گئے،ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو ایوب خان کے دور میں بننے والے ڈیم اب تک اس قوم کو بچارہے ہیں، ہمارے ہمسایہ میں بھارت نے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے ڈیم بناکر ہمارا پانی روک رکھا ہے لیکن جن دریاؤں کے پانی کا اختیار ہمارے پاس ہے وہ بھی سمندر میں جاکر غرق ہوجاتا ہے کیونکہ قوم کی بھلائی ہمارے حکمرانوں کی ترجیح نہیں ہے، دنیا میں ترقی کرنیوالی قومیں سو100 سال کی پلاننگ کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اگلے روز کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔
پاکستان میں بجلی کے بلوں اور آئی پی پیز کے ساتھ قوم دشمن معاہدوں کے بعد جو صورتحال بن چکی ہے اب اس ملک میں غریب آدمی کیلئے زندہ رہنا آسان رہ گیا ہے نہ ہی مرنا،ملک وقوم کے فیصلہ سازوں کو فوری سر جو ڑ کر بیٹھنا چاہئے کہ اس عذاب سے کیسے جان چھڑائی جا سکتی ہے فیصلہ ساز اس فیصلہ میں جتنی تاخیر کریں گے اتنا ہی اپنے لئے ’’قبر‘‘ کھودیں گے کیونکہ عوام تو پہلے ہی ’’دفن‘‘ ہوچکے ہیں۔