مفتی عبدالقوی کو ماروی سرمد سے ملوایا جائے اسے اپنی نانی یاد آ جائے گی۔ ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ انہوں نے برملا یہ ثابت کر دیا کہ مولوی اور مفتی بھی رومانٹک ہوتے ہیں، رومانس زندگی ہے اور مفتی صاحب زندگی سے بھرپور آدمی ہیں۔ مولوی اور مفتی بھی انسان ہوتے ہیں۔ مفتی اور مولوی کی بھی خواہشیں ہوتی ہیں اور خواہشیں کبھی کبھی بے قابو بھی ہوجاتی ہیں۔
ایک دفعہ بازار حسن میں آگ لگ گئی۔ آگ بجھانے والے عملے نے فوراً بجھا دی۔ پوچھا گیا تو جواب ملا آگ پر تو قابو پا لیا گیا ہے، آگ بجھانے والا عملہ بے قابو ہو گیا ہے۔ اب اس سے تو نجات ملے گی کہ گنہگار کافر نہیں ہوتا۔ فتوے اتنی آسانی سے اور فراوانی سے اب نہیں لگیں گے۔ اسمبلی کے ایک مولوی رکن نے بے چاری قندیل بلوچ کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس مطالبے کی سب سے پہلے مخالفت مفتی عبدالقوی نے کی ہے۔ ہم قندیل کے بھی شکر گزار ہیں کہ اس نے روشنی پھیلا دی ہے کہ مولوی اور مفتی کے سینے میں بھی دل ہوتا ہے۔ دل آخر دل ہے وہ کسی کے سینے میں بھی ہو۔ قندیل نے بظاہر مفتی صاحبان اور مولوی صاحبان کو ایکسپوز کیا ہے۔ مگر یہ ایک نیکی ہے کہ وہ بے گناہ لوگوں پر فتوے نہ لگائیں۔ مفتی عبدالقوی کئی مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں کے آئیڈیل بن چکے ہیں۔ وہ رومانٹک آدمی ہیں پریس کلب کے صدر برادرم شہباز میاں کے بھی شکر گزار ہیں کہ انہوں نے قندیل کو اظہار خیال کا موقعہ دیا۔
مفتی صاحب کہتے ہیں کہ میں خوبصورت عورتوں کی تلاش میں رہتا ہوں۔ اب تو انہیں قندیل مل گئی ہے وہ اس کی روشنی میں چلا کریں۔ مگر وہ تو ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ یہ قندیل بجھ جائے۔ اس نے لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کی ہے اور کہا ہے کہ میری جان کو خطرہ ہے۔ مفتی صاحب اسے کبھی ”میری جان“ سمجھتے تھے اب اس کی جان کے دشمن بن گئے ہیں۔ کیوں؟
وزیر اعلیٰ سندھ وڈے سائیں شاہ کہتے ہیں کہ امجد صابری کے قتل میں بھی زر، زمین اور زن شامل ہیں۔ یہ بات انہوں نے اسمبلی میں تین گھنٹے کی تقریر میں کہی ہے، وہ بڑھاپے میں بھی اچھل اچھل کر اور اُبل اُبل کر بات کرتے ہیں ان کی تقریر کو خواتین بہت انجوائے کرتی ہیں۔
وزیر داخلہ چودھری نثار بھی کراچی پہنچ گئے تھے تو ضرور کچھ دال میں کالا ہے۔ چودھری نثار سے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بیک وقت ناراض ہیں۔ جبکہ وہ ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔ مولا بخش چانڈیو کو صرف چودھری نثار کا نام یاد ہے۔ باقی سب کچھ وہ بھول چکے ہیں۔ فاروق ستار بھی چودھری صاحب کو اکثر یاد کرتے رہتے ہیں؟ چودھری صاحب خبروں میں رہنا چاہتے ہیں۔
چودھری نثار بھی ان دونوں پارٹیوں کےلئے نرم گوشہ دل میں نہیں رکھتے۔ بلکہ اکثر گرم گوشہ دل میں رکھتے ہیں۔ نبیل گبول نے تو بغیر کسی لگی لپٹی کے کہہ دیا کہ امجد صابری کو ایم کیو ایم نے مروایا ہے۔ اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ امجد صابری سے بھتہ مانگا گیا۔ وڈے سائیں نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے۔ انہیں پتہ ہے تو پھر کارروائی کیوں نہیں کرتے۔ سندھ حکومت کا کام صرف انفارمیشن دینا ہے۔ کبھی کبھی ڈس انفارمیشن سے کام چلایا جاتا ہے۔ اکثر سیاسی لوگوں کو مس انفارمیشن بہت پسند ہے۔ پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے تو بتایا گیا کہ مس انفارمیشن میں مس آتی ہے۔ مجھے ایک خاتون نے بڑے نسوانی یعنی ”رومانٹک“ انداز میں کہا کہ میں آپ کو مس کرتی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو مسز کرتا ہوں۔ وہ پریشان ہوئی پھر حیران ہوئی۔ جبکہ حیران پہلے ہوا جاتا ہے اور پریشان بعد میں ہوا جاتا ہے۔ میں نے وضاحت کی کہ یہ مسز مس کی جمع ہے؟
آجکل امجد صابری کے گھر میں بہت ہلچل ہے چھوٹے بڑے سیاستدان ان کے گھر میں تعزیت کیلئے آ جا رہے ہیں۔ بچوں کو پیار کرتے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کچھ روپے نہیں رکھتے۔ اتنا بڑا گھر کا سائبان اکھاڑ کر پھینک دیا گیا اور سیاستدان صرف سیاست کر رہے ہیں۔ کیا سیاستدانوں اور حکمرانوں کی صرف یہی ذمہ داری رہ گئی ہے۔ یہ انداز سیاست ظالمانہ اور رسمی ہے۔ کیا اسے سیاسی بھتہ خوری کہا جا سکتا ہے۔
وڈے سائیں قائم علی شاہ خوشیاں منائیں کہ کراچی میں زور دار بارش ہو گئی ہے اور لوگ امجد صابری کو بھول گئے ہیں۔ ہر کسی کو اپنی پڑ گئی ہے شہر کا شہر پانی میں تیر رہا ہے یہ حکمرانوں سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کےلئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ مگر سائیں کسی خشک جگہ پر سیاسی ڈبکیاں لگانے میں مصروف ہیں۔ وہ گندے پانی میں یعنی بارش کے پانی میں بھی ڈبکیاں لگا کے دکھا دیں گے۔ وہ اس بڑھاپے میں اسمبلی کے اندر تین گھنٹے کا خطاب کر سکتے ہیں، نہ تھکے نہ پانی پیا۔ ان کا روزہ نہیں تھا۔ بس بولتے گئے۔ کبھی کبھی خواتین کے بنچوں کی طرف دیکھ لیتے تھے۔ تازہ دم ہو کر پھر شروع ہوجاتے تھے۔
وڈے سائیں کو مبارک ہو کہ پنجاب میں بھی بھتہ خوری شروع ہو گئی ہے۔ اس کی ابتداءشیخوپورہ سے ہوئی۔ ڈی پی او شیخوپورہ اور ڈی سی او شیخوپورہ کو مبارک ہو۔ شاید ابھی تک وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پتہ نہیں چلا۔ ایک معاصر روزنامہ میں نمایاں طور پر خبر شائع ہوئی ہے۔ شیخوپورہ میں بھتہ نہ دینے والوں کے گھروں پر فائرنگ کی گئی۔ شیخوپورہ پولیس تحفظ دینے میں ناکام رہ گئی۔ تفصیل یہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق بندیشہکو باقاعدہ 20 لاکھ روپے بھتہ کے لئے پرچی موصول ہوئی۔ نامعلوم افراد فون پر بھی رقم کا تقاضہ کرتے رہے۔ اس کے بعد پولیس نے حسب معمول سنی اَن سنی کردی،کوئی کارروائی نہیںکی۔ 20 لاکھ روپے میں ان کا حصہ بھی ہوگا؟ رشوت اور کرپشن میں یہ لوگ بہت ”دیانت دار“ ہوتے ہیں؟ رات ایک بجے ڈاکٹر صاحب کے گھر فائرنگ ہوگئی۔ دکھاوے کے طور پر ڈی پی او نے متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کردیا۔ معطلی بہت بڑی جزا ہے۔ ایس ایچ او کو بحالی کے بعد اچھی پوسٹنگ مل جائے گی۔ ڈی پی او کو اطلاع کردی گئی۔ سرفراز خان ورک بھاری نفری کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ ان کی موجودگی میں بھتہ خوروں کا فون آگیا، کیا زبردست ٹائمنگ ہے؟ ڈی پی او نے بنفس نفیس بھتہ خوروں کی باتیں غور سے سنیں مگر سنی اَن سنی کردیں۔ اس ڈیل کے بارے میں ورک صاحب ہی بتا سکیں گے۔
رات کو بھتہ خوروں نے ڈاکٹر صاحب کے گھر پر فائرنگ کردی۔ یہ بات پولیس کے ساتھ ڈیل کے بغیر نہیں ہوسکتی، دکھاوے کے لئے ایس ایچ او بشارت گجر کو معطل کردیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بھتہ خوروں نے ڈاکٹر فاروق کو خوشخبری سنائی کہ ہم ایک اور ڈاکٹر سے بھی 15 لاکھ روپے وصول کرچکے ہیں۔ اس میں پولیس کا حصہ کتنا تھا؟ ڈاکٹروں سے گزارش ہے کہ وہ غریب لوگوں کو لوٹنا بند کریں تو ان کے بے تحاشا سرمائے کے لئے لوٹ مار نہیں ہوگی۔ اس کے لئے بھی ڈی پی او سرفراز ورک اور ایس ایچ او بشارت گجر اور ڈاکٹر بندیشہ سے تفتیش کی جائے۔
برادرم تنویر ظہور نے مجھے بشیر بے تاب کی خوبصورت کتاب ”میری کہکشاں“ دی ہے۔ بشیر بے تاب جینوئن اور سچے پینڈو آدمی ہیں۔ میں بھی پینڈو ہوں مگر بشیر بے تاب ہم سے بہت آگے ہیں۔ وہ رحیم یار خان کے علاقے صادق آباد میں رہتے ہیں۔ اپنی زمینوں (گوٹھ عالوکوٹ سبزل) میں ایک شاندار حویلی بناکر رہائش پذیر ہیں۔ اس کے ساتھ کوئی دوسری بلڈنگ نہیں ہے۔ ویرانی میں ایک انوکھی حیرانی کا منظر ہوتا ہے۔ اس مختلف قسم کے فارم ہاﺅس میں حفیظ جالندھری نے ایک ہفتہ قیام کیا تھا۔ دعوت سب لکھنے والوں کو ہے کوئی ہمت کرے اور پھر حیرت میں ڈوب جائے۔ میرے لئے بشیر بے تاب کی محبت بے تحاشا ہے، مجھے وہ پسند ہیں کہ میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی کی شاعری کے عاشق ہیں۔ بشیر بے تاب کی اردو اور پنجابی اور سرائیکی کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ وہ تنویر ظہور کے بہت مداح ہیں اور تنویر ظہور ان کو اپنا محسن سمجھتے ہیں۔
ان کی زبردست اور زندہ کتاب ”میری کہکشاں“ میں ان کے ادبی اور غیر ادبی دوست شخصیات کے بارے میں تحریریں ہیں۔ میرے علاوہ منیر نیازی، تنویر ظہور، خالد بزمی، اقبال راہی باقی احمد پوری، حنیف چودھری، ڈاکٹر اصغر علی چودھری کے علاوہ بھی کئی دوستوں کے لئے انہوں نے اپنے مخلصانہ تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ دور دراز علاقے میں ادب کی شمع کو روشن رکھنا بہت بڑی معرکہ آرائی ہے۔ یہ اصل میںتنہائی کا فیض ہے، آدمی کو جو کچھ ملتا ہے، تنہائی میں ملتا ہے۔ ہم کیسے کیسے جتن کرکے تنہائی کا کوئی لمحہ ڈھونڈتے ہیں، بشیر بے تاب کو تنہائی نے اپنا دوست بنا لیا ہے۔ دور آباد علاقے میں بھی بشیر بے تاب کی کہکشاں شہر کے دوستوں پر مشتمل ہے جو تنہائی اور ویرانی کے لئے ترس گئے ہیں۔