’’آئی سی سی چیمپئن ٹرافی‘‘

برطانوی کرکٹ ٹیم کی پاکستانی ٹیم کے ہاتھوں شکست کے بعد جیسے ہی بھارت کو احساس ہوا کہ اوول کے گراؤنڈ میں ہونے والے فائنل میں بھارتی کھلاڑیوں کا مقابلہ پاکستان سے ہونے جا رہا ہے تو ان کا انداز ہی تبدیل ہو گیا۔ دن رات پاکستانی کھلاڑیوں کا مذاق اڑایا جانے لگا‘ تبصروں اور مختلف ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں رکیک اور اخلاقیات سے گرے ہوئے جملے استعمال کئے جانے لگے۔ ٹی وی اشتہارات میں پاکستانی کھلاڑیوں سے باپ کا پوچھا جانے لگا‘ باپ کے بارے میں پوچھے گئے سوال نے بھارت میں اور بھارت سے باہر بھارتی سوشل میڈیا پر پاکستان سے متعلق گھٹیا مذاق کی صورت اختیار کر لی۔ بھارتی میڈیا پر کھیل کو پاکستان کے خلاف جنگ کی شکل دینے میں بھارت کے نجی ٹیلی ویژن چیلنوں سے زیادہ سرکاری ٹیلی ویژن چینلوں اور وہاں موجود ان تبصرہ نگاروں نے اہم کردار ادا کیا جن کا کرکٹ تو کیا کسی بھی کھیل سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا اور اگر بطور سابق کرکٹر کچھ تبصرہ نگار بلوائے بھی گئے تو وہ غیر معروف یا عالمی کرکٹ میں ناکام رہنے والے کرکٹر تھے۔ جن کے لئے یہی بہت بڑا انعام تھا کہ وہ بھارتی قومی ٹیلی ویژن پر پاکستانی کھلاڑیوں اور عوام کا مذاق اڑانے کے لئے مدعو کیے گئے تھے۔ پاکستان‘ پاکستانی عوام اور کھلاڑیوں کے خلاف نفرت کا یہ مظاہرہ اسی حد تک محدود نہیں تھا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی برطانوی کھلاڑیوں کے خلاف فتح پر مقبوضہ کشمیر میں خوشی کا مظاہرہ کرنے پر وہاں فوج نے کشمیری نوجوانوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ تشدد کی خبروں کو مقبوضہ کشمیر سے باہر جانے سے روکنے کے لئے انٹرنیٹ سروس اور موبائل کمپنیوں کی طرف سے فراہم کی جانے والی انٹرنیٹ کی سہولیات بند کر دی گئیں‘ سڑکوں پر پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے خوشی کا اظہار کرنے والے درجنوں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ حالانکہ برطانیہ میں جہاں میزبان کرکٹ ٹیم اور پاکستان کے درمیان میچ ہو رہا تھا وہاں دوران میچ بے شمار انگریز اپنے ہم وطنوں کی بجائے پاکستانی کھلاڑیوں کے حق میں نعرے لگاتے اور ان کی اچھی کارکردگی پر کھل کر داد دینے کے علاوہ پاکستان کی جیت پر خوشی کا اظہار کرنے والوں کے ساتھ شامل تھے۔ چلیے یہ تو عام انگریز شہری تھے۔ بی بی سی پر دکھائے جانے والے مناظر میں برطانوی پولیس کے اہلکار وردی میں پاکستان کی فتح پر بھنگڑا ڈالنے والے کرکٹ کے شیدائیوں کے ساتھ مل کر بھنگڑا ڈالتے رہے۔ ان کے اس اقدام پر کسی برطانوی انگریزی نے اعتراض نہیں کیا کیونکہ وہ اچھے کھیل کی بنیاد پر پاکستان کو حاصل ہونے والی جیت کا حصہ بن کر خوش ہو رہے تھے۔ تو پھر سوچیے کہ اگر انٹرنیشنل کرکٹ ٹرافی کا فائنل بھارت کے کسی شہر میں ہو رہا ہوتا جہاں بھارتی و پاکستانی کھلاڑی مدمقابل ہوتے اور بھارت کے بدترین شکست سے دوچار ہونے پر وہاں کیا عالم ہوتا۔
2 مارچ 2014ء کو بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں ایشیا کپ کے چھٹے میچ میں بھارت اور پاکستان مدمقابل تھے۔ بہت کانٹے دار مقابلہ تھا‘ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے 50 اوورز میں 245 رنز بنائے اس کے 8 کھلاڑی آؤٹ ہوئے۔ پاکستان نے یہ میچ 49 ویں اوور کی دوسری بال پر 249 رنز بنا کر جیت لیا۔ اس میچ کی منفرد بات یہ تھی کہ سٹیڈیم میں موجود بنگلہ دیشی شائقین کرکٹ پاکستان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے جو کہ بھارت ہی نہیں بنگلہ دیشی حکومت کے لئے بھی انتہائی تکلیف دہ تھا۔ مائیک کے پیچھے بیٹھے کمنٹریٹر پاکستان کے حق میں بنگلہ دیش کے جوش و خروش سے محظوظ ہو رہے تھے۔ انہیں برصغیر میں پاکستان سے جاری بھارت کی دشمنی اور بنگلہ دیش کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے جیسی پالیسیوں سے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ یہ کہے بنا نہ رہ سکے کہ ’’یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ میچ لاہور کے قذافی سٹڈیم میں کھیلا جا رہا ہو۔ بہت سے بنگالی نوجوانوں نے پاکستانی مہمانوں سے پاکستان کا پرچم لے کر لہرانا شروع کر دیا۔ کچھ نے ان سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی سبز یونیفارم والی شرٹیں لے کر پہن لیں۔ ایک طرف میچ کی سنسنی خیزی تو دوسری طرف بنگالیوں کی والہانہ انداز میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی حمایت۔ اس نے بھارتی میڈیا کو پاگل کر دیا۔ وہاں بیٹھے تبصرہ نگاروں نے بنگلہ دیشیوں کو 1971ء کی یاد دلانا شروع کر دی۔ انہیں بتایا جانے لگا کہ پاک فوج نے ان پر کس طرح کے مظالم ڈھائے۔ یوں لگتا تھا کہ جیسے کرکٹ میچ نہیں بلکہ 1971ء کی جنگ کے حوالے سے کوئی پروگرام نشر ہو رہا ہو۔ ایک بھارتی ٹی وی اینکر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ڈھاکہ کی پولیس کو سٹیڈیم میں موجود اپنے ان شہریوں کو گرفتار کر لینا چاہیے جو بھارتی کرکٹ ٹیم کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے پاکستانی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ بھارتی کرکٹ ٹیم کی پاکستان کے ہاتھوں شکست نے بھارت میں پاکستان کے خلاف اشتعال برپا کر دیا۔ اترپردیش میں سوامی ہوک نند بھارتی یونیورسٹی کے ہاسٹل میں قیام پذیر مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلباء پر ہندو طالب علموں نے دھاوا بول دیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ ہوسٹل کے ہال میں میچ کے دوران پاکستانی کھلاڑیوں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے اور پاکستان کی جیت پر انہوں نے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے۔ کشمیریوں پر تشدد کا معاملہ بڑھا تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر منظور احمد نے علاقے کی پولیس کو طلب کر کے یونیورسٹی کے مون ڈھنگرا ہوسٹل میں رہائش پذیر تمام کشمیری طالب علموں کے خلاف بھارت سے غداری کا مقدمہ درج کرانے کے علاوہ 67 کشمیری طلبہ کو فوری طور پر یونیورسٹی سے نکالنے اور ان کے داخلے منسوخ کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ پولیس کشمیری طالب علموں کو پکڑ کر تھانے لے گئی۔ ان میں وہ زخمی طلباء بھی شامل تھے جنہیں ہندو لڑکوں نے خود بھی اور ٹیلی فون کر کے باہر سے ہندو غنڈوں کو بلوا کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ وائس چانسلر کے انتہائی اقدام پر جب کچھ این جی وز کے نمائندوں اور لبرل سمجھے جانے والے ہندو دانشوروں نے احتجاج کیا کہ اگر کچھ کشمیری نوجوانوں نے پاکستان کے حق میں نعرے لگائے بھی تھے تو اس کی سزا تمام کشمیری طالب علموں کو کیوں دی جا رہی ہے تو اس پر وائس چانسلر کا جواب تھا کہ سارے کشمیری نوجوان اس مسئلے پر ایک ہو چکے ہیں۔ وہ نہ تو اپنے ساتھیوں کا نام بتانے کو تیار ہیں جنہوں نے پاکستان کے حق میں نعرے لگائے نہ ہی وہ اپنے اس جرم پر معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ پولیس نے 67 کشمیری طالب علموں کو اسی رات سخت پہرے میں ریلوے اسٹیشن پہنچا کر سری نگر جانے والی ریل گاڑی میں بٹھایا اور یہ بھی نہیں سوچا کہ مقبوصہ کشمیر کی حدود میں پہنچنے پر درجہ حرارت کم ہو گا تو کشمیری نوجوان سردی سے اپنا بچاؤ کیسے کریں گے۔
لیکن اب تو بھارت کا وزیراعظم نریندرہ مودی جیسا مسلمانوں کا قاتل ہے اور اس کی کابینہ میں بہت سے ایسے انتہا پسند ہندو وزیر شامل ہیں جن کے ہاتھ ماضی میں مختلف مواقع پر ہونے والے ہندو مسلم فسادات میں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں جو پاکستان اور مسلمانوں کے ساتھ شدید نفرت پر مبنی انتخابی مہم کے نتیجے میں جیت کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچے ہیں۔ آئی سی سی ٹرافی کے فائنل میچ سے قبل پاکستان اور پاکستانی کھلاڑیوں کے خلاف پورے بھارت میں تضحیک آمیز ماحول بنانے والے بھی یہی عناصر تھے۔ وہ تصور ہی نہیں کر سکتے تھے کہ پاکستان کے نو عمر اور تجربے میں کہیں کم پاکستانی کھلاڑی دوران میچ بالنگ‘ فیلڈنگ‘ بیٹنگ اور سب سے بڑھ کر اجتماعی کھیل میں بھارتی مایہ ناز بلے باز اور بالروں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیں گے۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو سیاستدانوں نے پاکستان کے ساتھ کھیل کو مقدس جنگ کا روپ دے دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اتر پردیش‘ کریالہ اور ہریانہ میں تین ہندو نوجوانوں نے اوول کے میدان میں بھارتی کرکٹ ٹیم کی شکست کی تاب نہ لاتے ہوئے خود کشی کر لی تو دوسری طرف مدھیا پردیش نوجوانوں کو۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو داد دینے اور پاکستان کے حق میں نعرے لگانے پر گرفتار کر کے ان کے خلاف ملک سے غداری کی دفعات کے ساتھ ایف آئی آر کاٹ دی گئی اور حالت یہ ہے کہ میچ میں حصہ لینے والے بھارتی کھلاڑیوں کے گھروں پر فوج کا پہرہ لگا دیا گیا ہے کیونکہ ڈر ہے کہ کہیں بپھرے ہوئے انتہا پسند ہندوبھارتی کھلاڑیوں کے گھروں میں ان کے مکینوں سمیت آگ ہی نہ لگا دیں۔ حالانکہ کرکٹ ہو یا کوئی اور کھیل۔ کھیل تو نام ہی برداشت کاہے جو جیت کی خوشی بنانے کے اصول سکھانے کے علاوہ ہار کا حوصلے سے سامنا کرنے اور اپنی شکست کا سبب بننے والی کوتاہیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا گر بھی سکھاتا ہے۔ مارچ 2009 میں بھارت کے خفیہ اداروں نے لاہور میں سری لنکا کے کھلاڑیوں کو نشانہ بنایا تو ان کا مقصد غیر ملکی کرکٹ ٹیموں کی پاکستان آمد کو روکنے‘ پاکستان کو دہشت گردی کا گڑھ قرار دے کر غیر محفوظ ملک ثابت کرنا تھا۔ اگر بھارت سمجھے تو اس کا بدلہ پاکستان کے کھلاڑیوں نے لندن میں اوول کے میدان میں چکا دیا ہے۔ پورے بھارت میں صف ماتم بچھی ہے۔ پاکستان کی یہ جیت درحقیقت بھارت کی انتہا پسندانہ سوچ کو شکست ہے۔

ای پیپر دی نیشن