اسلام میں نظریہ تعلیم کی اساس!

انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کا نائب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ قرآن پاک میں آیا ہے افلا تفکروں، افلا تبصروں، افلا تعقلون (کیا تم غور و فکر نہیں کرتے؟ کیا تم نہیں دیکھتے؟ کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟) چنانچہ رب العزت نے اپنے بندے کو حضرت جبرائیلؑ کے ذریعے سے خود تعلیم دی۔ ارشاد ہوا ’’پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ پیدا کیا انسان کو خون کے لوتھڑے سے۔ پڑھ اور آپ کا پروردگار بہت کریم ہے جس نے تعلیم دی قلم کے ذریعے سے، تعلیم دی انسان کو ان باتوں کی جو وہ نہ جانتا تھا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہی نہیں بلکہ حکم ہے کہ انسان کو پڑھا لکھا ہونا چاہئے چنانچہ مسلمان کے لئے تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہے۔ مسلمان جاہل شخص نہیں ہوسکتا۔ حضرت محمدؐ نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا درس دیا اور اسلامی تعلیمات پر زور دیا۔ اسلامی تعلیمات کا سرچشمہ قرآن مجید ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام پڑھنے اور سمجھنے سے انسان دین و دنیا کی رموز سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیم ہی ہے جو احترام انسانیت کا درس دیتی ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق فضیلت کا معیار پیدائش کی بجائے تقویٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ رموز زندگی کو سمجھنے کے لئے تعلیم پر زور دیتا ہے۔ علامہ ابن خلدون تعلیم کو ایک صنعت قرار دیتے ہیں جس طرح کسی صنعت میں مہارت حاصل کرنے کے لئے بھی کسی ماہر استاد کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح تعلیم و تعلم کی صنعت میں مشاورت حاصل کرنے کے لئے بھی کسی ماہر استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں رب العزت فرماتا ہے کہ ’’اے انسان کیا تو دیکھتا نہیں جو کچھ زمین میں ہے اللہ تعالیٰ نے تیرے لئے مسخر کردیا ہے۔‘‘ آپؐ کا فرمان ہے کہ ’’گود سے لے کر گور تک تعلیم حاصل کرو۔‘‘ اسلام میں علم اور دین اس طرح وابستہ ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ النساء میں فرماتا ہے کہ ’’اور تم کو وہ باتیں سکھادی ہیں جو تم کو پہلے معلوم نہ تھیں۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو مخاطب فرما کر سورہ طہٰ میں فرمایا کہ ’’آپؐ دعا کیجئے کہ پروردگار میرا علم اور زیادہ کر‘‘ حضور نبی اکرمؐ نے حصول علم کی تاکید فرمائی ہے۔ آپؐ کا فرمان اقدس ہے کہ ’’علم ہی کے ذریعہ سے انسان نیکی کے اعلیٰ مدارج تک پہنچتا ہے، او رایک عالم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘ اسلام میں تعلیم کا اولین سلسلہ خود حضور نبی اکرمؐ نے حضرت ارقم مخزومی کے گھر سے شروع کیا۔ یہاں پر انسانیت کا درس دیا جاتا تھا۔ ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہاں کی تعلیم کی بنیاداللہ تعالیٰ کی ذات کو پہچاننے اور اس پر ایمان لے آنے پر تھی۔ انسانوں کے درمیان تعصبات اور امتیازات کے خاتمہ کا سبق ملتا تھا۔ اللہ کی وحدانیت کا درس دیا جاتا تھا۔ معلم انسانیت تعلیم دیتے کہ رب العزت ہی اس کائنات کا مالک ہے اور حقیقی خالق ہے۔ ہر چیز کا نفع و نقصان اس کے اختیار میں ہے۔ رزق میں تنگی و کشادگی بھی اسی کے قبضہ قدرت میں ہے۔ ہجرت کے بعداسلام کا سب سے پہلا دارالعلوم مسجدنبوی قرار پایا۔ اس زمانے کی مساجد یقینا عبادت گاہوں کے ساتھ ساتھ درس گاہیں، انصاف کی آما جگاہیں اور سیاست کے مراکز بھی تھیں۔ مسلمان کے لئے زندگی کے ہر شعبے سے متعلق رہنمائی قرآن مجید اور احادیث نبویؐ سے حاصل کرنا لازم ہے۔ اسلام میں تعلیم کی اہمیت کا اظہار قرآن پاک میں بار بار آیا ہے اور مزید یہ کہ غزوہ بدر کے اسیروں کے متعلق حضور نبی اکرمؐ کا فرمان کہ ’’قیدیوں کو اس شرط پر رہائی دی جائے گی کہ وہ بطور فدیہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں گے۔‘‘ اس لئے مسلمانوں کے لئے نصاب کی بنیاد ہی قرآن مجید ہے۔ چنانچہ حضور نبی اکرمؐ کے زمانے میں ہی قرآن پاک کا پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا لازمی تھا۔ اسلام میں نظریہ تعلیم کی بنیاد قرآن مجید اور احادیث نبوی ہے۔ اسلامی تعلیم زندگی میں اعتدال کا درس دیتی ہے۔ اسلامی تعلیم ہمیں بہترین معاشی نظام سے متعارف کراتی ہے۔ ایک ایسے نظام سے جس کی بنیاد عدل پر ہے جو سرمایہ داری اور اشتراکیت کی خرابیوں سے پاک ہے مگر اس میں دونوں کی خوبیاں موجود ہیں۔ اسی طرح اسلامی تعلیم ہمیں بہترین سیاسی نظام سے متعارف کراتی ہے جس کی بنیاد برابری کے اصول پر ہے۔ اس ذریعہ تعلیم سے انسانوں کے حقوق کا تعین ہوجاتا ہے۔ ابن خلدون کے مطابق ’’نصابِ تعلیم کی بنیاد قرآن پاک کی تعلیم قرار پائی اور لڑکیوں کو سورہ نور خاص طور پر پڑھائی جاتی۔‘‘
 ہشام بن عبدالمالک کے متعلق روایت ہے کہ اس نے اپنے لڑکے کے اتالیق سے کہا کہ ’’پہلے اسے قرآن مجید پڑھائیے، بعدازاں نظم و خطبات عالیہ، نیکی کا فرق، مشہور لڑائیوں کے حالات اور آخر میں فن مکالمہ‘‘۔ اسی طرح ہارون الرشید کے اتالیق کو بلا کر کہا کہ ’’امین کو قرآن مجید، احادیث، نظم پڑھائو اور خطابت و فصاحت کی قدر شناسی سکھائو۔‘‘
 مختصر یہ کہ اسلام میں نظریہ تعلیم کی بنیاد قرآن مجید اور احادیث ہے۔ قرآن مجید کو پڑھنے اور سمجھنے کے لئے زبان پر عبور لازمی ہے۔ چنانچہ عربی کی اہمیت حضورؐ نے خود بیان فرما دی جس کی تقلید دوسرے علماء فضلا نے بھی کی۔ حضور نبی اکرمؐ زبان کے معاملے میں ہمیشہ احتیاط برتنے کا حکم دیتے۔ ایک مرتبہ کسی عرب نے محاورہ کے استعمال میں کوئی غلطی کی تو آپؐ نے لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا ’’اپنے اس بھائی کی اصلاح کرو، وہ بھٹک گیا ہے۔‘‘ اسی طرح حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت حسین بن الحر کو ہدایت کی کہ تمہارے کاتب نے خط میں ایک غلطی کی ہے۔ کاتب کو ایک درہ لگائو۔‘‘ مسلمہ بن عبدالملک کے متعلق روایت ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ وہ بات چیت کے دوران غلطیاں کرنا چہرے پر چیچک کے داغوں سے بھی زیادہ بدنما ہے۔‘‘ حضرت الحسن کو معلوم ہوا کہ ’’ایک ماتحت سردار زبان کی غلطیاں کرنے کا عادی ہے۔ آپ نے اس کے برخاست کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اسلام میں زبان کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں اس بات کی اجازت ہے کہ تعلیم کی بنیاد اپنی قومی زبان پر ہوتا کہ گرد و پیش کی تہذیبی موانست بھی خیر و آگہی کے سفر میں شریک رہے۔ اسلام میں تعلیم کا بنیادی تصور قرآن مجید سے شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ کتاب اللہ کے بعد دیگر کتب کا مہیا کیا جانا بنیادی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں کتب خانوں کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔


uuu

ای پیپر دی نیشن