چوہدری فرحان شوکت
صوبہ خیبر پی کے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک لاہور کے دورے پر آئے تو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر انجینئرز قائل کر لیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے نوشہرہ نہیں ڈوبے گا تو میں نہ صرف کالا باغ ڈیم کی حمایت کروں گا بلکہ اس ڈیم کی مخالفین کو بھی راضی کروں گا ۔ ان کی جانب سے یہ بہت ہی خوش کن جذبات کااظہار تھا۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے رہنما میاں محمود رشید نے بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے حوصلہ افزا امر کا اظہار کیا ہے۔ اب تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی جماعت کی کور کمیٹی کا اجلاس بلائیں اور اگر ضرورت محسوس کریں تو اس کمیٹی میں پاکستان انجینئرنگ کونسل سابق چیئرمین واپڈا انجیئنر شمس الملک آبی ماہرین کو بھی مدعو کریں اور ان سے تفصیلی بریفنگ لیں اور صوبہ خیبر پی کے جہاں ان کی حکومت ہے اور اس ڈیم کی مخالفت بھی اسی صوبے سے شروع ہوئی تھی پھر یہ سندھ کے قوم پرستوں تک پہنچی پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ کسی بھی قومی منصوبے پر صوبوں کا اعتراض اور وہاں کی سیاسی و دینی جماعتوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوںکو اس کے نقصانات کے اندیشے کے پیش نظر اعتراض ہو سکتا ہے لیکن اس کا یہ کوئی حل نہیں کہ صرف زبانی احتجاج ، اعتراض اور مخالفت کی جائے کسی آئینی، قانونی فورم پر اس پر بیٹھا نہ جائے۔ آج تک کالا باغ ڈیم کے مخالفین کسی آئینی، قانونی فورم پر جمع نہیں ہوئے اپنے اعتراضات انہوں نے ان اداروں کے سامنے نہیں رکھے۔ لاہور ہائیکورٹ کالا باغ ڈیم کو تعمیر کا باقاعدہ فیصلہ سُنا چکی ہے، پشاور ہائیکورٹ نے بھی کالا باغ ڈیم کے حوالے سے سماعت منظور کر لی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی یہ معاملہ موجود ہے۔ سندھ طاس واٹر کونسل کے چئیرمین سلیمان خان بہت متحرک اور قومی جذبوں سے سرشار ہو کر ملک و قوم کی خوشحالی زراعت کی ترقی اور آنے والی نسلوں کی بقا کے لیے دن رات کوشوں میں مصروف ہیں۔
لاہور چیمبر آف کامرس نے بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے اپنے ممبران کو متحرک کر دیا ہے اسی تناظر میں لاہور چیمبر آف کامرس کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے کالا باغ ڈیم کے چئیرمین عبد الواسط نے کمیٹی کے اراکین کا اجلاس بلاکر چاروں صوبوں کے چیمبرز کے نمائندوں سے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ملاقاتوں کی حکمت عملی طے کی ہے اسی کمیٹی کے ارکان اپنے صوبہ خیبر پی کے کے دورے کے دوران سابق چئیرمین واپڈا شمس الملک سے ملاقات کریں گے جبکہ یہ کمیٹی صوبہ سندھ کا بھی دورہ کرے گی۔ مردان چیمبر آف کامرس کے عہدیداران نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ وہ کالا باغ ڈیم کے حق میں ہیں بھاشا، داسو، کالا باغ ڈیم تعمیر ہوں گے تو پاکستان کا قرضہ چند سالوں میں ہی ادا ہو جائے گا وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور چیلنجز بڑھتے چلے جا رہے ہیں سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک اور پاکستان انجینئرنگ کونسل آبی ماہرین کو چاہیے کہ وہ صوبہ خیبر کے کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے ملاقات کریں اور اس ملاقات میں عمران خان کو بھی مدعو کریں اور وہاں پر امور پر بریفنگ دیں تاکہ اس ڈیم کی افادیت کا انہیں معلوم ہو سکے اور خدشات زائل ہو سکیں۔ لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو ان کی سیاست تحریک کا مرکز و محور کالا باغ ڈیم کی تعمیر شروع کرنے کے وعدوں پر ہوتا ہے لیکن جب اقتدار میں آتی ہیں تو اس ڈیم کی تعمیر کو بھول جاتی ہیں ۔سانس کی طرح زندگی کی بقا پانی پر منحصر ہے، تھر اور چولستان میں اس کی قدر قوم نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لی ہے۔ مون سون سیزن میں بے شمار بارشوں سے اتنا پانی دستیاب ہوتا ہے کہ اگر ڈیمز تعمیر ہوں تو یہ پانی وہاں ذخیرہ ہو جائے نہ سیلاب آئیں اور کھیتوں کو سارا سال پانی دستیاب ہو سکے عالمی سطح پر ہر ملک کو کم از کم 180 دن کا پانی ذخیرہ کرنے کا انتظام ہونا چاہیے لیکن پاکستان کے پاس صرف 30 دن پانی سٹاک کرنے کی گنجائش ہے۔ چیئرمین واپڈا ظفر محمود نے واضح کیا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ابھی تک فنڈز کا بندوبست نہیں ہو سکا، ایشیائی ترقیاتی بنک نے وعدہ کر کے اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ بیرونی فنڈنگ نہ ملی تو اپنے وسائل سے اس ڈیم کی تعمیر کریں گے جس لاگت اب بڑھ کر 13.87 ارب ڈالر ہو گی ہے قومی خزانے سے ڈیم کے لیے تیاری کے لیے اب تک 28 ارب روپے خرچ کئے جا چکے ہیں مگر اب خریداری کا عمل رک گیا ہے کیونکہ متاثرین نے پرانی قیمت پر اپنی زمینیں فروخت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ڈیم اور سٹاف کی حفاظت کے لیے گلگت بلتستان سکاؤٹس کی تعیناتی ہوگی ۔جس کے لیے واپڈا اور وزارت داخلہ میں ایم او یو پر دستخط ہو گئے ہیں۔ وہ منگل کو پارلیمنٹ ہائوس میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر گلگت بلتستان کو بریفنگ دے رہے تھے۔ جس کا اجلاس چیئرمین ملک ابرار کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر اور سیکرٹری کی عدم شرکت کا اراکین نے سخت نوٹس لیتے ہوئے احتجاج کیا جس پر چیئرمین نے یقین دلایا کہ ان سے غیر حاضری پر باز پُرس کی جائے گی چیئرمین واپڈا اور متعلقہ حکام نے اجلاس کو بھاشا ڈیم کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ اس منصوبے سے 4500 میگا واٹ پیدا ہوگی جبکہ اس پر 1387 ارب ڈالر لاگت آئے گی کام شروع ہونے کے بعد یہ منصوبہ نو سال میں مکمل ہو گا ۔یہ ڈیم بننے سے تربیلا ڈیم کی عمر میں 35 سال کا اضافہ ہو جائے گا ڈیم تعمیر ہونے سے بتیس دیہات 4228 گھر 30350 افراد اور مجموعی طور پر 3419 ایکڑ اراضی متاثر ہو گی۔ سو کلو میٹر شاہراہ قراقرم اس منصوبے کی زد میں آئے گی جس کی جگہ ایک سو بیالیس کلو میٹر متبادل شاہرہ بنائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈیم کی سکیورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے مقامی افراد بھی مداخلت کرتے ہیں اس لیے اب وہاں جی بی سکاؤٹس تعینات کیے جائیں گے۔ چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ داسو ڈیم کے لیے عالمی بنک فنڈز دے گا جبکہ بونجی ڈیم رن آف ریور پر بنے گا اور سولہ ٹربائنز لگا کر بجلی حاصل کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پانی سے بجلی پیدا کر نے پرایک تہائی لا گت آتی ہے۔ جبکہ آج مہنگی بجلی کی وجہ سے عوام کو فی یونٹ ڈیڑھ روپے کی بجائے بارہ روپے ادا کرنا پڑے رہے ہیں ۔