شہر میں سٹرکوں کی اپ گریڈ یشن اور لاکھوں شہریوں کے مسائل

چند ماہ پہلے کی خبر تھی کہ رنگ روڈکے موجودہ ڈیزائن کے مطابق زمین کی سطح سے بلندکرکے ٹریک کو تعمیر کیاجائیگا۔ایکسس کنٹرول کوریڈور فیسیلٹی نیازی انٹر چینج سے بابو صابو کے لیے دس ارب 84 کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا، منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے فروری 2024 کی ڈیڈ لائن دی گئی ، منصوبے کے ساتھ سیوریج سسٹم کی بہتری کے لئے 38 کروڑ 97 لاکھ روپے کا تخمینہ لگایا گیا، پیدل چلنے والوں اور ٹریفک کے لیے بند روڈ پر سب ویز بھی تعمیر کیے جائیں گے ، بابو صابو انٹر چینج سے نیازی انٹر چینج تک 7.3 کلومیٹر کوریڈور بنایا جائے گا، ٹریفک روانی کی بہتری کے لئے چار لین ڈیوئل کیرج وے تعمیر کیا جائے گا۔
یہ منصوبہ جو فروری میں مکمل ہونا تھا اب تک  مکمل نہیں ہو سکا ،سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، لوگوں کاگزرنا محال ہے،ٹریفک ہر طرف جام ہے۔سڑک کی سائیڈ سے اتنی گہری کھدائی کی گئی ہے کہ چوبیس گھنٹے یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں کوئی موٹر سائیکل سورا یا پیدل چلنے والا اس میں گر نہ جائے ،بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ پچھلے دنوںایک موٹر سائیکل سوار کی اس کھڈے میں گر کر ڈیتھ بھی ہوگئی۔ اور اب چونکہ بارشوں کے دن آگئے ہیں اگر ان گڑھوں میں پانی بھر گیا تو اور مزید کوئی جانی نقصان ہو گیا تو کون ذمہ دار ہوگا۔
اس حوالے سے ہم نے بابو صابو کے مضافاتی علاقے  بند روڈ شیرا کوٹ بائو سمیع والی گھاٹی مین یوسف نگر  روڈ کا  وزٹ کیا ۔وہاں سمال اینڈ میڈیم کاٹیج انڈسٹری کے مالکان اور کارکنان سے ملاقات کی ۔ جو اس منصوبے کی وجہ سے بہت پریشان ہیں کیونکہ اس منصوبے کا باعث اُنکے چلتے ہوئے کاروبار زوال کی طرف گامزن ہے ۔ اس علاقے کے روح رواں، انکے دکھ سکھ کو سمجھنے والے،قرآن پاک کے شہید اوراق کو محفوظ کرنے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرنے والی معروف روحانی شخصیت محمد ناظم الدین کا  کہنا ہے کہ’’ ایک وقت تھا یہ روڈ علاقے کا مصروف ترین روڈ تھا جہاں انڈسٹری کی گاڑیاں رواں دواں تھیں ، مزدور وں کو کام ملتا تھا ۔ لگ خوشحال تھے ، کاروبار کا پہیہ رواں دواں تھا اور  لوگوں کی زندگیاں رونق سے بھرپور تھیں مگر جب سے منصوبہ شروع ہوا ہے۔  اس انڈسٹری کو جیسے نظر لگ گئی اور یہاں جو ہر طرف کاروباری بھاگ دوڑ ہوتی تھی۔ اب ویرا نے میں بدل گئی ۔کاروبار ٹھپ ہو  گئے ، گاڑیوں کا گزرنا ناممکن ہو گیا ۔ لوگوں کا گزرنا محال ہو گیا۔کبھی  انتظامیہ کے لوگوں کو اگر وقت ملے تو یہاں آکر  ان مزدوروں کے چہروں کو دیکھیں جو اپنا سامان لے کر اس آس پر بیٹھے ہیں کہ شاید کوئی کام مل جائے آئے مگر انڈسٹریزکے دروازے بند ہیں۔کاروبار ٹھپ ہیں۔ایک طرف مزدور پریشان ہیں تو دوسری طرف مالکان بلبلا رہے ہیں کیونکہ کاربار تو چل نہیں رہے مگر بجلی کے بلز بد ستور آ رہے ہیں۔ اس پریشانی میں مالکان کی کوشش ہے کہ جلد از اس کاروبار کو سمیٹ  کر بیرون ملک روانہ ہوا جائے کیونکہ اس ملک کی بہتری کی  امید نظر نہیں آرہی ۔
اس سلسلے میں کاٹیج انڈسٹری کے صدر چوہدری نعیم احمد کا کہنا ہے کہ’’اس میں شک نہیں کہ سمارٹ سٹی کے حوالے سے جو دعوے کئے جاتے ہیں ان کے تناظر میں شہر کی سڑکوں کی اپ گریڈیشن کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سڑکوں کی اپ گریڈیشن کو ایک حوصلہ افزا قدم قرار دیا جاتا ہے ۔ اس منصوبے کے تحت مبینہ طور اہم اور مصروف ترین سڑکوں کی اپ گریڈیشن عمل میں لائی جاتی ہے۔ شہر کی اندرونی سڑکوں کو بھی بہتر کیا جاتاہے  تاکہ لوگوں کو آنے جانے میں مشکلات کا سامنا  نہ کرنا پڑے مگر یہاں ہر طرف مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دئے گئے ہیں جھنیں ہر روز عبور کر کے ہم اپنے دفاتر میں پہنچتے ہیں اور یہاں آ کر خالی ہاتھ بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ نہ تو ہماری کوئی گاڑی یہاں آسکتی ہے اور نہ ہی ہمارے کام کہ پہیہ چلتا ہے ، نہ ہی ہمارا مزدور کام پہ آسکتا ہے کیونکہ کوئی کام ہی نہیں ہے۔ جس وجہ سے ہم سب بہت پریشان ہیں اور ہم حکومت پنجاب  سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں اس تکلیف سے جلد از جلد نکالاجائے۔ اس منصوبے کو  مکمل کیا جائے اور ہمارا سکون ہمیں لوٹا دیا جائے۔
 اس حوالے سے نائب صدر چوہدری فیض  کا کہنا ہے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت ٹھیک کام نہیں کر رہی یا ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا کیونکہ شہر کے مضافات میں موجود  سڑکوں کو  بہتر بنا نا ہی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے ۔  ہمیںاندازہ ہے کہ  اس کام کو انجام دئے جانے کے بعد شہر میں نہ صرف نقل و حمل میں آسائش ہوگی بلکہ کئی طرح کی دوسری مشکلات پر قابو پانا ممکن ہوگا۔ اس سے عام شہریوں کو بڑی سہولیات میسر آئیں گی۔اس میں شک نہیں کہ پچھلے سالوں کے دوران نواز حکومت نے پورے ملک میں سڑکوں کو بہتر بنانے پر خصوصی توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ جو سڑکیں خستہ حال  تھیں آج شاندار انداز میں چلنے پھرنے کے لائق سمجھی جاتی ہیں۔  تاہم یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ نگران حکومت کے بعد لاہور اور اس کے مضافات میں موجود سڑکوں پر کوئی خاص کام نہیں ہوا۔ یہاں فلائی اوور تعمیر کرنے پر تو کروڑوں روپے خرچ کئے گئے تاہم عام سڑکوں کو بہتر بنانے کی طرف خاص توجہ نہیں دی گئی۔ اس وجہ سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ لوگوں کے کاروبار تباہ ہوگئے ہیں۔آئے دن کے ٹریفک جام  کی وجہ سے تنگ سڑکوں پر گاڑیوں کو چلانے میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔اسکے علاوہ بارشوں کے پانی کے نکاس میں جن اڑچنوں کا سامنا رہتا ہے ان میں سڑکوں کے بے ڈھنگ ہونے کا بھی حصہ ہے۔ اگرچہ اس کام میں  ڈرینج سسٹم کو اصل سبب بتایا جاتا ہے۔ تاہم سڑکوں کی خستہ حالی بھی ایک وجہ بتائی جاتی ہے۔ اب انتظامیہ نے جب سڑکوں کی بہتر تعمیر کا کام انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے تو امید کی جارہی ہے کہ اس حوالے سے تمام معاملات کو نظر میں رکھ کر کام کو آگے بڑھایا جائے گا۔
اس حوالے سیجنرل سیکرٹری شیخ غلام مرتضی کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے  کہ ہمارا پورا علاقہ کھنڈر بنا دیا گیا ہے، دھول سے ،گرمی سے اس فضا میں سانس لینا دشوار ہے۔ سڑکوں کے معاملات بہت ہی پیچیدہ ہیں۔ سب سے اہم پیچیدگی سڑکوں کی کشادگی کے دوران تعمیرات کو منہدم کرنے کا  اور سیوریج کیلئے گہری کھدائی کامعاملہ ہے۔  اس کام کو عوام کے فائدے کا کام قرار دیا جاتا ہے۔  لیکن اس وجہ سے  وہاں کے رہائشیوں اور مسافروںکو جس  پریشانی کا سامنا کرناپڑتا ہے اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی۔ یہاں تک کہ متاثرین کے ساتھ کسی ہمدردی کا اظہار نہیں کیا جاتا۔ اس وجہ سے تعمیراتی کام انجام دینے سے حکومت کو جو شاباشی ملنی چاہئے وہ نہیں ملتی۔ بلکہ لوگوں کی گالیاں سننی پڑتی ہے۔  ایسے میں ہمارا مطالبہ ہے کہ انہدامی کام بہت ہوچکا۔ اب مزید کھدائی کرنے کی بجائے تعمیر و ترقی کا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کے دوران اگر ان کے دل مجروح کئے جائیں تو  پھر کام کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔ بہتر یہی ہے کہ لوگوں پریشان کر نے کی بجائے انہیں راحت پہنچانے کا کام انجام دیا جائے۔ تا کہ عوام اور حکومت دونوں کے لئے باہمی رفاقت بڑھا سکے۔ 
 دوسرے ممبران  کا بھی کہنا ہے کہ شیرا کوٹ بائو سمیع والی گھاٹی مین یوسف نگر  روڈ  میں سڑکوں ، سیوریج نظام کی عدم تعمیر اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے باعث علاقہ مکینوں کیلئے مسائل کی آماجگاہ بناہوا ہے۔ سیاسی نمائندوں کی طفل تسلیاں اور بار بار آگاہ کرنے کے باوجود انتظامیہ کی طر ف سے نوٹس نہ لئے جانے کے باعث لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے ،کچی گلیوں کے درمیان سے گزرنے والی نالیاں عام حالات میں ویسے ہی آمد و رفت میں رکاوٹ ہیں بلکہ بارش کے دنوں میں کیچڑ اور گندے پانی کے باعث شہریوں کے مسائل کئی گنا بڑھ جاتے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ جدید دورمیں بھی شہر کی اس کالونی میں بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی سیاسی نمائندوں اور انتظامی افسران کیلئے لمحہ فکریہ ہے ، متعدد بار تحریری اور زبانی آگاہ کر چکے ہیں مگر کوئی سنتا ہی نہیں ،انہوں نے  حکمرانوں سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن