مذہب و سائنس… حکمت و علمیت کا درس 

یہ سوال خاصا پرانا ہے،سائنس اور دین میں مطابقت ہے یا یہ ایک دوسرے سے مخالفت و مخاصمت رکھتے ہیں؟اس کا جواب سب سے پہلے ہدایت کا سرچشمہ و منبہ قرآن حکیم میں تلاش کرنے کی ضرورت ہے،پھر احادیث کی روشنی میں اس کا تجزیہ کرنا چاہیئے اور آخری ذریعہ انسانی عقل و سمجھ و دماغی خلیئوں میں محفوظ علم کی دولت ہے۔گر ہم آخری پہلو سے گفتگو کا آغاز کریں گے،یہ ہمارے علم کا تکبر تصور کیا جائے گا اور اس سے اللہ بزرگ و برتر کی تعلیمات کی نفی ہو جائے گی۔قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہمیں علم تفویض کیا،جب سائنسی دنیا اندھروں میں ٹپے ٹوئیاں مار رہی تھی،اسے مختلف آیات کی روشنی میں دیکھنا چاہیئے اور یہ ہمارے چودہ طبق روشن کر دے گا۔اللہ رب العزت نے فرمایا،"آسمان و زمین کو پھاڑ دیا"،سائنسی تعلیمات ایک دھماکہ کی بات کرتی ہیں اور یہ آیت اسی واقعہ کی سمت ایک اشارہ ہے اور اس حقیقت کا بین ثبوت بھی!دوسرا اہم سائنسی نکتہ ،ڈارون کی مشہور زمانہ نظریہ ہے،جس میں انسان کی پیدائش کو کیڑوں سے جوڑا گیا اور مالک دو جہاں فرماتا ہے،"تمہیں کیڑے کی شکل میں پیدا کیا، پھر ہم نے تمہیں بہترین شکل و صورت عطا فرمائے۔"
اب ذرا انسانی پیدائش پر نظر ثانی کریں،قرآنی آیت میں،" نر و مادہ خلیئوں کا آپس میں ملاپ ہوتا ہے"،اس کا تذکرہ فرمایا،سائنس نے اس بات کو کوئی صدیوں کے بعد پہچانا اور اب یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے۔اگلا مرحلہ خلیئوں کا تیزی سے بڑھنا،ان کو مختلف پرتوں میں سنوارنا اور تین جھلیوں میں تاریک کوٹھڑی میں محفوظ کردیا ہے۔یہ سارے حقائق قرآن میں صدیوں پہلے بیان ہوئے،اس زمانے میں نہ خوردبین تھی اور نہ جنین کے ماہرین تھے۔سائنسی ماہرین نے ان ساری تکنیکی حقائق پر صدیوں بعد تحقیق کی اور قرآن کی نہ صرف سچاء کا ثبوت فراہم کیا،بلکہ اس مفروضے پر بھی ٹھنڈے پانی کا گھڑا انڈیل دیا کہ دین و سائنس مخالف ہیں اور ان کا ملاپ نہیں ہے!اب خلائی دنیا کی سمت دیکھیں،قرآن کہتا ہے،"سورج چاند و ستارے اپنے اپنے محور میں گھوم رہے ہیں۔"اس باریکی کا انکشاف و اعتراف سائنس نے خاصے عرصہ بعد کیا،پہلے کوپرنیکس نے اور پھر گیلیلیو نے اس بات کو ثابت کیا۔ہمارے خالق دوجہاں نے بیشمار ستاروں کو مسخر کرنے کی دعوت دی،فلکی دنیا کی وسعت پر روشنی ڈالی اور بڑھتے ہوئے نظام شمسی کا ذکر فرمایا۔ان ساری باتوں کو سائنس نے ایک جامع شکل دی،تحقیق و تجسس کا دریا قرآن میں ٹھاٹیں مار رہا ہے اور یورپی سفید فام انسان اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔صدیوں سے انسان اونچے اونچے پہاڑوں کو دیکھ کر مرعوب ہوتا رہا،پھر اللہ نے قرآن میں انھیں میخوں سے تشبیہ دی اور انھیں دنیا کا توازن برقرار رکھنے کا ذریعہ بنایا۔میخ زمین میں گڑی ہوتی ہے،اس کا آدھا حصہ زمین کے اندر ہوتا ہے اور یہی مضبوطی فراہم کرتا ہے۔حالیہ سائنسی تحقیق نے پہاڑوں کی جڑیں زمین کے اندر ثابت کی ہیں،یہ میلوں نیچے گڑھی ہوئی ہیں اور قرآن کی سچاء  اور سائنس کی قرآن سے مطابقت کا ایک اور ثبوت فراہم کرتا ہے۔زمانہ قدیم میں سمندروں کی اتھاہ گہرائیں کا ہمیں کوء علم نہ تھا،قرآن میں ہمارے مولا کا ارشاد ہے،"سمندر کی گہراء میں ہاتھ سے ہاتھ سجھائی نہیں دیتا۔"اللہ اکبر۔چودہ سو سال پہلے نہ آبدوز تھی،نہ کوء جسمانی خول تھے اور رب العزت نے اپنی علم و داناء اور حکمت و علمیت کا ہمیں یہ درس دیا۔صدیوں بعد سمندر کی گہراء  میں انسان نے غوطے لگائے،وہاں موجود محیط تاریکی کو دیکھا اور نہ صرف اللہ کی تعلیمات واضح ہو گئیں،بلکہ ان کا مصمم ثبوت بھی مل گیا۔ انسان نے اللہ کے علم کو سمجھا،اللہ کی آیات پر مکمل ایمان لانے والوں نے سائنس کی روشنی سے ایمان کو نہیں پرکھا،بلکہ ایمانی کرشمات نے سائنس کے مفروضوں پر سچاء کی مہر ثبت کر دی۔مذہب و سائنس کی مطابقت کی یہ چند مثالیں ہیں،ان سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ ان دونوں میں تصادم ہے،اللہ تعالیٰ ہمیں ایمان و ہدایت کی روشنی عطا فرمائے اور دنیاوی علم کے تکبر سے محفوظ رکھے۔آمین

ای پیپر دی نیشن