کراچی+ اسلام آباد (کامرس رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ+نمائندہ خصوصی) سٹیٹ بنک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا۔ گورنر سٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس میں شرح سود میں کمی کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ شرح سود ایک فیصد کم کردی، اطلاق آج سے ہو گا۔ شرح سود 100 بیسز پوائنٹس کی کمی کے بعد 19.5 فیصد پر آگئی۔ شرح سود 20.5 فیصد سے کم کرکے 19.5 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا۔ 3 ماہ بعد ستمبر میں نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کیا جائے گا۔ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہوکر 12.60فیصد ہوگئی ہے، مہنگائی میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیرونی سرمایہ کاروں کو منافع بھیجنے میں مشکلات تھیں، زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آئی ہے۔ ملک کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔ مہنگائی کی شرح 23.4 فیصد تھی۔ اگلے سال مہنگائی کی شرح 11.5 سے 13.5 فیصد رہے گی۔ مالی سال 2025ء میں جی ڈی پی نمو 2.5 سے 3.5 فیصد رہے گی۔ امپورٹ کے بل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بیرونی سرمایہ کار سال 2024ء میں 2.2 ارب ڈالر منافع لیکر گئے۔ مالی سال 23ء میں بیرونی سرمایہ کار 30 کروڑ ڈالر لیکر گئے تھے۔ بیرونی ادائیگیوں کے باوجود زر مبادلہ کے ذخائر بڑھے ہیں ۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس سال کافی کم ہوا ہے جو صرف 70 کروڑ ڈالر ہے، اس میں مسلسل بہتری آرہی ہے۔ درآمدات کو مکمل طور پر بحال کردیا گیا ہے، ہر طرح کی درآمدات ہورہی ہیں، اس کے باوجود ذخائر میں اضافہ ہوا ہے۔ تمام بیرونی قرضوں کی ادائیگی بھی بروقت کی جارہی ہے۔ اس سب کو دیکھتے ہوئے کمیٹی نے پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ ہمارے بیرون ملک سرمایہ کاری کے حوالے سے کافی تشویش تھی کہ ان کے پرافٹس رکے ہوئے تھے تو ابھی بینکس نے سارے ڈیویڈینڈ اور پرافٹس کی واپسی کی منظوری دے دی ہے، اور سب سرمایہ کار جن کا پرافٹس تھا انہوں نے حاصل کرلیے ہیں۔ سال 2024ء میں 2.2 ارب کے ڈیویڈنڈز اور پرافٹس سرمایہ کار لے کر گئے ہیں، اس سے پچھلے سال صرف 30 کروڑ کے قریب تھا۔ یہ تو اس میں 7 گنا اضافہ ہوا۔ اگر یہ پرافٹ نہ ہوتے تو ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ اس سے بھی کم ہوتا، اس کے علاوہ جو دوسری پیمنٹس جیسے ائیرلائنز، رائیلٹی وغیرہ ہم اس میں بھی بہتری لائے ہیں۔ کسی قسم کی امپورٹس پر سینٹرل بینک کی جانب سے پابندی نہیں ہے، ہمارا امپورٹ بل میں اضافہ ہورہا ہے، پچھلے سال 3.5 ارب کے قریب امپورٹس ہوئی تھی جو اس سال 4.9 ارب روپے ہوئی ہیں، ہمارے تیل کی امپورٹس کم ہوئی ہیں، اس کی وجہ قیمتوں میں کمی اور ہمارے امپورٹڈ تیل کے حجم میں کمی ہے۔ یاد رہے کہ 10 جون کو سٹیٹ بینک نے شرح سود میں 4 سال بعد کمی کا اعلان کرتے ہوئے اسے 1.5 فیصد کم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ اہم مثبت حقیقی شرح سود کے ساتھ موجودہ مانیٹری پالیسی کا تسلسل ضروری ہے تاکہ ستمبر 2025 تک مہنگائی کی شرح کو 5 سے 7 فیصد کے ہدف تک کم کیا جائے۔ اپنے فیصلے کی وجوہات بتاتے ہوئے مانیٹری پالیس کمیٹی نے نوٹ کیا کہ عالمی منڈی میں اجناس کی قیمتیں ’لچکدار عالمی شرح نمو‘ کے ساتھ نیچے آ گئیں، جبکہ حالیہ جغرافیائی سیاسی واقعات نے بھی ان کے بارے میں بے یقینی کی صورتحال میں اضافہ کیا اور بجٹ سے متعلق آنے والے اقدامات کے بھی مہنگائی کی صورتحال پر اثر ات ہوسکتے ہیں۔ عمومی مہنگائی، جو اپریل میں 17.3 فیصد تھی، گر کر مئی 2024 میں 11.8 فیصد رہ گئی۔ اس تیز رفتار کمی کا سبب سخت زری پالیسی کے تسلسل کے علاوہ گندم، گندم کے آٹے، اور چند اہم غذائی اشیاء کی قیمتوں میں معقول کمی، اور توانائی کی سرکاری قیمتوں میں کی جانے والی تخفیف بھی ہے۔ قوزی مہنگائی بھی 15.6 فیصد سے گر کر 14.2 فیصد رہ گئی۔ کمیٹی نے نوٹ کیا کہ مستقبل قریب کے مہنگائی کے منظرنامے کو مالی سال 25-2024 کے بجٹ میں اقدامات اور بجلی اور گیس کے نرخوں میں آئندہ ہونے والی تبدیلیوں سے ابھرنے والے خطرات کا سامنا ہوگا۔ بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی طویل مدتی غیر ملکی کرنسی جاری کرنے کے حوالے سے ریٹنگ اپ گریڈ کر دی۔ 7 ماہ بعد کریڈٹ ریٹنگ میں اضافہ کیا ہے۔ فچ نے پاکستان کی طویل مدتی غیر ملکی کرنسی جاری کرنے والے ڈیفالٹ ریٹنگ (آئی ڈی آر) کو ٹرپل سی سے پلس ٹرپل سی میں اپ گریڈ کر دیا۔ فچ عام طور پر پلس ٹرپل سی یا اس سے نیچے کی درجہ بندی والے خود مختاروں کو آئوٹ لک تفویض نہیں کرتا۔ فچ کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف معاہدے سے پاکستان کی بیرونی فنڈنگ رسائی بہتر ہوئی ہے اور پاکستان کی معاشی صورتحال میں بہتری کے باعث ریٹنگ اپ گریڈ کی گئی۔ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے میں رہتے ہوئے پاکستان نے بہتر کارکردگی دکھائی۔ پاکستان کو آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کی منظوری سے قبل چین، سعودی عرب اور یو اے ای سے باہمی معاہدوں کے قرض کو رول اوور کرانا ہوگا۔ پاکستان کو ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بڑھانے کیلئے مزید 3 فیصد اضافے کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کو انرجی شعبے، ریاستی ملکیتی اداروں میں سٹرکچرل اصلاحات کی یقین دہانی کرائی۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کیلئے قانون سازی کی یقین دہانی کرائی۔ کریڈٹ ریٹنگ بہتری سے پاکستان کا عالمی مارکیٹ میں اعتماد بحال ہو گا۔ عالمی مالیاتی ادارے قرض دینے میں پاکستان پر اعتماد کریں گے۔ کریڈٹ ریٹنگ بہتر ہونے سے عالمی مارکیٹ میں بانڈز کا اجراء بہتر ہو سکے گا۔ کسی قسم کی درآمدات پر کوئی پابندی نہیں ہے، سٹیٹ بنک سے کسی بھی اجازت کے بنا درآمدی مال کلئیر بھی ہو رہا ہے۔ ائیر لائن کو بھی ادائیگیاں شروع کر دی گئی ہیں، آئل کی درآمدات میں کمی ہوئی ہے، پچھلے سہ ماہی میں 90 کروڑ ڈالر آئل کی درآمد میں کمی ہوئی ہے۔ درآمدی بل 3.5 ارب ڈالر سے بڑھ کر 4.50 ارب ڈالر ماہانہ ہو چکی ہے۔گورنر سٹیٹ بنک نے کہا کہ مالی سال 25 ہے ملکی معاشی نمو 2.5 سے 3.5 فیصد کے درمیاں رہنے کی توقع ہے۔ نئے مالی سال میں مہنگائی کی اوسط شرح 11.5 فیصد سے 13.5 فیصد رہنے کی توقع ہے۔ گورنر سٹیٹ بنک جمیل احمد نے مزید کہا کہ اس میں چار ارب ڈالر کمرشل کون سے رول اوور ہو گا۔ جولائی 24ء میں ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کی گئی ہے، مجموعی طور پر 9 ارب ڈالر کی قرض کی ادائیگی کرنی ہے، اس وقت پاکستان کے ذخائر قرض کی ادائیگی سے زائد ہیں، پاکستان کو بیرونی قرض کی ادائیگی میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ پچھلے مالی سال میں بیرون قرض کی ادائیگیاں 24.5 ارب ڈالر کی تھی، اس میں سے کچھ رول اوور ہوا اور باقی کی بروقت ادائیگیاں کیں۔ پاکستان نے قرض کی بروقت ادائیگیاں کی گئیں، اس کے باوجود پاکستان کے ذخائر 4 ارب ڈالر سے بڑھ کر 9.5 ارب ڈالر تک لے گئے۔ رواں مالی سال 26.2 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں، اس میں 4 ارب ڈالر سود کی ادائیگیاں ہوں گی، اس میں قرض کی اصل رقم 22 ارب ڈالر ہونگے۔ گورنر مرکزی بنک کے پاس اس وقت نو ارب ڈالر سے زائد کے ذخائر ہیں۔ نئے مالی سال میں 12.3 ارب ڈالر قرض کا رول اوور کیا جائے گا۔ اس میں چار ارب ڈالر کمرشل کون سے رول اوور ہو گا، پٹرولیم مصنوعات کے بل میں ماہانہ 90 کروڑ ڈالر کی کمی آئی ہے، ڈالر کی تمام ڈیلنگ کا مکمل ڈیٹا بھی لیا جا رہا ہے۔ جون 25ء تک سٹیٹ بنک کے ذخائر 13 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔ اس وقت ملک میں 25 ایکسچینج کمپنیز کام کر رہی ہیں۔ مجموعی طور پر بنکوں کے 12 کمپنیوں ہوں گی، مجموعی طور پر بنکوں اور ایکسچینج کمپنیز 37 کمپنیاں ہوں گی، ایکسچینج کمپنیز کا ریگولیٹری فریم ورک اسی سال مکمل ہو جائے گا، یہ پورا جائزہ لیا جائے گا کہ ایکسچینج کمپنیز اپنے لائسنس کا غلط استعمال نہ کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدہ ہوگیا ہے، اب آئی ایم ایف کا بورڈ آف ڈائریکٹر فنڈز کی منظوری دے گا، اس موقع پر ڈپٹی گورنر سٹیٹ بنک نے بتایا کہ جو بھی ایکٹیو ٹیکس لسٹ میں نہیں ہو گا وہ نان فائلر ہو گا۔