روزنامہ جنگ 11-6-2011کے شمارے میں جناب الطاف حسن قریشی کا ایک کالم بعنوان ”مہران بیس کی لازوال داستانیں“ شائع ہوا ہے جس میں ایک جگہ رقم طراز ہیں۔ ”انٹیلی جینس اور سیکورٹی کی بہت بڑی ناکامی کا ہمیں 1965ءکی جنگ میں بھی تجربہ ہوا تھا۔ رن کَچھ کے معرکے میں بھارتی فوجوں کو منہ کی کھانا پڑی تھی۔ جس کے باعث پاکستان اور بھارت کے حالات بڑے کشیدہ ہو گئے تھے اور جنگ کے خطرات منڈلانے لگے تھے مگر ہماری انٹیلی جینس کو خبر ہی نہ ہوئی کہ بھارت اپنا آرمڈ کور جھانسی سے جالندھر لے آیا ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا جاسوسی نظام یہ معلوم کرنے میں بھی ناکام رہا تھا کہ بھارتی فوجیں پانچ اور چھ ستمبر کی درمیانی رات لاہور پر حملہ آور ہونے والی ہیں۔ چنانچہ رینجرز کی ایک آرمز کمپنی نے دشمن کو پانچ گھنٹے تک پیش قدمی سے روکے رکھا اور اپنی فوج کو صف بندی کا موقع فراہم کیا۔
رات کے اندھیرے میں میجر عزیز بھٹی اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوئے اور ان کی غیر معمولی شجاعت اور عزیمت پر انہیں نشان حیدر دیا گیا۔اس تحریر میں میجر عزیز بھٹی شہید بارے جو لکھا گیا ہے اس میں انہیں نشان حیدر سے نوازے جانے کے سوا دیگر معلومات درست نہیں بلکہ سراسر خلاف واقعات ہیں۔ ایک عظیم قومی ہیرو کے بارے میں ریکارڈ کی درستی کی اجازت چاہتا ہوں۔
میجر عزیز بھٹی نہ اس رات کے اندھیرے میں اور نہ ہی ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ میجر عزیز بھٹی 12ستمبر کو صبح 9.30 بجے بی آر بی نہر کنارے، او۔پی۔کی ڈیوٹی کرتے ہوئے شہید ہوئے، کوئی دوسرا ان کے ساتھ شہید نہیں ہوا۔ مجھے محترم الطاف حسن قریشی کی ایسی بے خبری پر حیرت ہوئی ہے۔ میں منتظر رہا کہ ”جنگ“ کا کوئی قاری اس فروگزشت کی طرف توجہ دے گا۔ مگر تادم تحریر ایسا نہیں ہوا۔ (یہی تحریر 14جون کو روزنامہ جنگ کو فیکس کی ہے مگر جنگ نے اسے نہیں چھاپا ہے)
اب اصل واقعات کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:۔ان دنوں امپیریل ڈیفنس ٹیم پاکستان آئی ہوئی تھی اور سرکاری پروگرام کے مطابق 6ستمبر کو میجر عزیز بھٹی ٹیم کے ساتھ ان کو لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر کروانے والے تھے۔ اچانک شیڈول کی تبدیلی کے بعد میجر صاحب 6ستمبر کی صبح بمشکل ساڑھے سات بجے برکی محاذ پر پہنچ سکے تھے جبکہ میجر شفقت بلوچ کی ڈی کمپنی ان سے آگے، ہڈیارہ سیکٹر پر پہنچ چکی تھی۔میجر عزیز بھٹی نے برکی کے نازک محاذ پر چھ دن اور چھ راتیں داد شجاعت دی۔ اور تاریخی کردار ادا کیا۔ اس دوران انہیں آنکھ جھپکنے کا کم کم موقع ملا۔9ستمبر کو ان کے کمانڈنگ آفیسر کرنل محمد ابراہیم قریشی نے کانفرنس کے بہانے انہیں پیچھے ہیڈ کوارٹر بلایا۔ وہ ان کو آرام دلانا چاہتے تھے مگر میجر صاحب نے معذرت کی۔ انکار کیا اور ان کو یقین دلایا کہ ان کے لئے آرام و راحت محاذ پر ہی ہے، برکی گاﺅں میں وہ سب سے اونچے چوبارے پر او۔پی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ جب نہر بی۔آر۔بی کے پار آنا پڑا تو بھی نہر کی پٹڑی کے نسبتاً اونچے مقام پر ڈیوٹی دیتے رہے۔ ساتھیوں نے خطرے کا احساس دلایا۔ مگر فرض کے سامنے جان کی کم ہی پرواہ کرتے تھے۔ 12ستمبر کو حسب معمول ڈیوٹی دے رہے تھے کہ دشمن کا ایک گولہ آیا۔ ان کے قریب شیشم کے درخت کو چیرتا ہوا اینٹوں کے ایک ڈھیر پر پڑا۔ اتنا گردو غبار اٹھا کہ ساتھیوں نے سمجھا میجر صاحب شہید یا رخمی ہو گئے ہیں مگر ان کو خراش تک نہیں آئی تھی۔ ساتھیوں سے کہنے لگے اپنی اپنی پوزیشن لے لیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ دوربین لے کر دشمن کا مشاہدہ کرنے ہی والے تھے کہ اسی لمحہ ٹھوس فولاد کا ایک گولا ان کے سینے کو چیرتا ہوا دائیں پھیپھڑے سے پار ہو چکا تھا اور شجاعت و ایثار کا یہ مجسمہ ہمارا عظیم عسکری ہیرو اپنے فرائض سے سبکدوش ہو رہا تھا۔
پونے چھ سو صفحات پر مشتمل میری کتاب ”میجر عزیز بھٹی“ (بائیو گرافی) مئی 1967ءمیں شائع ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کتاب کے دو نسخے جناب الطاف حسن قریشی کو پیش کئے تھے۔ انہوں نے اسے بہت سراہا اور کتاب سے محاذ کا 63 صفحات پر مشتمل 6دنوں کا اکاﺅنٹ بلا کم و کاست اردو ڈائجسٹ کے ستمبر1967ءکے شمارہ میں شامل کر لیا۔ اس پر اصغر علی گھرال کا نام ضرور شامل تھا۔ البتہ کتاب کا ذکر یا حوالہ نہیں تھا۔
نوٹ:(کتاب کے حوالے سے مجھ سے یہ بلنڈر ہوئی ہے کہ خود چھاپی اور اس کی کامیابی اور شہرت کے بعد ممتاز اشاعتی اداروں کے تقاضوں کے باوجود اسے کسی کے حوالے نہ کر سکا اور چند ایڈیشنوں کے بعد آج بھی فوج اور لائبریریوں کی ڈیمانڈ کو پورا نہیں کر سکتا ہوں۔ کسی مناسب اشاعتی ادارے کے حوالے کرنا چاہتا ہوں)۔
رات کے اندھیرے میں میجر عزیز بھٹی اپنے ساتھیوں سمیت شہید ہوئے اور ان کی غیر معمولی شجاعت اور عزیمت پر انہیں نشان حیدر دیا گیا۔اس تحریر میں میجر عزیز بھٹی شہید بارے جو لکھا گیا ہے اس میں انہیں نشان حیدر سے نوازے جانے کے سوا دیگر معلومات درست نہیں بلکہ سراسر خلاف واقعات ہیں۔ ایک عظیم قومی ہیرو کے بارے میں ریکارڈ کی درستی کی اجازت چاہتا ہوں۔
میجر عزیز بھٹی نہ اس رات کے اندھیرے میں اور نہ ہی ساتھیوں سمیت شہید ہوئے۔ میجر عزیز بھٹی 12ستمبر کو صبح 9.30 بجے بی آر بی نہر کنارے، او۔پی۔کی ڈیوٹی کرتے ہوئے شہید ہوئے، کوئی دوسرا ان کے ساتھ شہید نہیں ہوا۔ مجھے محترم الطاف حسن قریشی کی ایسی بے خبری پر حیرت ہوئی ہے۔ میں منتظر رہا کہ ”جنگ“ کا کوئی قاری اس فروگزشت کی طرف توجہ دے گا۔ مگر تادم تحریر ایسا نہیں ہوا۔ (یہی تحریر 14جون کو روزنامہ جنگ کو فیکس کی ہے مگر جنگ نے اسے نہیں چھاپا ہے)
اب اصل واقعات کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:۔ان دنوں امپیریل ڈیفنس ٹیم پاکستان آئی ہوئی تھی اور سرکاری پروگرام کے مطابق 6ستمبر کو میجر عزیز بھٹی ٹیم کے ساتھ ان کو لاہور کے تاریخی مقامات کی سیر کروانے والے تھے۔ اچانک شیڈول کی تبدیلی کے بعد میجر صاحب 6ستمبر کی صبح بمشکل ساڑھے سات بجے برکی محاذ پر پہنچ سکے تھے جبکہ میجر شفقت بلوچ کی ڈی کمپنی ان سے آگے، ہڈیارہ سیکٹر پر پہنچ چکی تھی۔میجر عزیز بھٹی نے برکی کے نازک محاذ پر چھ دن اور چھ راتیں داد شجاعت دی۔ اور تاریخی کردار ادا کیا۔ اس دوران انہیں آنکھ جھپکنے کا کم کم موقع ملا۔9ستمبر کو ان کے کمانڈنگ آفیسر کرنل محمد ابراہیم قریشی نے کانفرنس کے بہانے انہیں پیچھے ہیڈ کوارٹر بلایا۔ وہ ان کو آرام دلانا چاہتے تھے مگر میجر صاحب نے معذرت کی۔ انکار کیا اور ان کو یقین دلایا کہ ان کے لئے آرام و راحت محاذ پر ہی ہے، برکی گاﺅں میں وہ سب سے اونچے چوبارے پر او۔پی کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ جب نہر بی۔آر۔بی کے پار آنا پڑا تو بھی نہر کی پٹڑی کے نسبتاً اونچے مقام پر ڈیوٹی دیتے رہے۔ ساتھیوں نے خطرے کا احساس دلایا۔ مگر فرض کے سامنے جان کی کم ہی پرواہ کرتے تھے۔ 12ستمبر کو حسب معمول ڈیوٹی دے رہے تھے کہ دشمن کا ایک گولہ آیا۔ ان کے قریب شیشم کے درخت کو چیرتا ہوا اینٹوں کے ایک ڈھیر پر پڑا۔ اتنا گردو غبار اٹھا کہ ساتھیوں نے سمجھا میجر صاحب شہید یا رخمی ہو گئے ہیں مگر ان کو خراش تک نہیں آئی تھی۔ ساتھیوں سے کہنے لگے اپنی اپنی پوزیشن لے لیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ دوربین لے کر دشمن کا مشاہدہ کرنے ہی والے تھے کہ اسی لمحہ ٹھوس فولاد کا ایک گولا ان کے سینے کو چیرتا ہوا دائیں پھیپھڑے سے پار ہو چکا تھا اور شجاعت و ایثار کا یہ مجسمہ ہمارا عظیم عسکری ہیرو اپنے فرائض سے سبکدوش ہو رہا تھا۔
پونے چھ سو صفحات پر مشتمل میری کتاب ”میجر عزیز بھٹی“ (بائیو گرافی) مئی 1967ءمیں شائع ہوئی۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے کتاب کے دو نسخے جناب الطاف حسن قریشی کو پیش کئے تھے۔ انہوں نے اسے بہت سراہا اور کتاب سے محاذ کا 63 صفحات پر مشتمل 6دنوں کا اکاﺅنٹ بلا کم و کاست اردو ڈائجسٹ کے ستمبر1967ءکے شمارہ میں شامل کر لیا۔ اس پر اصغر علی گھرال کا نام ضرور شامل تھا۔ البتہ کتاب کا ذکر یا حوالہ نہیں تھا۔
نوٹ:(کتاب کے حوالے سے مجھ سے یہ بلنڈر ہوئی ہے کہ خود چھاپی اور اس کی کامیابی اور شہرت کے بعد ممتاز اشاعتی اداروں کے تقاضوں کے باوجود اسے کسی کے حوالے نہ کر سکا اور چند ایڈیشنوں کے بعد آج بھی فوج اور لائبریریوں کی ڈیمانڈ کو پورا نہیں کر سکتا ہوں۔ کسی مناسب اشاعتی ادارے کے حوالے کرنا چاہتا ہوں)۔