پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں بلوچ نسل کے حقوق و بالادستی کے حامی گروپ 'بلوچ یکجہتی کونسل' کا احتجاج تیسرے روز میں داخل ہو گیا ہے۔ صوبہ بلوچستان پاکستان کا حساس ترین اہمیت کا صوبہ ہے پاکستان کی اس صوبے کے توسط سے افغانستان اور ایران دو ملکوں سے زمینی سرحد ملتی ہے جبکہ طویل ساحلی پٹی سے بھی جڑا ہوا صوبہ ہے۔اس صوبے کی نسلی برتری کے حامی گروپ جسے انسانی حقوق گروپ کے طور پر پہیش کیا جاتا ہے کا احتجاج ایسے وقت میں جاری ہے جب ملک کے اعلی ترین آئینی عہدہ صدارت پر بھی ایک بلوچ ہی فائز ہے اور ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ کی سربراہی صوبہ بلوچستان کے رہائشی کے پاس ہے۔ محض چند ماہ پہلے ملک کا نگران وزیر اعظم اور نگران وزیر داخلہ بھی اسی صوبہ بلوچستان سے لیا گیا تھا۔ اتفاق ہے کہ اس وقت چیئرمین سینیٹ بھی صوبہ بلوچستان سے تھا۔اس صوبے سے تعلق رکھنے والی اہم ترین اور حکمران جماعت ملکی اقتدارپر فائز مخلوط حکومت کی اتحادی ہے۔بہرحال اس اہم ترین احتجاج کی وجہ اس تنظیم کے بعض حامیوں کی رہائی ہے، اس تنظیم 'بی وائی سی' کی قیادت 31 سالہ ماہ رنگ بلوچ قیادت کر رہی ہیں۔ جنہوں نے تھوڑے عرصے میں میڈیا میں خوب پزیرائی حاصل کر لی ہے۔وہ اتوار کے روز صوبہ بلوچستان کے بندر گاہی شہر گوادر میں ایک ریلی سے اسی تناظر میں خطاب کر رہی تھیں کہ بلوچ عوام کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے۔س ان کا الزام ہے کہ پاکستان کے عسکری ادارے ماورائے عدالت قتل اور لاپتہ کرنے میں ملوث ہیں۔ جبکہ عسکری ادارے اس امر کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم صوبے میں لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے عام شہریوں کے ساتھ ہیں۔ لیکن دہشت گردی کرنے والے عناصر کے ساتھ نہیں ہیں۔ماہ رنگ بلوچ کا الزام ہے کہ ان کی گوادر کی ریلی میں شرکت کے لیے تربت ، مستونگ وغیرہ سے نکلے تھے کہ پولیس نے آلیا۔ اس دوران کئی لوگ گرفتار کیے گئے ہیں۔ ماہ رنگ بلوچ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان ریلی میں آنے والے مظاہرین میں ایک ہلاک بھی ہوا ہے تاہم سیکورٹی ادارے فوری طور پر تصدیق نہیں کر رہے۔بتایا گیا ہے کہ گوادر، مستونگ اور تربت میں انٹر نیٹ اور موبائل فون کی سروس بند کی گئی ہے۔ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہے اگر حکومت نے ہمارے مطالبات نہ مانے تو ہمارا احتجاج پورے صوبے میں پھیلا دیں گے۔ مطالبات میں گرفتار کیے گئے افراد کی رہائی سرفہرست ہے۔