ذوالفقار علی بھٹو جونیئر، سوشل میڈیا پر فعالیت

بھٹو فیملی پاکستانی سیاست کا اہم نام ہے سندھ کی سیاست میں کتنے ہی خاندان ابھرے اور ڈوب گئے ایک زمانے میں کراچی کی سیاست ہارون اور گبول خاندانوں سے شناخت پاتی تھی لاڑکانہ میں ایوب کھوڑو، شکارپور میں سر غلام حسین ہدایت اللہ، اللہ بخش سومرو، دادو میں سائیں جی ایم سید، پیرعلی محمد راشدی، تھرپارکر میں غلام محمد وسان کاطوطی بولتا تھا ٹھٹھہ میں لغاری اور چانڈیو بڑا نام تھے لیکن اب ان میں بیشر کو کوئی جانتا بھی نہیں شاہ نواز بھٹو کو انکے عروج کے دور میں لاڑکانہ کے انتخابی معرکہ میں شکست دینے والے شیخ مجید سندھی کا خانوادہ سیاست میں فعال نہیں مرحوم پیر پگارا شاہ مردان شاہ شانی کے الفاظ میں زیر دست بالا دست اور بالا دست بے اثر ہو چکے ہیں۔
سوشل میڈیا پر میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار جونیئر کی ایک وڈیو وائرل ہونے کے بعد صوبے کے سیاسی، سماجی اور ثقافتی حلقوں میں ایک نئی بحث ا آغاز ہو چکا ہے۔ ایک مکتب فکر کا مؤقف ہے کہ چونکہ ذوالفقار جونیئر ایک عام نوجوان کی زندگی گزار رہے ہیں اس لئے وہ کیا کر رہے ہیں ان پر رائے زنی مناسب نہیں۔ وہ سیاست میں ہیں قوم کی رہنمائی کے دعوے دار نہیں اس لئے ان کا موازنہ بڑے خاندانوں کی نئی نسل کے اہل سیاست یا نوجوان قیادت سے کرنا مناسب نہیں ذوالفقار کی بہن فاطمہ بھٹو بھی سیاست سے دور ادب کا میدان سنبھالے ہوئے ہیں ان کی انگریزی نظموں کا مجموعہ آ چکا ہے اور وہ بھی اپنے بھائی کی طرح سیاست کی وادی میں اترنے پر آمادہ نہیں حالانکہ بھٹو خاندان کے متعدد بہی خواہ انہیں بلاول بھٹو زرداری کے مد مقابل دیکھنے کے خواہاں ہیں دوسری طرف اس نکتہ نظر کے مخالف مدعی ہیں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے اور بھٹو خاندان کے پگدار کایوں اپنا تعارف کرانا غیر مناسب ہے اور اسے با اثر فیملی سے تعلق ہونے کے ناطے خود کو اس طرح پیش نہیں کرنا چاہئے۔ اس سے بھٹو شہید کے چاہنے والوں کی دل آزاری ہوئی ہے رہ گئے سندھ کے سیاسی حلقے تو وہ اس صورتحال کو آصف زرداری اور بلاول بھٹو کیلئے نیک شگون تصور کرتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ سندھ کے زرداری خاندان کی کامیابی ہے ذوالفقار جونیئر کے سیاسی منظر نامے سے ہٹنے کے بعد 70 کلفٹن اور پی پی پنجاب کے سیاسی مخالفوں کو ریلیف ملا ہے اور وہ سیاسی خطرہ بھی ٹل گیا ہے جو مستقبل میں انہیں کبھی بھی چیلنج کر سکتا تھا۔
تازہ ترین منظر نامے میں جب الیکشن 2018 قریب ہیں اور پی پی کے سیاسی مخالفین اسے معاف کرنے پر تیار نہیں بھٹو خاندان کے ایک نوجوان کی سوشل میڈیا پر فعالیت کا فائدہ کیسے پہنچے گا؟ اس پر دو آراء نہیں لیکن برسوں سے مصوری، لٹریچر کے شعبے میں متحرک ذوالفقار کی سوشل میڈیا پر انٹری کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے اس وقت کا چنائو جس نے بھی کیا ہے خوب کیا ہے۔
بلا شبہ یہ بھٹو خاندان کے چشم و چراغ کا حیران کن رویہ ہے جس نے بھی وڈیو دیکھی اس کے ذہنوں میں مرتضیٰ بھٹو، ذوالفقار علی بھٹو جونیئر تک لاڑکانہ ہی نہیں سندھ ، ممبئی اور جوناگڑھ تک کی تاریخ تازہ ہو گئی سندھ کے میر علی نواز تالپور والی خیر پور کے اقبال بیگم عرف بالی سے عشق کی داستان کی داستان زیادہ پرانی بات نہیں نہ ہی لوگ ’’لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو کو بھولے ہیں۔ سب سے تازہ تو گزشتہ دہائی کی وہ داستانیں ہیں جو سندھ کے چیف منسٹر ہائوس سے موسوم تھیں جہاں صوبے کے انتہائی اہم عہدے پر براجمان شخص کے رویے اور موج مستیوں نے مغلیہ عہد کی یاد دلا دی تھی ذہن کے سکرین پر یاداشتوں کی فلم چلتی ہے تو بہت کچھ یاد آتا ہے۔ نصرت بھٹو کی وہ تصویر بھی جب وہ اسلام آباد سے سندھ آتی ہیں تو افسردگی ان کے چہرے سے عیاں تھی جوہر میر نے لکھا تھا …؎
اسلام آباد کے کوفے سے
میں سندھ مدینے آئی ہوں
مت پوچھو کیا کیا لائی ہوں
آنسو آہیں سسکیاں
قصے دکھڑے داستاں
آنے والے دنوں میں بھٹو خاندان کی شناخت کیا ٹھہرے گی؟ اقتدار، سیاست، طمطراق یا پھر مصوری، فلم، ادب سوال بہت سے ہیں لیکن جواب کون دے گا؟

ای پیپر دی نیشن