وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی زیر صدارت توانائی پالیسی کے اجلاس میں وزیراعظم نے نئی توانائی پالیسی کی منظوری دیدی ہے۔ اجلاس میں بھارت سے بجلی کی درآمد پر بعض ماہرین نے تحفظات ظاہر کئے۔ ایران سے ایک ہزار میگاواٹ بجلی درآمد‘ قیمتوں میں اضافے اور سبسڈی بتدریج ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کیلئے بجلی کی پیداوار 1500 میگاواٹ فوری طور پر بڑھانے، وفاقی اور صوبائی اداروں سے 300 ارب کے واجبات کی فوری وصولی، بجلی چوروں کے خلاف قانون سخت بنانے، پاور پلانٹس کیلئے گیس نرخ یکساں کرنے، پاور پلانٹس کو ترجیحی بنیادوں پر گیس مہیا کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ۔ لائن لاسز کو چار سال میں 2 فیصد تک لایا جائیگا۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ توانائی بحران سے عوام مشکلات کا شکار ہیں، نئی توانائی پالیسی سے بحران ختم ہوجائیگا، حکومت توانائی بحران کے خاتمے کیلئے پرعزم ہے، عوام کی مشکلات حل کرنے میں توانائی پالیسی اہم کردار ادا کریگی۔ اجلاس میں کوئلہ اور گنے کے پھوک سے بجلی کے کئی منصوبے فوری شروع کرنے کی تجویز دی گئی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ 60 سے 70 فیصد انحصار پن بجلی، سولر انرجی، ونڈ انرجی اور کوئلے پرکردیا جائیگا۔ نئی پالیسی کے مطابق بجلی کی قیمتیں 15 روپے فی یونٹ سے کم کر کے 10 روپے تک لانے کا ہدف تجویز کیا گیا ہے۔ توانائی پالیسی کے چار اہم نکات ہوں گے جن میں بجلی کی طلب و رسد کے درمیان فرق دور کرنا، صارفین کیلئے سستی بجلی کی دستیابی یقینی بنانا، بجلی کی چوری کم سے کم کرنا اور توانائی سیکٹر میں سرمایہ کاری کو پرکشش بنانا شامل ہیں۔دریں اثناوزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ پرائیویٹ پاور کمپنیوں کو 326ارب روپے کی ادا ئیگی شروع کردی ،10اگست تک سرکلر ڈیٹ ختم کردینگے۔ نجی ٹی وی کے مطابق حکومت نے آئی پی پیز کو 200ارب روپے کی ادائیگی کردی ہے۔
بلاشبہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بجلی کا بدترین بحران ورثے میں ملا جو پیپلزپارٹی کی حکومت کی انتہا کو چھوتی کرپشن کا شاخسانہ تھا جس میں سپریم کورٹ نے اس وقت کے وزیراعظم کو بھی ملوث قرار دیا ۔ رینٹل منصوبوں میں اربوں روپے کی لوٹ مار نہ ہوتی‘ آئی پی پیز کو بروقت ادائیگیاں کی جاتیںاور سرکاری پاور پلانٹس کو تیل کی سپلائی بحال رہتی تو بجلی کا بحران اس قدر شدید نہ ہوتا جو آج ہے اور جس کے باعث معیشت اور معاشرت تہہ و بالا ہو گئی۔ مسلم لیگ (ن) نے انتخابی مہم میں پیپلزپارٹی کی بجلی بحران جیسی عوام کش پالیسیوں کو بے نقاب کرکے میدان مارلیا۔
عوام نئی حکومت سے بجا طور پر لوڈشیڈنگ سے کم از کم مدت میں نجات کی توقع رکھتے تھے‘ تین ہفتے گزرنے کے باوجود حکومت ان توقعات پر پورا اترنے میں ناکام نظر آئی اور لوگ ایک بار پھر مشتعل ہو کر گھروں سے نکل آئے جن پر پولیس بہیمانہ تشدد کرتی ہے۔ نواز شریف حکومت عوام کو لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کے حسین سپنے تو دکھاتی ہے لیکن عملی طور پر بات ڈھاک کے تین پات سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ ایسے میں انرجی پالیسی بھی خوش کن نعروں اور دعوﺅں کا ملغوبہ بن کے نہ رہ جائے۔
سپریم کورٹ نے اپنے احکامات میں کہا تھا کہ پورے ملک میں یکساں لوڈشیڈنگ کی جائے۔ اس پر نگران حکومت نے عمل کیا‘ نہ عوام دوست جمہوری حکومت اس کو عمل کا روپ دے سکی ہے۔ آج بھی کہیں بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے‘ کہیں بارہ گھنٹے اور کہیں نان سٹاپ بجلی فراہم کی جاتی ہے۔ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف نے قلمدان سنبھالتے ہی پورے ملک میں یکساں لوڈشیڈنگ کا دعویٰ کیا‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ پہلے ہی موجودہ تھا لیکن اس پر ہنوز عمل نہیں ہوا۔ آخر اس میں حکومت بے بس کیوں ہو گئی؟ یہ اسکی کمزور رٹ کی نشاندہی ہے یا نااہلی ہے؟
لوڈشیڈنگ کا بنیادی سبب 5 سو ارب کا گردشی قرضہ بتایا جاتا ہے۔ وزیر خزانہ کے بقول اسکی ادائیگی شروع کر دی گئی ہے۔ اس میں سے 200 ارب روپے نجی کمپنیوں کو جاری کر دیئے گئے ہیں۔ دس اگست تک سرکولرڈیٹ سے مکمل طور پر نجات مل جائیگی۔ 200 ارب کی ادائیگی کے بعد لوڈشیڈنگ میں کمی کا امکان ہے‘ قرضوں کی مکمل ادائیگی کے بعد اصولی طور پر لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو جانا چاہیے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت0 2 ہزار میگاواٹ سے زائد اور ضرورت 18 ہزار سے بھی کم ہے جب گردشی قرضے اتر جائینگے اور تمام پاور پلانٹس چالو ہو جائینگے تو پھر حکمران کس طرح تین سال میں لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی بات کر رہے ہیں؟ بھارت کے ساتھ حکومت میں موجود کچھ شخصیات کے مفادات وابستہ ہونگے‘ قائداعظم کے پاکستان کے حکمران ہونے کے ناطے وہ بھی نہیں ہونے چاہئیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات اور مفادات وابستہ رکھنا اگر کسی نے ایمان کا حصہ بنا لیا ہے تو وہ اپنی ذات تک ہونا چاہیے‘ اس پر قومی مفاد کو قربان نہ کیا جائے۔
گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شرف سے ترک وفد نے ملاقات کی جس میں کوڑے کرکٹ سے بجلی پیدا کرنے میں تعاون پر اتفاق ہوا ۔ نندی پور اور چیچوکی ملیاں پراجیکٹس سے بجلی کی عنقریب 900 میگاواٹ پیداوار قومی گرڈ میں شامل ہو جائیگی۔ چین کے تعاون سے قادرآباد‘ تونسہ‘ ملتان‘ سکھر‘ گدو اور نوشہرو میں ایٹمی بجلی پلانٹ تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ چین کے ساتھ چولستان میں ایک ہزار میگاواٹ کے سولر پراجیکٹس لگانے کیلئے معاہدوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ گنے کے پھوک سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بھی زیر غور ہیں۔ اسکے باوجود بھی بھارت سے بجلی کی درآمد کے منصوبے کو کیا نام دیا جائے؟ وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھارت سے بجلی درآمد کرنے کے اعلان کرچکے ہیں‘ متعلقہ وزیر خواجہ آصف کچھ زیادہ ہی بے چین دکھائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے گزشتہ روز ایک نجی چینل پر بیٹھ کر فرمایا کہ بھارت‘ ایران اور تاجکستان سے بجلی خریدنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ جب آپ کو موجودہ سسٹم ضرورت کے مطابق بجلی فراہم کر سکتا ہے جس کا انتظام بھی حکومت نے کرلیا ہے تو بھارت سے بجلی خریداری کی منصوبہ بندی کیوں؟ حکمران عوام کے جذبات و احساسات کو مدنظر رکھیں‘ تقسیم کے موقع پر ہندو انتہاءپسندوں کے لگائے ہوئے زخم مندمل نہیں ہوئے‘ مقبوضہ کشمیر میں ان کو مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل تک قوم بھارت کے ساتھ تعلقات تجارت اور دوستی ہضم نہیںکر سکتی۔ عوام مسلم لیگ (ن) کو اقبال و قائد کی مسلم لیگ دیکھنا چاہتے ہیں‘ اسی لئے اسے بھاری مینڈیٹ سے ہمکنار کیا۔ بھارت سے بجلی خریدی گئی‘ تجارت‘ تعلقات اور دوستی کو فروغ دیا گیا تو یہ آبیل مجھے مار کے مترادف ہو گا۔
سرکولرڈیٹ کے خاتمے سے کم از کم ضرورت کے مطابق بجلی دستیاب ہو گی لیکن 60 فیصد تھرمل کے باعث مہنگی‘ ضرورت عوام کو ارزاں نرخوں پر بجلی کی ضرورت ہے جس کیلئے چین اور ترکی سے سولر اور ایٹمی بجلی گھر ممدومعاون ثابت ہونگے۔ مزیدبراں کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے چار ہزار میگاواٹ بجلی ڈیڑھ دو روپے میں دستیاب ہو سکتی ہے۔ اسکی تعمیر کی طرف بھی توجہ دینا ہو گی۔ کالاباغ ڈیم کوئلے‘ سولر‘ ونڈ اور ایٹمی بجلی گھروں جیسے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں تو نہ صرف لوڈشیڈنگ سے ہمیشہ کیلئے نجات مل جائے گی بلکہ تھرمل کی مہنگی ترین بجلی سے بھی چھٹکارا مل پائیگا۔
گردشی قرضوں کے خاتمہ سے لوڈشیڈنگ سے نجات ممکن‘ پھر بھارت سے بجلی درآمد کرنےکی منصوبہ بندی کیوں؟ ........ حکمران ”آبیل مجھے مار“ کی پالیسی ترک کریں
Jun 30, 2013