برطانیہ کے نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ”پاکستان اور بھارت میں ایک نئے موڑ کا آغاز مصافحے سے ہُوا جِس کے بعد بھارتی وزیرِاعظم نرِیندر مودی نے وزیرِاعظم پاکستان نواز شریف کی والدہ صاحبہ کو شال کا تحفہ بھجوایا اور جواب میں جناب نواز شریف نے شری نرِیندر مودی کی ماتا جی کو ساڑھی کا تُحفہ بھجوایا۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹبلِشمنٹ شری نرِیندر مودی کی تقریبِ حلف برداری میں جناب نواز شریف کی شرکت کے خلاف تھی اور وہ اب بھی (بھارت کے بارے میں) محتاط روّیہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ دراصل ملٹری اسٹبلِشمنٹ کشمیر کے بارے میں کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔“ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں میں "Culture" میں ہم آہنگی سے اِس بات کی یاد دہانی کرائی جا رہی ہے کہ وہ ”بھائی بھائی“ ہیں لیکن اِن دونوں بھائیوں میں دوستی اب دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتی!“ احمد فراز نے کہا تھا کہ
”دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ مِلانے والا!“
سوال یہ ہے کہ کیا کسی دشمن سے مصافحہ کرنے سے اُس سے نئے سِرے سے دوستی کا آغاز ہو سکتا ہے؟ خاص طور پر کِینہ پرور کِینہ توز اور کِینہ کیش دُشمن سے؟ سب سے پہلی کمزوری تو یہ کہ دُشمن سے مصافحہ ہی کیوں کیا گیا؟ اُستاد اَوج نے دشمن سے مصافحہ کرنے کا منظر بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ
”کِینہ دِلوں کا صاف عیاں تھا دمِ وصاف!
تیغیں تھی بے نیام تو خنجر تھے بے غلاف!“
میاں نواز شریف کی حلف وفاداری کی تقریب میں مدّعُوکئے جانے کے باوجود (اُس دَور کے) بھارتی وزیرِاعظم ڈاکٹر من موہن سِنگھ نے اُس تقریب میں شرکت کی زحمت گوارا نہیں کی تھی تو وزیرِاعظم نواز شریف نے شری مودی سے مصافحے کے لئے ہاتھ کیوں بڑھایا؟ ڈاکٹر من موہن سِنگھ تو سیکولر جماعت کے "Dummy" وزیرِاعظم تھے۔ (اُس سیکولر جماعت نے پاکستان کو دو لخت کرا دِیا تھا)۔ شری نرِیندر مودی تو قاتلوں اور خونخوار بھیڑیوں کی پارٹی ”بھارتیہ جنتا پارٹی“ کے پیشوا منتخب ہوئے ہیں۔ ستمبر 1965ءکی پاک بھارت جنگ کے بعد سوویت یونین کے وزیرِاعظم الیکسی کو سیگن کی دعوت پر صدر ایوب خان اور بھارتی وزیرِاعظم شری لال بہادر شاستری ”تاشقند“ گئے۔ 10 جنوری1966ءکو ان دونوں نے ”اعلانِِ تاشقند“ پر دستخط کئے۔ صدر ایوب خان طویل اُلقامت اور وجِیہہ تھے اور لال بہادر شاستری پست قامت اور کمزور ہے لیکن اعلان تاشقند پر دستخط کرنے کی حماقت کے بعد ایوب خان شاستری جی کے مقابلے میں ”بونے“ لگ رہے تھے۔
اِسی طرح جب ہمارے خوبصورت وزیرِاعظم مختلف نیوز چینلوں پر بھارت کے بد صورت وزیرِاعظم کے ساتھ کھڑے دکھائی دِئیے تو کم از کم مجھے تو بہت دُکھ ہُوا اور شرمندگی بھی۔ پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی کے بھی یقیناً یہی جذبات ہوں گے۔ قدیم ہندوستان میں کسی ریاست کے راجا کی ماں کو ”راج ماتا“ کہا جاتا تھا۔ یعنی ساری ریاست کی ماں۔ راجا کی پرجا (رعیت) ”راج ماتا“ کی بہت عِزّت کرتی تھی۔ آج کے جمہوری دَور میں بھی ہر حکمران صدر یا وزیرِ اعظم کی والدہ کا بہت احترام کیا جاتا ہے اور کِیا بھی جانا چاہئے۔ پاکستانیوں کے لئے وزیرِاعظم میاں نواز شریف اور وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی والدہ محترمہ سب پاکستانیوں کے لئے قابلِ احترام ہیں۔ اگر پاکستان کے کسی دوست مُلک کے صدر یا وزیرِاعظم کی طرف سے ، اُنہیں کوئی تحفہ بھجوایا جاتا تو اُسے قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں تھا لیکن ہمارے ازلی دشمن سے؟
بی بی سی اور اُس کے ہم خیالوں کی یہ سوچ ”احمقانہ“ یا ”عیّارانہ“ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے "Culture"(ثقافت، تہذیب، تمدن) میں ہم آہنگی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ”دو قومی نظریہ“ وجود میں کیوں آتا؟ سر سیّد احمد خانؒ، علّامہ اقبالؒ اور قائدِ اعظمؒ نہ صِرف انگریزی حکومت بلکہ اقوامِ عالم کو اِس حقیقت سے آگاہ کیوں کرتے کہ ”بھارت میں رہنے والے ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں اور دونوں قوموں کا مذہب اور کلچر ایک دوسرے سے مختلف ہے۔“ یہی وجہ ہے کہ ہندو جماعت کانگریس اور اُن کے ہمنوا عُلماءکو (جنہیں کانگریسی مولوی کہا جاتا تھا) اُس وقت بہت شرمندگی ہُوئی تھی جب 1945ئ۔ 1946ءکے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانانِ ہند کی نمائندہ سیاسی جماعت بن کر اُبھری۔ پاکستان اور بھارت کو کلچر میں ہم آہنگی کے مفروضے کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کو ”بھائی بھائی“ بنانے کا خیال رکھنے والے 1947میں تحریکِ پاکستان کے دَوران یہ حقیقت کیوں بھول جاتے ہیںکہ بھارت میں ہندو مہا سبھا، راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (جن کی کوکھ سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے جنم لِیا) نے سِکھوںکے ساتھ مِل کر 13 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔ اکیلے مشرقی پنجاب میں 10 لاکھ مسلمانوں کو قتل اور 55 ہزار مسلمان عورتوں کو اغواءکر کے اُن کی عصمتیں لُوٹی گئی تھیں۔ دراصل مسئلہ غیرت کا ہے۔
”امن کی آشا دیوی“ کے پُجاری اِس سے پہلے سوویت یونین کے حاشیہ بردار کی حیثیت سے بھارت نواز تھے اور اُن میں سے ہر ایک اپنی اپنی این جی او ہے اور وہ امریکہ کے تابعدار ہیں۔ یہ لوگ جنابِ آصف علی زرداری کے دَور میں ایوانِ صدر میں اپنی اپنی ڈفلی بجاتے تھے اور اب وزیرِاعظم ہاﺅس میں تحریکِ پاکستان کے مجاہد ڈاکٹر مجید نظامی۔ ہر حکمران کو یاد دلاتے رہے ہیں کہ ”قائدِ اعظم“ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور اُسے بھارت کے قبضے سے چھُڑانا بے حد ضروری ہے لیکن ہر حکمران کے ذاتی اور پارٹی مفادات ہوتے ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ءکی جنگ کے دوران وزیرِ خارجہ پاکستان کی حیثیت سے کہا تھا کہ ”ہم مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے بھارت سے ایک ہزار سال تک لڑیں گے۔“ لیکن جنابِ بھٹو اُن کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو نے کچھ نہیں کِیا اور جنابِ زرداری نے تو اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا بیان یہ جاری کیا تھا کہ ”کیوں نہ مسئلہ کشمیر 30 سال کے لئے منجمدکر دِیا جائے۔ لیکن موصوف کو 5 سال تک مسئلہ کشمیر منجمد کرنے کا موقع مِل سکا۔
قائدِاعظمؒ کی وراثت مسلم لیگ کی قیادت نے اعلان کئے بغیر مسئلہ کشمیر کو منجمد کر دیا ہے۔ جِس پر پاک فوج کے ساتھ ساتھ پاکستان کے عوام بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان کے دریاﺅں پر بھارت کا قبضہ ہے (جو مقبوضہ کشمیر سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں)۔ ہمارا دشمن (جسے ہمارا بھائی بنانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے)۔ ہمارے دریاﺅں پر غیر قانونی ڈیم بنا بنا کر پاکستان کو ریگستان بنانا چاہتا ہے۔ اِس کے باوجود پاکستان کو لُوٹنے والے اور لُوٹی ہُوئی دولت غیر ملکی بنکوں میں جمع کرانے والے صنعتکار اور تاجر اور اُن کی شراکت دار بیورو کریسی کے بعض پردھان، بھارت سے تجارت کرنے کے لئے فلمی اداکاروں اور اداکاراﺅں کے تبادلے سے بھارت کو بھائی بنانے کی کوشش کریں یا چچا بنا لیں۔ پاکستان کے محبِ وطن لوگ مزاحمت کریں گے اور پاک فوج بھی۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں یہ کہہ کر ”امن کی آشا دیوی“ دی گُت پُٹ دِتّی اے“ جب کہا کہ دونوں بھائیوں (پاکستان اور بھارت) میں دوستی دُور دُور تک دکھائی نہیں دیتی۔“