قائداعظم ؒ کی دلی خواہش تھی کہ پاکستان میں عہدِ فاروقی کی تصویر عملی طور پر کھینچ جائے ۔انھوں نے ببانگِ دہل اعلان فرمایا تھا کہ پاکستان میں کسی ایک بھی طبقے کو لوٹ کھسوٹ اور اجارہ داری کی اجازت ہر گز نہیں ہوگی۔پاکستان امیروں ،سرمایہ داروں ،جاگیرداروں اور نوابوں کی لوٹ کھسوٹ کے لیے نہیں بنایا گیا بلکہ پاکستان غریبوں کا ملک ہے یہ غریبوں کی قربانیوں سے بنا ہے ۔اور اس پر غریبوں ہی کو حکومت کرنے کا حق حاصل ہے ۔پاکستان میں ہر شخص کا معیارِ زندگی اتنا بلند کر د کیا جائے گا کہ غریب اور امیر میں تفاوت باقی نہ رہے گی ۔پاکستان کا اقتصادی نظام اسلام کے غیر منافی اصولوں پر ترتیب دیا جائے گا یعنی ان اصولوں پر جنہوں نے غلاموں کو تخت و تاج کا مالک بنا دیا تھاجبکہ ہمارے اس ملک میں جو بھی آیا اس نے اس محاورے کے مصداق اپنا عہد گزارا ۔’’ہر کہ آمد عمارت نوساخت ‘‘ اس طر ح رفتہ رفتہ ہر آنے اور جانے والا اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق شمع کی لو کو بڑھاتا یا کم کرتا رہا اوراپنے منصب کو خیر آبادکہہ کر روانہ ہوگیا ۔
یہی وجہ ہے کہ 78 برسوںسے امید و یاس کی کیفیت سے دوچار پاکستانی عوام ہر 5 برس بعد ایک ایسے مسیحا کی منتظر ہوتی ہے جو کہ ملک و قوم کے نفع و نقصان سے بے نیاز ،مصلحتوں کا شکار حکمرانوں سے انھیں نجات دلائے اور ملک و ملت کو پارہ پارہ کرنے والوں کی پکڑ کرے ،ہوس کی امیری اور ہوس کی وزیری کا خاتمہ کر کے چنگیزیت کو ختم کرے کہ جس کی دیانتدارانہ سربراہی میں ملکی ترقی کی درست سمت کا تعین ہو اور نخل وطن پر امن و سلامتی کے وہ گل کھلیں کہ جنھیں اندیشئہ خزاں نہ ہومگرآج موجودہ حالات میں جب یہ حقیقت سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ گذشتہ 78برسوں میں بلند ہونے والا ہر نقارئہ انقلاب محض ذاتی مفادات کا پرچار اور ایک ڈھونگ تھا،تو آج عوام تمام سیاسی جماعتوں کی حکمت عملیوں اور طرز عمل کو دیکھ کر گو مگو کی کیفیت میں مبتلا ہو چکی ہے کیونکہ ہر آنے والا یہی کہتا ہے کہ میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں اگرچہ کئی آئے‘ کئی گئے اور جاتے بھی نظر نہ آئے‘ مگر نشہ قتدار وہ نشہ ہے جو سب کچھ بھلا کر احساس زیاں ہی سلا دیتا ہے۔ جس کا خمیازہ ملک و قوم کو بھگتنا پڑتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ملک کی اکثریت دھوکا کھانے ،لالی پاپ لینے اور چکمے میں آنے کی عادی ہے لہذا انجام ایسا ہی رہے گا ۔
قارئین کرام !اس ملک نے فوجی حکمرانوں کو برداشت کیا اور جمہوری کرداروں کی کارکردگی بھی دیکھی ۔ اپنے ایک حصہ کو اپنے سے جدا ہوتے بھی دیکھا اور اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا درد بھی سہا،جدا ہونے والے حصے کے جدا ہونے کے اسباب و واقعات اور نتائج کی کہانیاں سنانے والے لوگوں کی تمام تحریروں کو پڑھا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ جتنا عرصہ منظم طریقے سے معاملات آگے بڑھتے رہے ملک کے دونوں حصوںمیں اتفاق و اتحاد قائم رہا اور جب حکومتی سربراہان کی ہوس شدہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے ایک حصے کے لوگ سراپا احتجاج بن گئے اور ان کے قائدین نے علیحدگی کے بیانات دینے شروع کر دئیے تو عین اس وقت بھارت نے مداخلت بے جا کر کے علیحدگی کروا دی اگر دیکھا جائے تو آج پھر ہم نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ دنیائے سیاست تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے امت مسلمہ کے خلاف ایک محاذ تیار ہو چکا ہے امریکہ خود کو سرِ بازار سپر پاور منوانے کے لیے دیگر اسلامی مملکتوں میں جنگیں چھیڑ کر ہر چیز کو تباہ و برباد کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے میںمصروف ہے اور مسلم اتحاد کا یہ حال ہے کہ کشمیریوں کی چیخوں پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے ہم وہ بدقسمت ہیں جو اپنوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہو کر اپنوں سے ہی جنگ لڑنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیںمزید اپنی تباہیوں اور کوتاہیوں پر اسقدر دل گرفتہ ہیںکہ خود اقرار کرتے ہیں کہ اگر ملک اندر سے کھوکھلا ہو تو اپنی ذات میں ایک تباہی ہوتا ہے اسے تباہی کے لیے کسی بیرونی مداخلت کی ضرورت نہیں ہوتی اور اس حقیقت سے انحراف ممکن نہیں کہ ’’ہم اگر سوختہ ساماں ہیں تو یہ روزِ سیاہ ،خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے ‘‘
بلا شبہ سیاسی بحرانوں ؎ نے نئے علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہونے والے اہم فیصلوں ، اندرون ملک انارکی ،مہنگائی ،بیروزگاری ،معیشیت کی بحالی ،لوڈ شیڈنگ اورملک میںنقص امن وغیرہ سب کو پس پشت ڈال دیا ہے مزید جدوجہد آزادی کشمیر کو رسوا اور دھندلا دیا ہے حکومت وقت کی توانائی ،پیسہ ، وقت اور قومی وسائل غیر ضروری بے وقت اور بے ثمر کاموں میں صرف ہو رہے ہیں حالانکہ ایسے وقت میں تو ہونا یہ چاہیئے تھا کہ ایک پارلیمان میں ایک متحدہ ایوان کے طور پر سامنے آیا جاتا اور ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مل جل کر فلاح و بہبود کے لیے کام کیا جاتا لیکن کس قدر دکھ کی بات ہے کہ جو داستان لاشوں سے لکھی گئی اس میں اضافہ ہی ہو رہا ہے درد و غم بڑھتا جا رہا ہے بے شمار مسائل کھل کر سامنے آچکے ہیں کہ جن کا اگر بر وقت انسداد و احتساب نہ کیا گیا تو رفتہ رفتہ پچیدگیاں اتنی بڑھ جائیں گی کہ جن کے نتائج سنگینی اختیار کر لیں گے غرضیکہ عبرت کے تازیانے وبائی امراض اور سانحات بھی سیاسی قائدین کے دلوں میں حقیقت شناسی کا احساس اور بصیرت کاادراک اجاگر نہیں کر پاتے مگر وقت کی پکار ہے کہ اٹھ اب وقت بیداری ہے ۔۔
اور بیداری کے لیے تحریک پاکستان کے پس پردہ مقاصد کو سمجھنا ضروری ہے جبکہ سمجھ نہیں آتی کہ میڈیا پر عوام الناس کو یہ کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ہم نے پاکستان کن مصائب اور کیسے حاصل کیا تھا۔۔مجھے کہنے دیجئے کہ اگر آپ 1857 سے لیکر 1947تک کے حالات کا مطالعہ کرلیں، اگر آپ درد و اندوہ میں ڈوبے نہتے مسلمانوں پر ہندوئوں او ر سکھوں کے مظالم کی داستان پڑھ سن لیں ،اگر آپ مسلمانوں کی بیٹیوں کی عصمتوں کی پامالی اور ہندو سامراج کی درندگی کا علم پالیں ، اگر آپ لہو رنگ داستان جدو جہد آزادی کو ایک بار کسی چشم دید گواہ سے سن لیں پھر آپ مسکرا کر ناقص حکومتی کار کردگیوں کی مبارکبادیں نہیں دیں گے !چلیں دور نہ جائیں اگر آپ بوسنیا ،برما ،فلسطین ،کشمیر جیسے مسلم ممالک کی آہوں سسکیوں میں ڈوبی ویڈیوز ہی دیکھ لیںتو پھر آپ اپنی افواج کے خلاف کچھ نہیں بولیں گے! مجھے کہنے دیجیے کہ ہمارا ہر دن درحقیقت اس خطئہ پاک کے لیے اپنا لہو بہانے والے شہداء اور اس کی خاطر ہر شے لٹانے والے جانثاروں اور اسلام کے متوالوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہونا چاہیے ۔۔ ہمارا ہردن افواج پاکستان کی بے پناہ ،ہمہ وقت اورہر محاذوطن پر ارض پاک کے ایک ایک انچ ، فضائوں ،خشکیوں اور پانیوں میں بے دریغ جرات و بہادری اور جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر چوکس و ہوشیار اور شہید یا غازی بن کر رہنے کی وجہ سے ان کو سلام پیش کرنے کا دن ہونا چاہیے کجا یہ کہ ہم ان پر انگلیاں اٹھائیںاور بغاوت کے پرچم لہرائیں ۔ گانے بجانے اور تماشے کرنے کی بجائے مجبوروں، بے سہاروں اور بے سرو سامان عوام کی مدد کرنے کا ہردن ہونا چاہیے۔ اللہ کے حضور سجدہ شکر ادا کرنے ،نفاذ اسلام کی کوشش کرنے اور رسالت ماٰب ﷺکی حقیقی اور سچی تعلیمات پر زندگی گزارنے کا عزم کرنے کا ہردن ہونا چاہیے۔ ہماراہر دن یہ عہد کا کرنے کا دن ہونا چاہیے کہ ہم گروہوں کو توڑ کر ایک بن جائیں گے ہم قوم بن جائیں گے ۔اپنی درست سمت متعین کریں ورنہ داستان بھی نہ رہے گی داستانوں میں ۔۔۔