ہماری مسجدوں کا تقدس

Jun 30, 2014

امیر نواز نیازی

ہم جمعہ کی نماز، ڈیفنس کے این بلاک کی مسجد میں ادا کرتے ہیں جس کے لئے سکیورٹی کے ایک بڑے حصار سے گزر کر مسجد میں داخل ہونا ہوتا ہے۔ تو نہ جانے کیوں دل کو ایک انجانا خوف گھیرے رکھتا ہے۔ اور ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم مسجد میں نہیں، خدانخواستہ کسی مقتل میں داخل ہو رہے ہیں اور پھر مسجد میں ایسے کونے میں کھڑے ہونے کی کوشش کرتے ہیں جسے اپنے طور محفوظ سمجھتے ہیں اور یوں نماز کے لئے جو سکون اور یکسوئی درکار ہوتی ہے یکدم مجروح ہو کر رہ جاتی ہے ایسے میں اللہ تعالی ہی ہماری نماز قبول فرمائے وہ بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ ہمارے ایک دوست، جو کچھ عرصہ پہلے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد لوٹے۔ باتوں باتوں میں بتانے لگے کہ اس دوران وہاں ان کی ملاقات ایک بھارتی مسلمان سے ہوئی تو انہوں نے ازراہ ہمدردی اس سے پوچھ لیا کہ بھارت میں مسلمانوں کا کیا حال ہے تو بھارتی مسلمان ترت چٹخ کر جواب دیا ہمیں وہاں کیا ہونا چاہئے ہمیں تو ہر وقت آپ کی ہی فکر کھائے رکھتی ہے کہ آپ کی مسجدیں تک محفوظ نہیں اور وہاں آئے روز بم پھٹتے ہیں جب کہ ہندوستان میں ہماری مسجدوں میں امام مسجد خطبے دے رہے ہوتے ہیں اور ہندو اور سکھ باہر کھڑے ہو کر خطبے سن رہے ہوتے ہیں۔ یہ سن کر ہمارے دوست شرمسار ہو کر رہ گئے۔ اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کی اب یہ حالت ہے کہ یہاں مسجدیں بھی محفوظ نہیں تو ہمارے لئے یہ ڈوب مرنے کا ہی مقام ہے۔
تو یہ ہمارے ساتھ بھی کچھ ایساہی ہو رہا ہے کہ اور وہ جو کہتے ہیں، مرے کو مارے شاہ مدار۔ ہمارے لوڈشیڈنگ فیم مہربان واپڈا والے بھی ہم پر اس قدر کرم فرما واقع ہوئے ہیں کہ باقاعدگی سے وہ ٹھیک ایک بجے ہماری اس مسجد پر بجلی بند کر دیتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ نمازی بجلی کی تمام تر فیوض وبرکات سے بے نیاز ہو کر یکسوئی کے ساتھ نماز ادا کر سکیں۔ اور عین دو بجے وہ اس کی بجلی بحال کر دیتے ہیں جب تمام نمازی مسجد سے رخصت ہو چکے ہوتے ہیں یا ہو رہے ہوتے ہیں۔ اور یہی ہمیشہ سے ہی ان کا شیڈول اور معمول رہا ہے اور اب جب کہ گرمی اور حبس کا موسم اپنے شباب پہ ہے۔ تو سینکڑوں کی تعداد میں موجود اس مسجد کے نمازی بجلی کے بغیر ایک گوناںگو عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد ان نمازیوں کی ہوتی ہے جو مسجد کے محدود ہال سے باہر کھلے آسمان تلے کھلے لان میں نماز ادا کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات یہ اجتماع بیرونی سڑکوں تک پھیلا ہوا ہوتا ہے اور ان کے سروں پر فقط ایک کپڑے کا بنا خیمہ تنا ہوتا ہے جس میں سے آگ برساتا سورج پوری تمازت کے ساتھ جھانکتا ہے اپنے انگارہ وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے کرنے کو تو وہاں مسجد کی انتظامیہ نے پیڈسٹل پنکھوں کا بھی انتظام کر رکھا ہے لیکن ایسے پنکھوں کا کیا فائدہ، جہاں بجلی ہی موجود نہ ہو۔ ایسے ہی پسینوں سے شرابور، حبس سے دم بخود، کندھے سے کندھا ملائے، سینکڑوں نمازی، جن میں اکثریت بوڑھوں کی ہوتی ہے کس اضطراب سے دوچار ہوتے ہوں گے۔ اور پھر بھی وہ ملک کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں تو کچھ یہاں ان حکمرانوں کو بدعائیں دیتے بھی سنے جاتے ہیں۔ جنہوں نے انہیں اس حالت زار سے دوچار کیا یا کر رکھا ہے۔ ان میں زیادہ بددعائیں واپڈا کے حصے میں ہی جاتی ہیں کہ انہیں اتنا بھی شعور نہیں کہ لوڈشیڈنگ ان کی مجبوری ہی سہی، وہ اپنے اس شیڈول کو اس طرح ترتیب دیں کہ نمازوں کے اوقات میں تو بجلی مسجدوں کو دستیاب رہے۔ جب یہ کالم چھپے گا رمضان شریف اپنی منجملہ برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ شروع ہو چکا ہو گا اور نمازیوں کی تعداد بھی کئی گنا بڑھ چکی ہو گی تو اس دوران بھی واپڈا والوں کا یہی معمول رہا تو پھر اللہ ہی ان کو سمجھائے اور وہ ہمارا حافظ ہو۔
اور وہ جو کہتے ہیں بلکہ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالی رمضان شریف میں تمام شیاطین کو پابند سلاسل کر دیتا ہے تو کتنا ہی سکون ہو گا اگر واپڈا کا یہ شیطان بھی قابو میں آ جائے۔

مزیدخبریں