قارئین! پاکستان اپنی 76سالہ تاریخ کے سب سے خوفناک دور میں سے گزر رہا ہے۔وجوہات تو اس کی بے شمار ہیں مگر سردست چند ایک کا تذکرہ ضروری ہے۔ پاکستان 1947ء کے بعد ایک عزم کی طرف رواں دواں تھا اور اس عزم کا گول اور مقصد ایک قوم بننا تھا۔ کیونکہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان کا انتخاب کرنے والے لوگوں کے لیے ہم نے اس سراب کا نام پاکستان رکھا تھا ۔ ہمارے ساتھ ہی بھارت بھی آزاد ہوا جسے بے شمار داخلی، خارجی مشکلات سے واسطہ پڑا تھا۔ پاکستان کے اندر صرف چند ایک علاقے ایسے تھے جن کو ریاست کا درجہ حاصل تھا، جیسے سوات اور بہاولپور لیکن بھارت کے اندر ایسے پانچ سو ساٹھ علاقات جات تھے جنہیں اس وقت مکمل ریاست کا سٹیٹس حاصل تھااور جنہیں یہ مکمل آزادی بھی تھی کہ وہ چاہیں تو بھارت کے ساتھ الحاق کر لیں یا ایک آزاد ریاست کے طورپر اپنا سفر جاری رکھیں۔ان میں سے ریاست جونا گڑھ ،حیدرآباد دکن اور ایسی سینکڑوں ریاستیں تھیں لیکن تقسیم ہند کے بعد کی سیاسی قیادت نے بھرپور سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ ہی دنوں میں ان ریاستوں کو فوج کے ذریعے اپنے زیرانتظام کر لیا۔اور ان کی آزاد حیثیت بھی ختم کرکے راجوں، مہاراجوں کو بے توقیر کر دیا ۔اور پھر جلد ہی پنڈت نہرو نے لال بہادر شاستری جیسے زیرک اور مکار سیاستدانوں سے ملک کر بھارت کو جاگیرداری سے پاک معاشرہ بنانے کا عزم ٹھانا ۔اور پھر زرعی اصلاحات کرکے فی خاندان صرف ساڑھے بارہ ایکڑ زمین رکھنے کا اختیار دیا۔ جو آج تک بھی بھارت میں ایک وفاقی اصول کے طور پر قائم ہے۔ جس سے نہ صرف بھارت کے اندر آگے بڑھنے اور ترقی کا رحجان شروع ہوا بلکہ ملک کے اندر ایک ترقی اور منازل طے کرنے کی ایک دوڑ شروع ہو گئی۔جب کہ ملک خداداد پاکستان میں سب سے بڑا مسئلہ انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجر مسلمانوں کا تھا۔جن کی آبادکاری ایک بڑے آسیب کی صورت میں ہم پر ٹوٹ پڑی۔جب کہ تقسیم کے بعد بننے والے پاکستان میں کوالیفائیڈ اور پڑھے لکھے مسلمانوں کی ایک بہت کم تعداد ریاست کو دستیاب تھی اور بڑے بڑے انتظامی عہدے ان کے حوالے کر دیئے گئے ، جنہوں نے مہاجرین کی آبادکاری کے نام پر خوب معاشی ادھم مچایا اور مقامی کسانوں اور زمینداروں کے حصے میں کچھ بھی نہ آیا۔اور زمینوں کے جو بڑے لاٹ اور مربعے بظاہر خالی ہوئے تھے وہ بھارت سے آنے والے پنجابی مہاجرین میں تقسیم کر دیئے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ آج پنجاب کے مقامی جاٹوں اور زمینداروں کے پاس اتنی ملکیتی زمینیں نہیں ہیں جتنی بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے راجپوت گھرانوں کے پاس موجود ہیں۔جنہوں نے سچے جھوٹے کلیم ظاہر کرکے پنجاب کی یہ زرعی زمینیں ہتھیانے میں کامیاب ہوئے۔ اور یہی سے پنجاب کے اندر پنجابیوں کو اور کراچی اور سندھ کے اندر مقامی سندھیوں کو ایک زبردست دھچکا لگا۔ پاکستان کے اندر ایک دوسرے سے کھینچا تانی کے دور کا آغاز ہوا۔یہی وہ دور تھا جب پاکستان کے ہر انتظامی عہدے کا سربراہ یا افسران یا تو سید برادری سے تعلق رکھتے یا راجپوت برادری سے۔کیونکہ یہی طبقات اس زمانے کے پڑھے لکھے طبقات تصور کیے جاتے تھے۔اور یہی طبقات بھارت سے درآمد کیے گئے تھے۔جنہوں نے پاکستان آ کر پنجاب اور سندھ کی زمینوں پر آبادکاری کے نام پر قبضے کر لیے اور کراچی ،لاہور ،لائل پور، راولپنڈی اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں انڈسٹری پر بھی اپنا تسلط جما لیا۔دوسری طرف ایک اور طبقہ جس نے قیامِ پاکستان سے پہلے تقسیم ہند کی کھلم کھلا مخالفت کی تھی لیکن پاکستان کے وجود میں آ جانے کے بعد یہی طبقہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ کا نعرہ لگاتے ہوئے پاکستان کو ایک ایسی سمت کی طرف لے کر چل پڑا جہاں پر فرقہ واریت کے عروج کے لیے کافی وسائل اور ٹارگٹس بھی موجود تھے۔ جیسے جمعیت علمائے اسلام ،جماعت اسلامی اور سندھ میں میمن اور سادات خاندان اس کی آج زندہ مثالیں موجود ہیں۔ اور اوپر سے نئے بننے والے زمینداروں اور صنعت کاروں کے درمیان ایک نیا پھڈا شروع ہو گیا اور یہ ایک دوسرے سے برسرِپیکار ہو گئے۔اور پھر بائیس خاندانوں کا نعرہ لگا کر پورے پاکستان میں صنعت کاروں کے خلاف ایک محاذ کھڑا کیا گیا اور صنعت کار خاندان کو قومی مجرم تک گردانا گیا یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوشہید نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد جب اقتدار سنبھالا تو اس نے تمام کارخانے ،فیکٹریاں اور بڑے صنعتی ادارے قومی تحویل میں لے لیے تھے۔جس سے پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کا رحجان دم توڑنے لگا ۔اور پاکستان میں موجود سرمایہ کار اور صنعت کار بددل ہو کر پاکستان سے اپنا سرمایہ یورپی اور دیگر ممالک میں منتقل کرنے لگے۔چونکہ پاکستان میں انہیں کوئی صنعتی انقلاب یا چارم نظر نہیں آتا تھا ۔جس سے یہ ہوا کہ زمینیں خالی اور بیکار پڑی رہیں اور دوسری طرف صنعت کار پاکستان سے غائب ہونا شروع ہو گئے۔
بعد میں لاکھوں ایکڑ زمینیں فوجی افسران میں تقسیم ہونے لگیں اور دولتانے ، مزاری، لغاری، وٹو، سادات او رمخدوم یہ سب ایک مافیا کی صورت میں چھوٹے کسانوں کا استحصال کرنے لگے۔ اور خود ان کے بچے تعلیم کے لیے ایچی سن اور آکسفورڈ میں پڑھنے لگے تھے۔اس درمیان ملک میں سیاسی بلوغت چونکہ میسر نہ تھی بلکہ سیاسی نرسریاں ہی موجود نہ تھیں۔اس لیے فوج کو بار بار سیاست میں دراندازی کرنا پڑی اور آج پاکستان کے 76سالوں میں سے 40سال فوج نے ڈائریکٹ اور باقی کے 30سال اِن ڈائریکٹ اقتدار کے ایوانوں کو یرغمال بنائے رکھا۔ اور آج ہمارے پاس جو جوڈیشری ،سیاسی ،عسکری ،صنعتی اور جاگیردارقیادت میسر ہے یہ سب لوگ ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی روپیہ ڈالر کے مقابلے میں تقریباً300روپے کا ہو گیا ہے۔اور پاکستان ایک ناکام ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پہ شرمندہ شرمندہ سا نظر آتا ہے ۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی بھی کامیابی یا مثبت خبر نہیں کہ ہم ایک نیوکلیئر پاور والے پاکستان ہیں۔
قارئین! یہ تھی وہ مختصر سی کہانی اور اسباب جنہوں نے پاکستان کی بنیادوں سے لے کر عمارت کی اوپرلی منزل تک بننے کے دوران نشاندہی کر دی ہے کہ جس عمارت کی بنیادوں میں ہی سقم چھوڑا جائے وہ عمارت کبھی پائیدار نہیں ہوتی۔’’خدانخواستہ‘‘ اس لیے تصورِ اقبالؒ اور بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد جناح کے ویژن اور خوابوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں ایک نیا سفر شروع کرنا ہوگا جس کا آغاز آج سے کر لیں یا اگر پاکستان بچا رہا تو اس کا سفردس سال بعد شروع کر لیں۔یقینا نیا سفر تو ہمیں شروع کرنا ہی پڑے گا یا یوں کہیے کہ کہیں نہ کہیں سے ہمیں اس مشکل سفر کا آغاز کرنا ہوگا۔ایک دفعہ ہم نے 1947ء میں قربانیاں دیں اور پھر 1971ء میں آدھا ملک قربان کیا۔ اب ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں بچا۔اب چارولاچار ہمیں ایک منزل کا تعین کرنا ہوگا۔جرمن، چینیوں اور کورین کی طرح انتھک محنت کرکے وطن بنانا ہوگا۔ جسے ہم سب اپنا پاکستان کہہ سکیں۔(انشاء اللہ)