”آخرت کی بجائے مارشل لاءکا ڈر“

نوازخان میرانی ۔۔۔
اگر حکومت میں فلاحی مملکت کے معنوں کو سمجھنے اور اس پر عمل درآمد کے عمل کرنے اور فہم و ادراک کی کمی ہے تو بجا ہے کہ یہ تو صرف توفیق ہی سے ممکن ہے جس کے دور میں اجتماعی خودکشیوں، زہرخوانی، پنکھوں پہ جھولنے اور غربت و افلاس کی وجہ سے اپنے پیارے اور معصوم بچوں کو مار دینے کا رجحان خطرناک حد تک فروغ پاتا جا رہا ہو، جس کے وزراءیہ بیان دیتے ہوں کہ ہم جانتے ہیں کہ دجلہ و فرات کے کنارے مر جانے والے کتے کا حساب بھی ہمیں دینا ہوگا تو پھر کیا وجہ ہے کہ خاندانوں کے خاندان غربت اور بھوک کی وجہ سے خودکشیاں کر کے مر رہے ہوں تو پھر ان کی زبان پہ تالہ بندی کا راج ہو جاتا ہے۔ کیا وہ اتنے معصوم ہیں کہ انہیں نہیں پتہ کہ پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز کی قیمت بڑھتی ہے۔
کیا ان انسانوں کا استحقاق جانوروں یعنی کتوں سے بھی کم ہے کہ دجلہ کے کنارے مرنے والے کا پتہ ہے لیکن اپنے ملک میں مرنے والے لوگوں اور خصوصاً سفید پوشوں کا کسی کو خیال نہیں۔ مرنے والے خاندان کے افراد نے یہی کہا تھا کہ خودکشی کرنے والے اپنی سفید پوشی قائم رکھنے کی خاطر کسی سے اپنے دکھوں کا اظہار اور بھوک کا تذکرہ نہیں کرتا تھا۔ جہاں ملک کے عوام مہنگائی کے ہاتھوں مر رہے ہوں، جہاں غربت کا یہ حال ہو کہ لوگ تین وقت کی روٹی کی بجائے دووقت اور تین روٹیوں کی بجائے ایک روٹی کھانے پر مجبور کر دیئے گئے ہوں، جہاں ایک سروے کے مطابق ملک میںگندم کا استعمال کافی حد تک کم ہو گیا ہو، اس غریب ملک کے وزیراعظم کو تو 50 لاکھ کے سوٹ پہننے کی بجائے ملتان سے تعلق کی بناءپر 100 روپے کی دھوتی میں نیپال، بھوٹان کے لوگوں کی طرح ملبوس ہو جانا چاہئے تاکہ وہ 16 کروڑ غریبوں کی نمائندگی کا حق ادا کر سکیں۔ اور انصاف کی آندھی چلنے پر بجائے سترپوشی کے بے نقابی پر مجبور ہو جائے۔ فلاحی مملکتوں میں ملکوں میں عوام بڑی بڑی گاڑیوں میں اور صدر اور وزیراعظم ٹرینوں اور بسوں میں عام مسافروں کی طرح سفر کرتے اور بسوں کا انتظار کرتے ہیں اور کئی وزراءاور وزیراعظم تو سائیکل پہ سواری کرنا باعث فخر سمجھتے ہیں مگر جہاں احتساب کی بات شروع ہو تو ہمارے حکمران عدلیہ کو کوسنے دینا شروع ہو جاتے ہیں کہ یہ ہمارے پیچھے کیوں پڑ گئی ہے، انہیں اور کوئی نظر نہیں آتا!! ہمارا خیال ہے کہ واقعی انہیں ملک میں تو کیا، دنیا میں ایسا نظر نہیں آتا جو 50 لاکھ کا سوٹ پہنتا ہو۔ اگر50 لاکھ کا سوٹ پہننا ہی تھا تو ڈالروں اور نوٹوں پر غلاف چڑھا کر ڈالروں کا سوٹ سلوا دیا جاتا مگر جہاں حکمرانوں کو اپنے فرائض کا علم ہی نہیں ہو کہ بجائے اس کے کہ عوام کو ضروریات زندگی فراہم کرے انہیں ڈرون حملوں میں مار دیا جائے اور جو باقی بچیں انہیں کسی اور کے حوالے کر دے اور اگر پھر بھی باقی بچ جائیں، سو کی کابینہ کے بعد (سو کی کابینہ اس لئے ضروری ہے کہ حکمرانی کیلئے انسانوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے) تو وہ خود ہی مہنگائی کے ہاتھوں مر جائیں گے، پھر اپنے لباس اور ملبوسات کی نمائش کی خاطر پانچ یا دس لاکھ دے کر باقی غرباءکو خودکشی کی تلقین اور حوصلہ افزائی کی جائے گی حالانکہ آنحضرت کا فرمان ہے کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرے اور نہ انہیں دشمنوں کے سپرد کرے۔ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی میں ہوتا ہے اور جو شخص مسلمانوں سے تکلیف اور مشقت دور کرے، اللہ اس سے قیامت کی مشکلوں میں سے مشکل اور تکلیف دور فرماتا ہے۔
ہمارے خیال میں آئین میں ترامیم کو مشغلہ بنانے والے گیلانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی تکالیف دور کرنے کا کہا گیا ہے حالانکہ وہ تو صرف مریدین کی تکالیف دور کرنے کے پابند ہیں اور اس سرمایہ کاری پر ہی تجارت کا دارومدار ہوتا ہے۔ دوسرے ہمارا یہ خیال ہے کہ قیامت کی مشکلات دور ہو جانے کا جہاں تک تعلق ہے وہ تو روز قیامت پہ یقین رکھنے والوں کیلئے ہوتا ہے۔ اگر قیامت پر یقین ہوتا تو اس عمر یعنی 60 کو پہنچنے والے شخص کو تو یہ پیسہ اپنے علاقے کے غرباءمیں تقسیم کر دینا چاہئے تھا کیونکہ جس کے نام پہ یہ خود دکانداری سجا کے بیٹھے ہیں وہ تو انہوں نے بوقت وصال بھی اپنی ازواج مطہرات کو بلا کر حکم دیا تھا کہ ہمارے گھر میں نہ دو ریال ہوں اور نہ ہی کھجور کے کچھ دانے اور ذرہ برابر مال۔ مال کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ شہنشاہ دو جہاں، سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹا کر گھر تشریف لاتے تھے مگر جہاں حکمران یہ کہیں کہ اللہ کے ڈر سے نہیں، مفاہمت مارشل لاءکے ڈر سے کر رہے ہیں، دنیا کا حساب رکھنے والوں کو آخرت کا حساب کتاب کبھی نہیں بھولنا چاہئے!! کیونکہ اسی میں دونوں جہانوں کی کامیابی و کامرانی ہے!!!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...