چور سپاہی کا کھیل بند ہو جانا چاہیے!

کیا پاکستان پیپلز پارٹی یہ بات بھلاچکی ہے کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں کس شخص پر کرپشن کے الزامات لگنے شروع ہوئے اور کسے مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب دیا گیا؟کیاوہ تلخ واقعہ بھی بھلادیا گیا ہے جب 1990ءمیں ایک برطانوی تاجر مرتضیٰ بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر اُس سے 8 لاکھ ڈالر اینٹھنے کی سازش کی گئی اور بھلا اس سازش کے الزام میں بعد میں کسے حراست میں لیا گیا تھا؟
کیا پیپلز پارٹی نے یکسر فراموش کردیاکہ 5 نومبر 1996ءکو بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کی برطرفی کے بعد مرتضی بھٹو قتل کیس میں کس کا نام آیا تھا؟ کیا وفاق کی پارٹی کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ اسٹیل ملز کے سابق چیئرمین سجاد حسین اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک جج جسٹس نظام احمد کے قتل اور منشیات کی سمگلنگ میں ملوث ہونے، سوئس کمپنی ایس جی ایس کوٹیکنا، دوبئی کی اے آر وائی گولڈ کمپنی سے سونے کی درآمد، ہیلی کاپٹروں کی خریداری، پولش ٹریکٹروں کی خریداری اور فرانسیسی میراج طیاروں کی ڈیل میں کمیشن لینے کے اسکینڈلز میں کس کا نام آیا؟ کیا پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں کو یاد نہیں رہا کہ برطانیہ میں راک وڈ اسٹیٹ خریدنے، سوئس بینکوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کرنے اوراسپین میں آئیل فار فوڈ اسکینڈل سمیت متعدد مقدمات کس شخص پر بنائے گئے؟
کیا یہ بھی بھلا دیا گیا کہ حیدرآباد، نواب شاہ اور کراچی میں ہزاروں ایکڑ قیمتی زرعی اور کمرشل اراضی کی خریدی اور6 شوگر ملوں میں حصص لینے کی فہرستوں میں کس کا نام سامنے آیا تھا؟ کیا یہ بھی یاد رکھنے کی بات نہیں رہی کہ برطانیہ اور امریکہ میں نو نو، بیلجیم اور فرانس میں دو دو جبکہ دوبئی میں متعدد پراجیکٹس میں جو مختلف ناموں سے سرمایہ کاری کی گئی، اُس کے پیچھے غیرملکی میڈیا نے دراصل حقیقی نام کون سا کارفرما بتایا تھا؟ کیا یہ بات بھی طاق نسیاں پر رکھی دی گئی کہ عجب کرپشن کی غضب کہانی میں اکٹھی کی گئی پراسرار دولت کو چھپانے کیلئے سمندر پار جو 24 فرنٹ (آف شور) کمپنیاں تشکیل دی گئیں وہ کمپنیاں حقیقت میں کس کی ملکیت تھیں؟ جی ہاں اِن تمام اسکینڈلز، مقدمات اور الزامات کی زد میں کسی نتھو پھتو کا نام نہیں آیا تھا بلکہ فخر ایشیا اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے داماد اور محترمہ بینظیر بھٹو کے شوہر نامدار آصف علی زرداری کو یہ شرف حاصل ہوا تھا کہ کرپشن کے سارے راستے اُس دور میںپاکستانی ”نیلسن منڈیلا“ کے گھر کی طرف جاتے تھے۔مجموعی طور پر آصف علی زرداری پر بینظیر بھٹو کی حکومت کے زمانے میں ڈیڑھ بلین ڈالر کے ناجائز اثاثے حاصل کرنے کے الزامات لگے اورحد تو یہ ہے کہ بیرسٹر اعتزاز احسن تک اُس دور میں آصف علی زرداری کی صفائی دینے میں تذبذب کا شکار رہے۔
1990ءسے 2004ءتک کے 14 برس آصف علی زرداری کی زندگی کے سب سے ہنگامہ خیز سال ثابت ہوئے ۔ اِس دوران آصف زرداری نے تقریباًً دس سال جیل میں بھی گزارے اور دورانِ قید انہوں نے جسمانی تشدد بھی برداشت کیا۔ غلام اسحاق خان نے بے نظیر اور آصف زرداری پر کرپشن کے 19ریفرنسز فائل کیے، اندرون و بیرونِ ملک اِن الزامات، ریفرنسز اور مقدمات کو آگے بڑھانے کے لیے ایک خطیر رقم خرچ کی، لیکن پیپلز پارٹی اور بالخصوص آصف علی زرداری کے حق میں حالات اس وقت بدلنا شروع ہوئے جب پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے مابین امریکہ، برطانیہ اور بعض بااثر دوستوں کی کوششوں سے مصالحت کا آغاز ہوا، جس کے بعد آصف زرداری کے خلاف عدالتی تعاقب سست پڑنے لگا۔ کوئی ایک مقدمہ بھی یا تو ثابت نہ ہوسکا یا واپس لے لیا گیا یا پھر حکومت ہی مزید پیروی سے دستبردار ہوگئی۔ اس سلسلے میں اکتوبر 2007ءمیں متعارف کرائے گئے متنازع قومی مصالحتی آرڈیننس نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
27دسمبر 2007ءکو بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری تو آغاز میں اندازہ یہ تھا کہ آصف زرداری کی توجہ صرف پارٹی قیادت پر مرکوز رہے گی اور وہ ”مسٹر سونیا گاندھی“ بن کے رہیں گے لیکن پھر وہ ہوا جو اپنی زندگی میں بینظیر بھٹو کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعداگست 2008ءمیں الطاف حسین نے آصف زرداری کا نام صدر پاکستان کے عہدہ کے لیے تجویز کیا، جس کے بعد پیپلز پارٹی نے با ضابطہ طور پر آصف زرداری کو 6 ستمبر 2008ءکے صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کر دیا۔ عموماً صدر نامزد ہونے والے سیاسی جماعت سے مستعفی ہو جاتے ہیں مگر زرداری نے ایسا نہیں کیا بلکہ پیپلز پارٹی کے فعال سربراہ کے طور پر پانچ سال تک ایوان صدر کو سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی بنائے رکھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی کے 5 سالوں میں بھی آصف علی زرداری پر کرپشن، بدعنوانی اور لوٹ مار کے پہلے والے الزامات میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اسی سال کے آغاز کی بات ہے کہ پانامہ لیکس کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھااور ملک میں صرف آصف زرداری ہی ایسی شخصیت تھے جنہیں کرپشن کی علامت سمجھا جاتا تھااور اگر وہ بیماری کا بہانہ بناکر ملک سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوچکے ہوتے تو دودھ پینے والے بلے کو للکارنے پر شاید دوبارہ جیل کی ہوا کھارہے ہوتے، یہی وجہ ہے کہ ملک سے باہر چلے جانے کے باوجود آصف علی زرداری کا ہانکا جاری رہا، شاید اِسی لیے سابق صدر کی جانب سے تلخ و شیریں بیانات کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ دبئی سے جاری ہونے والے اِسی طرح کے بیان میںابھی جنوری میں آصف علی زرداری نے کہا تھا کہ:
”من پسند احتساب، مقدس گائے کا نظریہ، اور دہرا معیار بھی بدترین قسم کی کرپشن ہے اور سیاسی جوڑ توڑ کے لئے کرپشن کا نام استعمال کرنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے“۔
لیکن پھر پانامہ لیکس نے گویا سارا منظرنامہ ہی بدل دیا کہ چور چور کے شور میں یہ تمیز کرنا مشکل ہوگیاکہ چور کون ہے اور چور کو پکڑنے والا کون ہے؟
پاکستان تحریک انصاف کو تو خیر ایک طرف رہنے دیں کہ نو آموز سیاستدانوں کی نوخیز سیاسی جماعت کو سیاست کی ابجد سیکھنے میں ابھی خاصہ وقت لگے گا، لیکن یہ پیپلز پارٹی کو کیا ہوا کہ اُس نے بھی دوبارہ محاذ آرائی کی سیاست شروع کردی؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک میں شفاف نظام اور سب کے یکساں احتساب کیلئے ایک غیرجانبدار احتساب کمیشن کی ضرورت ہے، پیپلز پارٹی نے بھی تحریک انصاف کی تقلید کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف سمیت شریف خاندان کے پانچ افراد کی نااہلی کیلئے ایک ہزار سے زائد صفحات پر مبنی درخواست(ریفرنس) الیکشن کمیشن میں دائر کردیا۔ کیا پیپلز پارٹی کے آئینی و قانونی امور کے ماہرین نہیں جانتے کہ اِس طرح کی درخواستیں ماضی میں نہ خود اُن کے اپنے خلاف کوئی حجت بن سکیں اور نہ ہی اُن کے مخالفین کا بال بھی بیکا کرسکیں، تو پھرمستقبل میں اس طرح کی مشقِ خطا کا مقصد کیا ہوا؟ کیا نئے ہزاریے میں اِس طرح کا کھیل وقت کا ضیاع نہیں؟
قارئین کرام!!پاکستان تحریک انصاف کی دیکھا دیکھی پیپلز پارٹی جیسی تجربہ کار سیاسی جماعت بھی محاذ آرائی کی سیاست کی جس ڈگر پر چل پڑی ہے، کیا اُس سے عوام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟کیا بیرسٹر اعتزاز احسن اور ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ جیسے آئین و قانون کے ماہرین کو بھی اُن کے اپنے قائد آصف علی زرداری کا یہ قول سنانا پڑے گا ”من پسند احتساب، مقدس گائے کا نظریہ، اور دہرا معیار بھی بدترین قسم کی کرپشن ہے اور سیاسی جوڑ توڑ کے لئے کرپشن کا نام استعمال کرنا بھی کرپشن کے زمرے میں آتا ہے“۔
جھوٹے الزامات اور بے سروپا مقدمات اور ریفرنس کی بجائے کیا بہتر نہ ہوتا کہ پیپلز پارٹی ملک میں بامقصد اور بامعنی احتساب کیلئے کوئی ادارہ تشکیل دینے پرتوجہ مرکوز کرتی اور حکومت کے ساتھ مل کر آنے والی نسلوں کو ایک بہتر پاکستان دینے کا کام کرتی؟اس ملک، قوم اور اداروں کے ساتھ بہت مذاق ہوچکا، اب یہ مذاق بند ہوجانا چاہیے۔ اپنی عدالتیں لگاکر لوگوں کو مجرم قرار دینے کا سلسلہ رُک جانا چاہیے۔ سیاست میں در آنے والا بچوں والا چور سپاہی کا کھیل بند ہوجانا چاہیے!

نازیہ مصطفٰی

ای پیپر دی نیشن