حضرت شیخ الحدیث خواجہ قاضی قمرالدین کی ولادت باسعادت 23رمضان المبارک ہوئی۔ رمضان المبارک بذات خود رحمتوں اوربرکتوں کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کا سمندر جوش میں ہوتا ہے پھر آخری عشرہ نور علی نورہے اور طاق راتوں میں سے طاق رات … یعنی لیلۃ القدرمیں یہ نعمت خصوصی ، برکت خصوصی اورنورمخصوص چکڑالہ اورعلاقہ پکھڑالہ کو نصیب ہوا۔ آپ کا قبیلہ اعوان جو چکڑالہ شریف میانوالی تلہ گنگ روڈ پر واقع ہے اس وقت ضلع میانوالی ہے 1858 میں بنوں ضلع تھا اورمیانوالی تحصیل تھی۔ حضرت کے والد گرامی قاضی محمد سلیمان علاقہ کے بہت بڑے زمیندار تھے۔
1298 میںشیخ الحدیث قمراولیاء خواجہ قاضی قمرالدین حصول علوم سے فارغ ہوکر چکڑالہ شریف میں تشریف لائے۔ حضرت کو بیفضان نظر شہنشاہ نقشبندی قیوم زمان حضرت دوست محمد صاحب قبلہ قندھاری ،محبوب رحمان پیر دستگیر، حضرت خواجہ مولانا حاجی محمد عثمان دامانی موسی زئی شریف ڈیرہ اسماعیل خان سے خلافت عطا ہوئی اور آپ نے اپنے آبائی علاقہ میں پہلے مدرسہ کی بنیاد رکھی اوریہ شرف بھی آپ کو عطا ہوا کہ اس علاقہ میں دور حدیث کا باقاعدہ آغاز آپ نے فرمایا جلد دو ر دراز سے علم کے حاصل کرنے والے پروانے اس شمع علم پر نثار ہونے کے لئے جمع ہونے لگے خواجگان کرام کی برکت اور نظر کر سے اللہ تعالیٰ نے فضل و کرم کا معاملہ فرمایا اور اس مدرسہ کی شہرت دور دور تک پہنچ گئی۔حضرت قمر الاولیا شیخ الحدیث خواجہ قاضی قمرالدین کے منور قلب مبارک سے خلق خدا ظاہری اور باطنی علوم سے مستفید ہوئی۔ حضرت نے طریقہ عالیہ مجددیہ نقشبندیہ شریف کی اشاعت اورظاہری علوم کی اشاعت اورظاہری علوم کی اشازعت کیلئے زندگی مبارک کا لمحہ لمحہ وقف فرما رکھا تھا عوام کی اصلاح کیلئے حضرت شیخ الحدیث نماز جمعہ کے بعد وعظ فرمایا کرتے تھے وعظ مبارک سادہ اور اتنا پرتاثیر ہوتا تھا کہ جرائم پیشہ لوگ بھی مجلس وعظ میں ہی توبہ کرتے اورفسق و فجور سے ان کی زندگیاں پاک ہوجایا کرتی تھیں اعمال صالح سے آراستہ و منور ہوکر ذکر الٰہی میں مشغول ہوجاتے تھے حضرت کی صحبت مبارک اور تربیت و توجہات مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی تھی کہ آپ کے زیر تربیت طلبا کی عملی حالت بہت جلد سنور جاتی تھی ان کی زندگیوں میں شریعت و طریقت کارنگ جھلکنے لگتا تھا وہ سیرت و کردار میں سنت نبوی ? کے عملی نمونہ نظر آتے تھے۔قاضی قمرالدین سے عشق و محبت و عقیدت اور اخلاص کی برکت سے تمام طلباء بھی حضرت کے مرشد کے پروانے اورعاشق بن جاتے تھے ان طلباء کو دیکھ کر عام لوگ بھی ذاکر بنتے تھے۔ان طلباء کے پاکیزہ اخلاق ، عادات و خصائل سے لوگ متاثر ہوکر غفلت اور بے راہ روی ترک کردیتے تھے۔ مساجد نمازیو کی کثرت سے آباد اور پررونق ہوتی تھیں۔
آپ سے فیض پانے والوں میںمولانا ابو سعد احمد خان بانی خانقاہ سراجیہ کندیاں ضلع میانوالی حضرت محبوب ربانی مولانا محدث ولیٰ بانی خانقاہ نہی شریف ضلع گجرات ، محبوب سبحانی ، غوث زمانی حضرت مولانا حسن بانی خانقاہ سواگ شریف ضلع لیہ ، محبوب سبحانی امام ربانی حضرت مولانا فضل علی قریشی ، بانی خانقاہ مسکین پور شریف ضلع مظفرگڑھ ، محبوب سبحانی غوث زمانی، حکیم حضرت مولانا نور زمان ، بانی خانقاہ کو ٹ چاند نہ شریف ضلع میانوالی ، محبوب سبحانی حضرت سید زادہ محبوب ربانی پیر فضل حسین شاہ خانقاہ شریف پیر پہائی ضلع میانوالی ، حضرت شیخ الحدیث مولانامحمد نصیر الدین غور غشتی بانی خانقاہ دارالعلوم غور غشتی ضلع اٹک ، حضرت شیخ الحدیث مولانا قاضی شمس الدین ڈھرنالوی بانی خانقاہ دارلعلوم گجرانوالہ ، حضرت مولانا محمد امیر ضلع جھنگ ، حضرت مولانا احمد دین گیلوی ضلعشاہ پور ، حضرت مولانا شاہ ولایت ضلع اٹک ، حضرت مولانا رسول حمد برتھال ضلع اٹک اور حضرت مولانا میاں محمد ضلع خوشاب اور نمایاں ہیں …قاضی غلام نبی 14سال تک خطیب و امام رہ چکا تھا انکا رحدیث کی وجہ سے اب اپنے آپ کو اہل قرآن کہلوانا شروع کردیا اور اپنا نام عبداللہ چکڑالوی رکھ لیا اس باطل مذہب کی پروی کیلئے اپنے دونوں صاحب علم بیٹوں، قاضی محمد ابراہیم اورقاضی محمد عیسیٰ پر زور ڈالا دبائو ڈالا لیکن قاضی محمد ابراہیم نے توصاف انکار کردیا۔ عبداللہ چکڑالوی نے اپنے اس بیٹے کو جائیداد سے محروم کردیا قاضی محمد ابراہیم جائیداد سے محروم ہونا قبول کرلیا ہے لیکن دین نہ چھوڑا۔نقل مکانی کرکے پیروالہ ضلع ملتان میں امامت کرلی اورآسودگی سے زندگی گزاری دی دوسرے بیٹے قاضی محمد عیسیٰ نے جائیداد کی محرومی کے ڈر سے وقتی طورپر حامی بھرلی اور اپنا بیٹا محمد یحییٰ عبداللہ چکڑالوی کے حوالے کردیا آزمائشی دور گزار کر خود قاضی محمد عیسیٰ مسلک حنفی پر قائم ہوگئے لیکن اپنے بیٹے محمد یحییٰ کو وپس نہ لاسکے وہ اپنے دادا کے عقیدے پر قائم رہا
زندگانی تھی تیری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیر اسفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو تیرا
نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو تیرا
آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
12شوال 1327ہجری بمطابق27اکتوبر1909بروز پیر صبح کو حضرت قیوم زمان آفتاب نقشبند ی نے آخری سانسیں لیں ،سراج اولیا خواجہ محمدسراج الدین نے نماز جنازہ پڑھائی اورعلوم وفنون کے اس خزانے کو اپنے دست مبارک سے چکڑالہ شہر جنوب مشرقی کونے میں ان کے آبائی قبرستان میں لحد کے حوالے فرمایا مزارمبارک زیارت گاہ عالم ہے عشق تمام منازل کو آسان کردیتا ہے حضرت شیخ الحدیث کو اپنے مرشد اور طریقہ عالیہ نقشبندی مدددیہ اور حدیث نبوی ؐسے عشق تھا جو آپ سے دن رات محنت کرواتا تھا حضرت شیخ الحدیث علیہ کا قلب مبارک اپنے پیر ومرشد کے عشق ومحبت سے منورتھا پھر قمراولیا کے منور قلب مبارک سے اللہ تعالٰی کی مخلوق ظاہر ی وباطنی علوم سے منور ہوئی اور قیامت تک ہوتی رہے گی انشااللہ آپ نے اپنی زندگی میں معقولات کے جامع محقق عالم دین محدث فکرخلیفہ مجاز طریقت باقی بااللہ حضرت قاضی کلیم اللہ اعوان مجددی نقشبندی کو اپنا جانشین وسجاد ہ نشین مقرر فرمایا آپ کے فتوی کو سند کو حیثیت حاصل تھی تقریبا 53سال مستند پر جلوہ فرمارہے 11نومبر 1963کو آپ کے وصال کے بعد علی گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل آپ کے جگر گوشہ سلطان العارفین علامہ محافظ محمد سیف الدین رخ مجددی ، نقشبندی جانشین مقرر ہوئے۔ آپ کے پردہ فرمانے کے بعد آپ کے جگر گوشہ گورنمنٹ کالج لاہور اور ایف سی کالج لاہور کے فارغ التحصیل قاضی محمد ظفراعوان، مجددی نقشبندی اپنے مریدوں سے دل صدق وصفا کی منازل طے کراتے رہے۔ سفیرتصوف قاضی محمد صہیب،ظفراعوان سجادہ نشینی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیںجن کے توسل شہنشاہ نقشبند کافیض میٹھے چشمیودریا کی مانند جاری وساری ہے علاقہ کی زمین گواہ ہے کہ اس خانقاہ کے فیض سے لوگوںکے مردہ دل زند ہ گئے اورآج بھی ہوا میںاللہ سبحان تعالی اور خاتم النبین رسول پاکؐکے ذکرکی آوازوںکی گونج سنائی دیتی ہیں اللہ تعالٰی اس خانقاہ کے فیض کوسلامت رکھے اور تاقیامت جاری رکھے آمین
حدیث کیا ہے؟
تا ریخ گواہ ہے چشمہ فلک نے وہ بے شمار معرکے دیکھے جب با طل اپنی تمام شکوہ وجبروت سے مسلح ہو کر حق کی بے سامنیوں سے نبرد آزما ہوااور ہر بار حق کی قوت یقین سے ٹکرا کر پا ش پاش ہو گیا لیکن اصل بدقسمتی یہ ہے کہ خود مسلمانوں میں ایسے فرقے اور افراد پیدا کر دیئے گئے جنہوں نے اسلام کی بنیادوں کو کھو کھلا کر نے میں اپنی تمام قابلتیںلگا دیںجن کو جادو مال کی ہوس نے مسخر کر لیا اور وہ ملت وحدت کو پارہ پارہ کرنے سے بھی باز نہ آئے اور اپنی شخصی اور وقتی مصلحتوں پر ملے کے اجتما عی اور ابدی مفاد کو قر بان کر دیا یہ آزامائش بہت حوصلہ شکن اور روح فرسا ہے تاریخ کا ایک ابتدائی طالب علم بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ اسلام کو اور مسلمانوںکو جو نقصان ان امر ہا ئے آستین کی زہر چکانی سے پہنچا ہے اس کے سامنے وہ نقصان کچھ بھی نہیں جو تا رتاریو ںکی بربریت فرڈ یینڈ بش سینئر نش چو نیئر کے قتل عام سے ہو ایہ سب لو گ مصلحین لباس پہنے ہو ئے آئے ان کی آنکھیں پر نم تھیں ، ان لے لبو ں پر سر د آہیں تھیںان کی زبان غم و ملت میںمر ثیہ خواںاور ان کے قلم امت کے مصائب پر نو حہ کناںتھے لیکن انکا انداز فکر اور طر ز عمل مفسدانہ تھاان کا مقصد امت کا شیرازہ بکھیرتا تھاان کے پیش نظر اپنی خواہش نفسانی کی تکمیل تھی اللہ کریم جل شانہ کی رحمت اپنے مخلص وپا ک باز بندوں کے ذریعے ان کا راز فاش نہ کرتی تھی اللہ کر یم جل شانہ کی رحمت اپنے مخلص و پا ک باز بندوں کے ذریعے ان کا راز فاش نہ کر تی تو معلوم نہیں ان کی کو ششیں کیا گل کھلاتیں ،علمائے کرام ،اولیا ئے کرام کی مسلسل جد جہد کے باوجود آج بھی بعض فرقے ملت اسلامی کیلئے ناسور بنے ہو ئے ہیں جو ہر نازک موقع پر اس کیلئے کر ب و اذیت کا باعث بنتے رہتے ہیں انگریزی استعمار نے مرزا قادیان اورعبداللہ چکڑالوی کی تخلیق کی اور پھر اس کی تر بیت اور پر وش کی۔عبداللہ چکڑالوی بانی ہے فتنہ سنت نبوی کا۔تا یاں ماضی سے متنفر کرنے کے بعد اپنی قرآن فہمی ، خوف خدا ،حب رسول اور دردع ملت کی بے تا بیوں کا ڈھنڈورا پیٹ کر اہنی طرف متوجہ کرتے ہیں افسوس عوام کو محدث کی کا میاب جا نفشانیوں کا مطالعہ کرنے کی فر صت نہیں ملتی اس لئے ان کی منافقت کے جال میں پھنس جاتے ہیں شو مئی قسمت ہم میں ایسے لوگو ںکی کمی نہیں ہے جنہیں شکسپئر، بر ناڈشا کے ڈرامو ں اور وارڈز ورتھاور ٹپنی سن کی شاعری کیلئے تو وقت ،مل جاتا ہے لیکن احیائے علوم ، کیمیائے معاوت اورع بانگ درا کا مطالعہ میں گذری اور اب وہ ایسے قانون دان جن کی ساری عمر پر آن بدلنے والے ضلعی قانون کے مطالعہ میں گذری اور اب ایسے قانون کو جامد اورقابل عمل سمجھتے ہیں جس میں ثبات واتقرار ہو ، خواہ شرعی قانون کا فیض سورج کی طر ح پرانا اور اس کی تاثیر سورج کی پر انی کر نوں کی طر ح ہر وقت حیات بخش اور روح آفر یں ہو اس لئے یہ قانون کے ما ہر یہ فرق کر نے سے قاصر ہیں جو انسانی تشریع انسان ے بنائے ہو ئے قانون اور آئین میں ہو تا ہے اور جو اللہ تعالی اللہ کے رسول اللہ کے حکم سے اللہ کے بندوں کو عطا فرما تا ہے۔ان مفکرین حدیڑ اور منکرین سنت کی خدمت میں التماس ہے کہ اللہ تعالی اپنے کلام میں فرمات ہے اور وہ مانتے بھی ہیںکہ قیامت تک اس میں ردوبدل نہیں ہو سکتا اور اس کی مقرر کر دہ جزئیات کو بھی غیر متبدل تسلیم کر تے ہیں۔قر آن مجید میں ہے کہ گناہوںکی آفرزش ،چاہتے ہو تو میرے رسول کی اطاعت کر و،میری محبت کے دعوے دار ہو تو میرے رسولؐکی اطاعت کرو، جنت کے طالب گار ہو تو میرے رسو ل کی اطاعت کرو، میرے محبوب بننا چاہتے ہو تو میرے رسول کی اطاعت کرو!!
شیخ الحدیث و تفسیر ، امام العارفین خواجہ قاضی قمرالدین مجددی ، نقشبندی
Jul 30, 2024