چیف جسٹس کو قتل کی دھمکیاں نا ئب ، امیر ٹی ایل پی فرفتار : فتوے کے سیاسی مقاصد وفاقی وزاء: ایسے اقدام کو سپورٹ نہیں کرتے ، تحریک انصاف

لاہور+ اسلام آباد+ راولپنڈی+فیصل آباد+شیخو پورہ (نامہ نگار+خبر نگار خصوصی+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+نمائندگان) چیف جسٹس کو قتل کی دھمکیاں دینے پر تحریک لبیک پاکستان کے نائب امیر کو گرفتار کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق ٹی ایل پی کے نائب امیر ظہیر الحسن شاہ کو اوکاڑہ سے گرفتار کیا گیا ہے‘ ظہیر الحسن شاہ اوکاڑہ میں نامعلوم مقام پر چھپا ہوا تھا۔ چیف جسٹس کو قتل کی دھمکی دینے پر پیر ظہیر الحسن شاہ پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ لاہور پولیس نے مقدمہ ایس ایچ او حماد حسین کی مدعیت میں تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج کیا جس میں ٹی ایل پی کے 1500 کارکنوں کو بھی مقدمے میں نامزد کیا گیا ہے۔ جبکہ مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ‘ مذہبی منافرت‘ فساد پھیلانے اور عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ دوسری جانب حکومت نے چیف جسٹس کے خلاف قتل کے فتوے پر سخت ایکشن لینے کا اعلان کردیا۔ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزراء احسن اقبال اور خواجہ آصف نے کہا کہ چیف جسٹس کے قتل کے فتوے دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی اور کسی کو اس طرح کی شر انگیزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ مذہب کے نام پر خون خرابے کی کوشش کی جارہی ہے، سپریم کورٹ اس معاملے پر اپنے فیصلے کی وضاحت کر چکی ہے مگر  پھر بھی پروپیگنڈا جاری ہے، ریاست کسی طور پر قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ سیاسی اور دیگر مفادات کیلئے سوشل میڈیا پر عوام کو قتل پر اکسانے والی پوسٹ لگائی جارہی ہیں، ریاست اس کے اوپر ایکشن لے گی اور قانون پوری قوت سے حرکت میں آئے گا، قاضی فائز عیسیٰ کو کئی سالوں سے ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور  یہ عدلیہ میں حق کی آواز کو خاموش کرانے کی کوشش ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ چیف جسٹس کے قتل کے متعلق بات کرنا پاکستان کے آئین اور دین سے بغاوت ہے، چیف جسٹس کو قتل کی دھمکیاں دینے کی مذمت کرتے ہیں، دھمکیاں دینے والے شخص کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس طبقے کو 2017ء میں سیاسی ایجنڈے کے تحت کھڑا کیا گیا، قانون موجود ہے تو کسی فرد کو فتویٰ جاری کرنے کا حق نہیں، سزا و جزا کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہوتاہے،  کسی شخص، کسی جتھے یا گروہ کو حق حاصل نہیں کہ کسی کے ایمان کا فیصلہ کرے۔  جید علماء سے درخواست ہے کہ آگے بڑھیں اور لوگوں کی رہنمائی کریں، غیر آئینی، غیر اسلامی اقدامات کے خلاف فوری ایکشن ہونا چاہیے، کس قسم کا زہر اور نفرت یہ گھولتے ہیں کہ ایک نوجوان نے مجھے گولی کا نشانہ بنایا، اگر پاکستان میں کوئی اقلیت خود کو غیرمحفوظ سمجھے تو یہ نظریہ پاکستان کی نفی ہے۔ علاوہ ازیں پریس کانفرنس میں وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ فتوے جاری کرنے کے پیچھے کھلے سیاسی مقاصد ہیں، ہم نفرت پھیلانے والوں اور قتل کے فتوے دینے والوں کے راستے کی دیوار بنیں گے۔ وضاحتی بیان آ گیا تو اس کی کیا گنجائش ہے کہ قتل کے فتوے جاری کیے جائیں، آپ کو فتوے دینے کا حق کس نے دیا ہے، واضح کردوں اب یہ مذمت سے آگے کا کام ہے، یہ رواج شروع ہوگیا کہ قتل کردو اور اتنی رقم لے لو، اب ان ہاتھوں کو روکا جائے گا۔ ان کا اپنا مکتبہ فکر کیا ہے؟۔ میرے بزرگوں نے جو کردار ادا کیا تاریخ میں اور وہ کاربند رہے اس معاملے پر، جسٹس قاضی فائز عیسی کے والد قائد اعظم کے ساتھی تھے، ان کے دادا نے بھی مسلمانوں کیلئے خدمات فراہم کیں، بغیر تحقیق کے، بغیر پریس ریلیز کو دیکھے قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ قانون نافذ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے، ہمارے معاشرے میں ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے ایسے اعلان کیے جائیں۔ کیا خالی آپ ہی دین اسلام کے علمبردار ہیں؟۔ کیا ہمارا حق نہیں اسلام پر بات کرنے کا؟ کیا یہ صرف آپ کا حق ہے؟۔ اس کی سخت مذمت ہم کرتے ہیں اور جس نے چیف جسٹس سے متعلق بیان دیا اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ حنیف عباسی نے کہا کہ جس نے یہ فتوی دیا اس کو یہ حق حاصل نہیں، یہ کون ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کے اوپر یہ فتوے لگائے؟ اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف بیان پر ریاست کی زیرو ٹالرنس پالیسی ہوگی۔ پاکستان بار اور ایچ ای سی کے درمیان لیگل ایجوکیشن کے معاہدے کی تقریب سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ قانونی تعلیم کے معیار کو بہتر کرنا بہت ضروری ہے، افغانستان جنگ کے بعد دہشتگردی سمیت بہت سے مسائل ہمارے معاشرے میں آئے۔ فتویٰ جاری کرنے اور ریاست کے اندر ریاست بنانے کے رواج کی سب کو مذمت کرنی چاہئے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف فتویٰ ایک جرم ہے۔ ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے، انسانی حقوق یا آزادی رائے کی آڑ میں حد سے تجاوز کی اجازت نہیں دیں گے، جہاں قانون کی حد عبور ہوگی، ریاست اپنی پوری طاقت کے ساتھ ردعمل دے گی، ہم رسول پاکﷺ کے امتی ہیں، دین سکھاتا ہے کہ ریاست اور افراد کے اپنے اپنے کام ہیں۔ کوئی کسی کی جان اور مال کے بارے میں فتویٰ جاری نہیں کر سکتا، تعلیمی نصاب میں بھی ایسا مواد شامل کرنا چاہئے جو عدم برداشت ختم کرے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک نیک نام اور اصول پسند شخص ہیں۔ کسی کو حق نہیں کہ عدالتی فیصلے پر جج کی جان کیخلاف فتویٰ دے۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے رہنما شبلی فراز نے کہا ہے کہ ہم عدلیہ کو بحیثیت ایک ادارہ سپورٹ کرتے ہیں۔ اگر ہم عدالتی فیصلوں سے اتفاق نہ بھی کریں تو بھی ہم ان کو تسلیم کریں گے۔ گفتگو کرتے ہوئے شبلی فراز نے کہا کہ فتووں کی کو ئی گنجائش نہیں‘ قانون اور آئین کے دائرے میں بات کرنے کے قائل ہیں۔ ہم کسی بھی شخص کے ایسے اقدام کو سپورٹ نہیں کر سکتے۔ اگر آپ کو کسی فیصلے پر اعتراض ہے تو اسے چیلنج کریں۔ حکومتی نمائندے پریس کانفرنس کر کے معاملہ مزید بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ میں حیران ہوں کہ یہ آج بیٹھ کر چیف جسٹس کی حمایت میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ آٹھ ججز کے فیصلے کو یہ مانتے نہیں اور ادھر یہ کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہم انفرادی طور پر نہ کسی کے خلاف ہیں‘ نہ کسی کو سپورٹ کرتے ہیں۔ وزراء دفتروں میں کم بیٹھتے ہیں اور پریس کانفرنس زیادہ کرتے ہیں۔ مہنگائی اور بجلی بلوں میں اضافے کے خلاف ساری قوم سراپا احتجاج ہے‘ ان نااہلوں کے پاس کوئی پلان نہیں‘ سمجھ نہیں آتا حکومت کس کی طرف کھڑی ہے۔فیصل آباد سے نمائندہ خصوصی کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کو دھمکیاں دینے پر فیصل آباد کے تھانہ ریل بازار میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ سب انسپکٹر کی مدعیت میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مزید 6 قائدین اور 700 کارکنوں کے خلاف درج کیا گیا ہے۔شیخوپورہ سے نمائندہ خصوصی کے مطابق تھانہ سٹی اے ڈویژن پولیس شیخوپورہ نے تحریک لبیک شیخوپورہ کی مقامی قیادت کے خلاف چیف جسٹس کے خلاف دھمکی آمیز تقریر کرنے پر دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق تحریک لبیک شیخوپورہ کے ضلعی صدر طاہر سیفی کی قیادت میں ریلی نکالی گئی، مقامی قیادت نے جماعت کی لیڈر شپ سے باہم مشورہ ہو کر چیف جسٹس کو جان سے مارنے کے منصوبہ کو پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے دھمکی آمیز الفاظ استعمال کیے تھے۔خواجہ محمد آصف  اور احسن اقبال نے کہا کہ کسی گروہ کے سیاسی مفادات کی بناء پر ریاست کسی بھی صورت ڈکٹیشن قبول نہیں کرے گی۔ ہر خاص اور عام کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو کسی کے قتل  کا فتویٰ جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی، نہ ہی   حکومت اس طرح کے رویوں کو پنپنے کی اجازت دے گی، ملک میں فساد اور انتشار پھیلانے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ خواجہ آصف نے کہا ریاست میں اگر اس طرح کھلی چھٹی دی گئی تو ریاست کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ سیاسی اور دیگر مفادات  کو مدنظر رکھتے ہوئے  سوشل میڈیا میں عوام کو قتل پر اکسانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انتہا پسندانہ پوسٹیں سوشل میڈیا پر لگائی جا رہی ہیں، ختم نبوت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، تمام مسلمانوں کو اس بات کا اعادہ کرنا پڑے تو سمجھیں کہ معاشرے میں کوئی ایسی کمزوری ضرور ہے جس کی وجہ سے اپنے ایمان کی ظاہری حیثیت کو بار بار اجاگر کرنا پڑ رہا ہے۔ ایمان اپنے اعمال سے ظاہر ہونا چاہیے اور لوگ آپ کی تقلید کریں۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ آئین کے مطابق فیصلے اور آئین کی تشریح کر رہی ہے۔ آئین کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔ ہر شخص مذہب کو استعمال کر کے اپنی سیاسی دکان چمکانا چاہتا ہے، اس کی اجازت نہیں دے جائے گی۔ اس طرح کا فتویٰ اور ایک کروڑ روپے کا اعلان کرنے سے زیادہ گری ہوئی حرکت نہیں ہو سکتی۔ اس کے خلاف ایکشن سب کو نظر آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے دھرنے سے متعلق قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد سے انھیں ان کے اہلخانہ کو ٹارگٹ کیا گیا، ان کے خلاف ریفرنس میں  سابق حکومت کو شرمندگی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ 100 فیصد جھوٹ کی بنیاد پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف فتویٰ دیا گیا‘ پوری دنیا میں پاکستان کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ احسن اقبال نے کہا  کہ چیف جسٹس عدلیہ کے سربراہ ہیں اور عدلیہ اہم ریاستی ستون ہے۔ چیف جسٹس سے متعلق بیان آئین و دین سے کھلی بغاوت ہے۔

ای پیپر دی نیشن