لاہور (خصوصی نامہ نگار+ آئی این پی) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کراچی کو دہشتگردی سے پاک کرنے والے رینجرز، افواج پاکستان کے سپہ سالار اور سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں سے کہتا ہوں لاہور میں بھی 14 نعشیں پڑی ہیں جو انصاف کی منتظر ہیں، جس طرح کراچی میں دہشتگردوں کا صفایا کیا جا رہا ہے اس طرح پنجاب میں بھی کیا جائے، سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے قتل عام کا منصوبہ اسلام آباد میں بنا۔ نواز شریف اور شہباز شریف اس کے منصوبہ ساز ہیں، تختہ دار تک پہنچائے بغیر ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے، قاتلوں کی بنائی جے آئی ٹی کی رپورٹ کو قوم نے بھی مسترد کر دیا، ہماری جے آئی ٹی عوام اور میڈیا ہیں جنہوں نے 12 گھنٹے تک براہ راست قتل عام دیکھا۔ حکمرانوں کے اثرو رسوخ سے پاک جے آئی ٹی میں ضرور شریک ہونگے، نوازشریف، شہباز شریف شہدا کے ورثا کو خریدنا چاہتے ہو، مگر تم قارون کے خزانے بھی لے آﺅ تو پھر بھی ڈیل نہیں ہو گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لندن سے لاہور پہنچنے پر اپنی رہائش گاہ پر پُرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ قبل ازیں لندن سے لاہور پہنچنے پر کارکنوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ان کا استقبال کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری گاڑیوں، موٹر سائیکلوں کے قافلے میں 4 گھنٹے میں ایئرپورٹ سے اپنی رہائش گاہ پہنچے، یوتھ ونگ کے سینکڑوں کارکن حفاظتی دستے کے طور پر ان کی گاڑی کے ساتھ دوڑتے رہے۔ تمام راستہ خیر مقدمی بینروں سے سجایا گیا۔ کارکن پارٹی ترانوں پر رقص کر کے اپنے قائد کی آمد پر خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ آمد سے قبل اور ڈاکٹر طاہر القادری کی روانگی تک ایئرپورٹ گو نواز گو کے نعروں سے گونجتا رہا۔ ویمن لیگ کی خواتین کارکنوں نے بڑی تعداد میں طاہر القادری کا استقبال کیا اور رہائش گاہ پہنچنے پر سینکڑوں بچیوں نے پھول کی پتیاں نچھاور کر کے ان کا استقبال کیا اور ویلکم ویلکم کا ترانہ گا کر ان کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے پریس کانفرنس میں مزید کہا یہ تو ثابت ہو چکا قتل عام پولیس نے کیا تاہم جے آئی ٹی نے صرف اس بات کا تعین کرنا ہے قتل عام کا حکم کس نے دیا؟ عمران خان سے ملاقات کا کوئی شیڈول نہیں تاہم ان سے ملاقات میں حرج کیا ہے۔ چودھری برادران سے کوئی اختلاف نہیں۔ معاہدے کرنے والوں کے ضمیر مردہ اور زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں ہم تو ظالم اور سفاک حکمرانوں کو للکار رہے ہیں انہیں بے نقاب کررہے ہیں۔ کسی کے پاس ڈیل کے ثبوت ہیں تو سامنے لائے۔ بے ضمیر حکمرانوں میں اتنی جرا¿ت نہیں کہ ہمارا سامنا کر سکیں۔ انہوں نے کہا کراچی میں 15سو افراد موت کے منہ میں چلے گئے صوبائی حکومت کہتی ہے وفاقی حکومت ذمہ دار ہے، وفاقی حکومت کہتی ہے صوبائی حکومت ذمہ دار ہے حالانکہ یہ دونوں حکومتیں ان اموات کی ذمہ دار ہیں کراچی کے عوام پانی اور بجلی نہ ملنے کے باعث مررہے ہیں۔ ایسے نااہل حکمرانوں کو اب تک استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا ملک میں جمہوریت نہیں۔ چند لٹیرے ملک کو لوٹ رہے ہیں اور انہوں نے 19 کروڑ عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ ان ظالموں سے اس دن جان چھوٹے گی جب قوم باہر نکلے گی ۔ انہوں نے کہا عوام کے حقوق کی محافظ پارلیمنٹ سینٹ ناکام ہو چکی ہے۔ دھرنے کے دوران کئی کئی دن تک پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس منعقد کر کے ہمیں خانہ بدوش کہا گیا۔ آج اسی پارلیمنٹ اور سینٹ نے ملکر 15سو اموات پر اجلاس بلا کر اس پر غور کیوں نہیں کیا؟ ہمارے غریب کارکنوں نے حکمرانوں کی کروڑوں کی پیشکش ٹھکرا کر ثابت کر دیا وہ غریب ضرور ہیں مگر بے ضمیر نہیں۔ مجھے اپنے ان کارکنوں پر فخر ہے۔ انہوں نے شدید گرمی اور روزے کی حالت میں استقبال کیلئے آنے والے کارکنوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کارکنوں کے جوش و خروش نے میری سفری تھکن اتار دی۔ انہوں نے کہا سانحہ ماڈل ٹاﺅن میں بہنے والے خون کا حساب ہو کر رہے گا۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ قتل کرنے والے ہی تفتیش کریں مگر بدقسمتی سے یہاںقاتل خود منصف بن جاتے ہیں اور غریب شہریوں کو انصاف سے محروم کر دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا نواز شریف، شہباز شریف سن لو تم ہمارے بے گناہ کارکنوں کے قاتل ہو تمہیں تختہ دار تک پہنچا کر دم لینگے۔شہباز شریف نے خود جوڈیشل کمیشن بنایا اور پھر جب رپورٹ حق میں نہ آئی تو اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ کمشن کو غیر قانونی قرار دلوانے کی کوششیں شروع کر دیں۔ پولیس حکمرانوں کی خواہش پر قتل عام کرتی ہے ، اس لئے حکمران پولیس کے جرائم اور پولیس حکمرانوں کے جرائم پر پردہ ڈالتی ہے۔ جس ملک میں ریاست قتل و غارت گری کرائے وہاں غریب کو انصاف نہیں مل سکتا۔ کراچی کو دہشتگردوں سے پاک کرنے والے بتائیں پنجاب میں آپریشن کب شروع ہو گا؟یہاں بھی بے گناہوں خون بہہ رہا ہے اور ظلم اپنی انتہاﺅں کو چھورہا ہے۔ انہوں نے کہا پولیس کو قتل عام کا لائسنس ملا ہوا ہے۔ ملکی ادارے حکومتی مظالم پر خاموش ہیں پتہ نہیں ان کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟ اس وقت ملک میں انصاف ملتا نہیں بلکہ بکتا ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاﺅن کی قتل و غارت گری میں ملوث پولیس کو سزا مل جاتی تو سانحہ ڈسکہ نہ ہوتا جہاں دو وکلاءکو سینے میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا، راولپنڈی میں خون نہ بہتا۔ انہوں نے کہا میں ڈر رہا ہوں کرپٹ اور لٹیرے حکمران عوام کو اس نہج پر نہ لے جائیں جہاں وہ پاکستان کے جائز ہونے یا نہ ہونے کی بحث کرنے لگیں، جب غریب سے انصاف، روزگار، تعلیم ،صحت سمیت بنیادی سہولتیں چھین لی جاتی ہیں تو وہاں مایوسی اور ردعمل جنم لیتا ہے۔