خدا نہ کرے کسی کو سوئی گیس سمیت کسی پبلک ڈیلنگ والے محکمے کے ساتھ واسطہ پڑ جائے۔ اگر ایسا ہو جائے تو نہ صرف پہلے کئی کئی گھنٹے کھڑے ہونے کی پریکٹس کر لینی چاہئے بلکہ دو اڑھائی کلومیٹر مسلسل چلنے، سراغ رسانی کر کے متعلقہ ڈیلنگ کلرک/ افسر تک پہنچنے کی پریکٹس کرنا بہت ضروری ہے۔ جن لوگوں کے گھٹنوں میں درد ہو یا ان کو قوت سماعت میں کمی کا مسئلہ درپیش ہو یا بائی پاس کا آپریشن کروایا ہو یا جن کو پیچش کی شکایت ہو یا جن کو سانس اکھڑے کا مرض لاحق ہو یا جن کی بینائی کمزور ہو۔ ضرورت کتنی بھی شدید کیوں نہ ہو انہیں نہ تو سوئی گیس کے پبلک ڈیلنگ والے دفتر جانا چاہیے اورنہ ہی کسی لائسنسنگ اتھارٹی، رجسٹریشن اتھارٹی، پراپرٹی ٹیکس کے دفتر میں جانے کی خواہش دل میں نہیں رکھنی چاہئے۔ حال ہی میں مجھے ایک ایسے مکان میں شفٹ کرنا پڑا جس میں گیس کا کنکشن نہیں تھا ڈیمانڈ نوٹس کی رقم جمع ہو چکی تھی۔ بہت بھاگ دوڑکے بعد ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو سوچا نوائے وقت اخبار سے وابستگی ہی شاید میرے لیے آسانی پیدا کر دے یہ سوچ کر میں لاہور میں سوئی گیس کے ہیڈ آفس ایجرٹن روڈ جا پہنچا۔ ایک سنئیر افسر کی مہربانی سے دفتر کے اندر تو پہنچ گیا لیکن ایم ڈی اور ڈی ایم ڈی صاحبان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ سنیئر جنرل مینجر سائوتھ کے کمر ے میں پہنچا تو ان کاکمرہ اتنا بڑا تھا جتنا میرا گھر ۔پھر فائیوسٹار ہوٹل جیسے ماحول میں انہوں نے میری درخواست پر دستخط کر کے جنرل مینجر لاہور کو مارک کر دی۔ میںاپنی اس کامیابی پر بہت خوش تھا کہ 80 فیصد کام ہو چکا ہے اب میں جی ایم لاہور گورو مانگٹ روڈ گلبرگ پہنچائوں تو وہاں کے ملازمین خوشدلی سے میرا استقبال کرتے ہوئے چند دنوں میں کنکشن لگا دیں گے اس خوش فہمی کا شکار جب میں اگلی صبح وہاں پہنچا تو ہر کھڑکی اور کائونٹر پر انسانوں کی لمبی قطار دکھائی دی جبکہ جی ایم سے ملنا تو مینجنگ ڈائریکٹر سوئی گیس سے ملنے سے بھی زیادہ مشکل تھا۔ ہر افسر سے درخواست کی لیکن بھی دفتر کے اندر جانے کا پروانہ دینے کو تیار نہیں تھا ایک ہمدرد افسر جلال صاحب کے توسط سے پروانہ حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گیا لیکن جی ایم کے بالائی دفتر تک پہنچتے پہنچتے گھٹنوں کے درد کی وجہ سے میں گرنے والا ہو گیا، ہانپتا کانپتا وہاں پہنچا تو پتہ چل اکہ جی ایم موجود ہیں اس وقت ساڑھے دس کا وقت تھا کمرے کے باہر ملاقات کا وقت دس سے بارہ بجے لکھا تھا۔ سیکرٹری نے مجھے ٹرخانے کی حتی المقدور کوشش کی لیکن میں تو طارق بن زیاد کی طرح کشتیاں جلا کر گیا تھا، میںیہ کہتے ہوئے وہاں بیٹھ گیا جی ایم جب بھی آئیں گے مل کر ہی جائوں گا۔ ایک شناسا شخص نے بتا دیا تھاجب تک جی ایم کو خود نہیں مل لیتے اس وقت تک گیس کنکشن ڈروانا خواب ہی رہے گا۔ پھر زیارت کروائے بغیر ہی جی ایم نے درخواست چیف انجینئر کو فارورڈ کر دی جنہوں نے ڈویلپمنٹ سیکشن کے انچارج فراز صاحب کو، انہوں سلمان کو، انہوں نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک اور شخص کو پھر وہاں سے ایک اور سیکشن میں چلی گئی۔ میں پانچ منٹ سے زیادہ کھڑا نہیں رہ سکتا تھا لیکن یہاں دربدر ٹھوکریں کھاتے ہوئے پونے دوگھنٹے ہو چکے تھے یقین اب بھی نہیں تھا کہ کام ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی جو سوئی گیس کے انچارج وزیر ہیں اور مینجنگ ڈائریکٹر سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ جن لوگوں کے ٹیکسوں سے آپ لوگ ائیرکنڈیشنڈ گاڑیوں، فائیو سٹار ہوٹلوں جیسے پُرتعیش ماحول میں لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں وصول کر کے خوب انجوائے کر رہے ہیں کیا ان کے مسائل کو حل کرناآپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔ جی ایم ہو، چیف انجینئر ہو یا ڈویلپمنٹ افسر ان تمام کو مین گیٹ سے ملحقہ دفاتر میں صبح آٹھ بجے سے 1 بجے بیٹھ کر عوام کی براہ راست شکایات کا ازالہ کرنے کا پابند کیوں نہیں بنایا جا سکتا، یہ سب کچھ ہو سکتا ہے اگر نیت صحیح ہو اور دل عوام کی خدمت سے سرشار بھی ہو۔