سوویت یونین کے سابق صدر میخائل گوربا چوف نے اپنی نئی کتاب " دی نیو رشیا " میں تحریر کیا ہے کہ سیاسی لیڈر کو پتہ ہونا چاہئے کہ اسکے سیاست سے آوٹ ہونے کا صحیح وقت کیا ہے جو لیڈر قوم پرست ہو گا وہ اقتدار کو اپنا کاروبار نہیں بنائے گا اور نہ ہی اپنے خاندان کے افراد کو حکومتی اہم عہدوں پر فائز کریگا اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ صرف ملکی خزانے کو لوٹنے آیا ہے۔انہوں نے کہا ایسا شخص نہ تو رہبر ہوتا ہے اور نہ ہی عوام کی جان و مال کا اس کو کوئی احساس ہوتا ہے بلکہ وہ ایک " سیاسی ڈاکو " کہلائے گا۔ ایک کامیاب لیڈر جب یہ دیکھتا ہے کہ وہ عوام میں اپنی قدرومنزلت کھو چکا ہے تو وہ اپنی ساکھ کو بچانے کی خاطر اقتدار سے دستبردار ہو کر نئے چہروں کو آگے آنے کا موقع دیتا ہے یہی ایک کامیاب لیڈر کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ کامیاب لیڈر موروثی سیاست پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے خاندان اور کاروبار کو اقتدار سے دور رکھتا ہے تاکہ لوگ اسکی امانت اور صداقت پر شک نہ کریں۔میخائل گوربا چوف نے اپنی کتاب میں امریکہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لکھا امریکہ کو عالمی پولیس مین کا کردار ادا نہیں کرنا چاہیئے اسے پولیس مین بننے کی بجائے دنیا کو متاثر کرنے والے گلوبل وارمنگ مسائل کے حل کے لیئے کوششیں کرنی چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ سرد جنگ کا خاتمہ کسی ایک فریق کی جیت یا دوسرے کی ہار نہیں بلکہ یہ ایک مشترکہ فتح تھی۔ روس کو ابھی تبدیل ہونا ہے ۔لوگ موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ۔گذشتہ دو دہائیوں سے اصلاحات پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا وہاں سرعام انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے ۔ جمہوریت ایک مشکل ، کٹھن اور جان جوکھوں کا کام ہے ۔ میں نے روس کو متحد کرنے کے لیے آخری دم تک کوششیں کیں لیکن اس میں مجھے کامیابی نہیں مل سکی جب میں نے دیکھا کہ اگر میں اقتدار پر چمٹا رہا تو خانہ جنگی اور ریاستوں کے درمیان سول وار شروع ہو سکتی ہے ، کیونکہ کچھ ریاستوں کے پاس نیوکلیئر ہتھیار بھی تھے چنانچہ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے استعفیٰ دیدیا میں نے یہ فیصلہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا مجھے اس پر پچھتاوا نہیں۔مصنف اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ نائن الیون کے واقعہ کے بعد ہتھیاروں کے پھیلاﺅ اور انکے استعمال پر بیحد اضافہ ہوا ۔ صدام حسین کا خاتمہ اور دیگر ممالک پر فوجی آپریشنز کا سرعام مظاہرہ کیا گیا اور اس عرصے میں خطرناک اسلحہ کی ریکارڈ خریداری کی گئی ، عراق کی جنگ کو میں نے امریکہ کی فاش غلطی قرار دیا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب میں انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں مداخلت اور فوج کشی کا سب سے بڑا منصوبہ ساز روسی خفیہ ادارے ( کے جی بی ) کا انچارج اور ہنگری میں سوویت یونین کا سابق سفیر اینڈرو پوف تھا جس نے 1979 ءمیں افغانستان پر چڑھائی کا پلان بنایا تھا۔