اسلامی نظریاتی کونسل پر ”ہلکا پھلکا تشدد؟“

معزز قارئین و قاریات! گذشتہ ایک سال سے میری جانِ ناتواں پر جب کبھی عارضہ¿ جگر کا ہلکا پُھلکا تشدد ہونے لگتا ہے تو مجھے مرزا غالب کا یہ مِصرع یاد آ جاتا ہے کہ....
”اِنسان ہُوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں مَیں“
جِن دِنوں اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی اور اُن کے ہم مسلک مولویوں کا یہ فتویٰ عام ہُوا تھا کہ ”اسلام کی رُو سے مسلمان مرد کا اپنی بیوی پر ہلکا پُھلکا تشدد کرنا جائز ہے“۔ مجھے بھی کئی بار اپنے بعض رشتہ داروں اور بے تکلف دوستوں کا ہلکا پُھلکا تشدد برداشت کرنا پڑا۔ وہ اچانک میرے گھر آتے اور کہتے کہ ”ہم آپ پر صِرف ہلکا پُھلکا تشدد کریں گے۔ صِرف چائے یا کافی پئیں گے، کھانا نہیں کھائیں گے!“۔ مَیں اِس طرح کے تشدد تو پہلے بھی برداشت کرلِیا کرتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مولانا شیرانی کو اساتذہ کی شاعری سے کچھ ذوق ہے یا نہیں؟ بہرحال مَیں اُن کی خدمت میں اُستاد مسرور کا یہ شعر پیش کرتا ہُوں۔
”کیا ہی نازک میرا دلدار ہے، ہلکا پُھلکا؟
ڈالے گردن میں تو بس، ہار ہے، ہلکا پُھلکا!“
ہُوا یوں کہ مَیں عارضہ¿ جگر کے ہلکے پُھلکے تشدد کی وجہ سے 10 دِن تک کالم نہیں لِکھ سکا۔ جن اصحاب و اصحابیات کو وجہ معلوم نہیں تھی اُن میں سے بعض نے ٹیلی فون پر مجھ سے پوچھا کہ کہیں آپ نے کالم لِکھنا تو نہیں چھوڑ دِیا؟ مَیں عرض کرتا کہ کالم نویسی تو میری محبت ہے۔ پھرمَیں اُن کی خدمت میں یہ مشہور شعر پیش کرتا کہ
”کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا!“
تحریکِ پاکستان کے گولڈ میڈلِسٹ کارکن میرے بزرگ دوست چودھری ظفر اللہ خان کا اصرار تھا کہ ”آپ اپنے پہلے کالم میں عمران خان صاحب سے ضرور پوچھیں کہ اُنہوں نے اپنی خیبر پختونخوا کی حکومت سے ”طالبان کا باپ“ کہلانے میں فخر کرنے والے مولانا سمیع اُلحق کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ کو 30 کروڑ روپے کی امداد دِلوا کر کِتنے نفلوں کا ثواب حاصل کرلِیا ہے؟“ ابھی مَیں نے اِس بات پر غور نہیں کِیا تھا کہ مجھے خیبر پختونخوا حکومت کے امداد وصول کُنندہ ”پِدر طالبان“ پر تنقید کرنے سے کِتنے نفلوں کا ثواب مِلے گا؟ کہ 28 جون کو انسانی حقوق پر ایوان بالا (سینٹ آف پاکستان ) کی "Functional Committee" نے مولانا سمیع الحق کے بجائے مسلک کے لحاظ سے ایک لیکن سیاست میں مخالف مولانا فضل اُلرحمن کو چھیڑ دِیا اور مولانا صاحب کے ”حواری¿ خاص“ مولانا محمد خان شیرانی سمیت اُن کی چیئرمین شِپ میں قائم و دائم اسلامی نظریاتی کونسل پر ہلکا پُھلکا نہیں بلکہ بھاری تشدد کرنے کا اعلان کردِیا اور اسلامی نظریاتی کونسل کی "Dissolution" (خاتمہ) کرنے کا مطالبہ کردِیا ہے۔
مولانا فضل اُلرحمن اور اُن کی جمعیت عُلماءاسلام کے ایک اور لیڈر (ڈپٹی چیئرمین سینٹ) مولانا عبدالغفور حیدری کئی دِنوں سے زائرینِ کعبہ کی حیثیت سے اپنے اپنے بال بچوں سمیت (حکومت پاکستان کے خرچ پر) سعودی عرب میں ہیں اِس لئے فی الحال اِن دونوں لیڈروں کے لئے اللہ کے گھر میں بیٹھ کر فی الحال تشویش میں مُبتلا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یوں بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کا مطالبہ تو پاکستان کی کئی سیاسی اور سماجی تنظیموں کی طرف سے کِیا جا رہا ہے۔ ”فنکشنل کمیٹی“ کے معنے ہیں ”کسی کام سے متعلق یا کسی کام کو انجام دینے والی کمیٹی“۔ سوال یہ ہے کہ کمیٹی کی چیئرپرسن ایم کیو ایم کی محترمہ نسرین جلیل اور ارکان جناب فرحت اللہ خان بابر، ڈاکٹر جمال دینی، جناب مُحسن لغاری اور محترمہ ستارہ¿ ایاز اپنے اِس کام کی تکمیل کے لئے اب مزید فنکشنل کیسے ہوں گے ؟
مولانا فضل اُلرحمن کے ہاتھ بہت لمبے ہیں۔ جناب آصف علی زرداری کے دورِ صدارت میں جب مولانا صاحب نے فوراً ہی کشمیر پارلیمانی کمیٹی کی چیئرمین شِپ حاصل کرلی تھی اور لگے ہاتھوں اُنہوں نے مولانا شیرانی کو بھی اسلامی نظریاتی کونسل کا چیئرمین بنوا لِیا تھا۔ میاں نواز شریف تیسری بار وزیراعظم منتخب ہُوئے تو اُنہوں نے بھی مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لئے مولانا فضل اُلرحمن کی خُدا داد صلاحیتوں سے کام لِیا۔ اب اگر بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی مولانا صاحب کا راستہ روکتے رہے تو اُس کا کیا علاج ہے؟ وزیراعظم نواز شریف علاّمہ اقبال اور قائدِاعظم کے ”نظریہ¿ پاکستان“ کو بھی مولانا فضل اُلرحمن کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ دراصل جنابِ وزیراعظم کے والد صاحب میاں محمد شریف بزنس مین تو تھے لیکن اُنہیں تحریکِ پاکستان کے کارکُن کی حیثیت سے کردار ادا کرنے کا موقع نہیں مِلا تھا۔
میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف بھی قیام پاکستان کے بعد پیدا ہُوئے تھے لیکن قیامِ پاکستان اور تحریک پاکستان کے مخالف مولانا فضل اُلرحمن کو گُھٹی میں ملی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مولانا صاحب کے والد مفتی محمود صاحب کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ”خُدا کا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے“۔ دراصل مولانا سمیع اُلحق اور مولانا فضل اُلرحمن ایک ہی باغ کے دو پھول ہیں اور وہ پھول تھا ”جمعیت عُلمائے ہند“۔ اُس جمعیت میں شامل بعض عُلمائے دیوبند ہندوﺅں کے باپو شری موہن لعل گاندھی کے پیرو کار تھے اور وہ ”کانگریسی مولوی“ کہلاتے تھے۔ کانگریس کے کئی سال تک صدر رہنے والے مولانا ابو اُلکلام آزاد کو کانگریسی مولوی ”امام اُلہند“ کہتے تھے لیکن قائداعظم اُنہیں کانگریس کا ”شو بوائے“ کہتے تھے۔
مولانا سمیع اُلحق اور مولانا فضل اُلرحمن کی قیادت میں جمعیت عُلماءاسلام کے دونوں گروپ عام انتخابات میں کبھی بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکے لیکن یہ مسلم لیگ کے نام سے اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں کی کمزوری تھی کہ اُنہوں نے علاّمہ اقبال، قائداعظم اور مادرِ مِلّت کے افکار و نظریات کی روشنی میں نظریہ¿ پاکستان کی ترویج و اشاعت میں کوئی کردار ادا نہیں کِیا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے خاص طور پر کوتاہی کی اور کر رہی ہے البتہ یہ کریڈٹ مُفسرِ نظریہ¿ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کو جاتا ہے کہ اُنہوں نے کئی سال پہلے ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ اور ”کارکنانِ تحریکِ پاکستان ٹرسٹ“ کے عنوان سے دو ادارے قائم کئے۔ اِن اداروں کو تحریکِ پاکستان کے ایک نامور کارکن جناب آزاد بِن حیدر نے بجا طور پر نظریہ¿ پاکستان کے "G.H.Q" کا نام دِیا اور کہا کہ ”یہاں سے نظریاتی تربیت پا کر "Brigades" نکلتے ہیں“۔
ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے بعد بھی سابق صدر مملکت جناب محمد رفیق تارڑ کی سربراہی میں نظریاتی "G.H.Q" قائم و دائم ہے۔ افسوس کہ جنابِ مجید نظامی کے بعد وزیراعظم نواز شریف کو اور نہ ہی عمران خان کو اِس نظریاتی "G.H.Q" میں حاضری کا موقع مِلا۔ مَیں سوچتا ہُوں کہ کیوں نہ مَیں اپنے دوستوں ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کے چیف کوآرڈینیٹر میاں فاروق الطاف اور سیکرٹری سیّد شاہد رشید سے گذارش کروں کہ ”آپ اپنے خرچ پر وزیراعظم ہاﺅس اور بنی گالہ جا کر اُن دونوں قومی لیڈروں کو ”حقیقی نظریہ¿ پاکستان“ کی ٹیوشن پڑھا دِیا کریں“ ۔ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب نے مجھے ”شاعرِ نظریہ¿ پاکستان“کا خطاب دِیا تھا۔ مجھے اپنے طور پر بھی کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا؟ شاید اُس میں اسلامی نظریاتی کونسل پر ”ہلکا پُھلکا تشدد“بھی شامل ہو۔

ای پیپر دی نیشن