رہنما کون ہوتا ہے؟۔ وہ جوکسی انسان کو مایوسی کی دلدل سے نکال کر امید اور پھر یقین کی راہ پر گامزن کر دے‘ وہ جو کسی کو تاریکی میں روشنی کی کرن بن کر راستہ دکھا دے اور کامیابی و تابناکی سے ہمکنار کر دے۔ الحمد اللہ! پاکستان سماجی قیادت کے حوالے سے بانجھ نہیں ہے اس میں ایسے سماجی رہنما موجود ہیں جنہوں نے اپنی بے لوث خدمت خلق سے پاکستان ہی نہیں اقوام عالم کو بھی حیران کیا ہے اور دنیا بھر میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ہے۔
کاش ہماری یہی سماجی قیادت ہی ہماری سیاسی اور قومی قیادت بن جائے تو یہ منتشر اور مایوس قوم متحد ہو کر اقوام عالم میں سب سے نمایاں اور قابل عزت قوم بن جائے۔
آج چند شخصیات اور اداروں کا ذکر کرنا مقصود ہے جو مخلوق خدا کی خدمت میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ ان شخصیات کے اخلاص اور ان اداروں کی کارکردگی کا میں عینی شاہد ہوں۔ ’’اخوت‘‘ کے روح رواں ڈاکٹر امجد ثاقب نے انقلاب بپا کیا ہے۔ دس ہزار روپے ایک عمر رسیدہ خاتون کو قرض دے کر انہوں نے قرض حسنہ کے جس کام کا آغاز کیا تھا آج وہ لاکھوں خاندانوں کو مستفید کر رہا ہے۔ اربوں روپے کے قرضے ضرورت مندوں کو بلاسود دئیے جاتے ہیں اور اس معاشرے میں جسے بددیانت معاشرہ کہا جاتا ہے تمام قرضوں کی تقریباً سو فیصد واپسی ہو جاتی ہے۔ ’’نوائے وقت‘‘ میں ان کے بارے کافی لکھا گیا ہے لیکن میں ان کے ایک خصوصی پراجیکٹ کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ وہ ایسی یونیورسٹی بنا رہے ہیں جہاں کسی طالب علم سے کوئی فیس وصول نہیں کی جائے گی۔ اس کے لئے انہوں نے علامتی طور پر ایک ا ینٹ کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی ہے اور پچاس ہزار اینٹوں کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ’’اخوت‘‘ کی طرح یہ یونیورسٹی بھی پاکستان میں ایک مثال بنے گی۔ مجھے امید ہی نہیں یقین ہے کہ پاکستان کے مخیر عوام اسی ماہ مبارک کے آخر تک یہ ہدف مکمل کر دیں گے۔
لاہور کے پسماندہ علاقے شمالی لاہور شادباغ میں ستائس سال قبل ایک درد مند شخصیت محمد شفیق جنجوعہ نے ایک دکان میں ڈسپنسری کھولی۔ ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا، والا معاملہ ہوا۔ وہ چھوٹی سی ڈسپنسری ایک ہسپتال میں تبدیل ہوگئی اور پھر پورے پاکستان میں محمدی آئی ہسپتال’’ آنکھوں کا ہسپتال‘‘ کے نام سے مشہور ہوگیا۔ ملک بھر سے مریض آنے لگے تو دو کنال جگہ مزید خرید کر وسیع اور جدید ہسپتال کی تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ پرانی بلڈنگ کو شوگر‘ دل اور جنرل امراض کے علاج کے لئے مخصوص کر دیا گیا۔ محمدی میڈیکل ٹرسٹ کے تحت نئے ہسپتال کی تعمیر جاری ہے پہلی منزل پر روزانہ پانچ چھ سو سے زائد مریضوں کی آنکھوں کا معائنہ اور آپریشن کئے جاتے ہیں۔ پانچ منزلہ ہسپتال کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔ اس ہسپتال کی اعلیٰ کارکردگی کا اعتراف عالمی اداروں نے بھی کیا ہے اور جاپان کی ایک یونیورسٹی کے نصاب میں اس ہسپتال کے بارے میںمضمون شامل کیا گیا ہے۔ شفیق جنجوعہ کے صاحبزادے ندیم احمد اور فراز جنجوعہ بھی فعال کردار ادا کرتے ہیں۔
عبدالکریم ثاقب برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے پسماندہ صوبے بلوچستان کے ضلع زیارت میں الحجرہ ٹرسٹ کے زیراہتمام الحجرہ بورڈنگ سکول و کالج بنایا ہے جہاں ہر سال چھٹی جماعت میں بلوچستان کے ہر ضلع کے دو مستحق بچوں کو منتخب کیا جاتا ہے۔ تعلیم‘ قیام‘ طعام‘ یونیفارم‘ کتابیں سب کچھ مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ اب تک کئی بچے ڈاکٹر‘ انجینئر اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔ طلبا کی تعداد میں اضافے کے پیش نظر عمارت میں توسیع اور ایسے مزید سکول کھولنے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں مقیم عبدالرحمن عثمانی الحجرہ ٹرسٹ کے نگران ہیں۔
قادری گروپ کے مبین قادری اور عاصم قادری سماجی خدمت میں مصروف ہیں۔ بادامی باغ لاہور جوکہ صنعتی علاقہ ہے وہاں کے مزدوروں اور علاقے کی آبادی کے لئے میڈی کیئر ٹرسٹ کے تحت میڈی کیئر ہسپتال چلا رہے ہیں۔ عاصم قادری کی متحرک شخصیت ہر وقت مصروف عمل رہتی ہے۔ جدید سہولتوں سے آراستہ اس ہسپتال سے غریب طبقہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ بچوں کی تعلیم اور ہنر سکھانے کا انتظام بھی ہے۔ وقت کے ساتھ ہسپتال میں توسیع ہو رہی ہے۔
ڈاکٹر آصف جاہ اور کسٹمز کیئر سوسائٹی کی خدمات کا دائرہ تو دنیا بھر میں پھیل چکا ہے۔ ان کی خدمات کے بارے بھی اکثر لکھا جاتا ہے۔ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی تنظیم اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA) کی اسلام آباد پاکستان میں ذیلی تنظیم ’’ہیلپنگ ہینڈ‘‘ مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ صحت اور خدمت کے کئی مراکز اس کے تحت کام کر رہے ہیں۔ فضل الرحمن کنٹری ڈائریکٹر ہیں۔ اسی طرح ریڈ فاؤنڈیشن دیگر صوبوں کے علاوہ آزاد کشمیر میں تعلیم کے حوالے سے نمایاں خدمات انجام دے رہی ہے۔ سینکڑوں سکولز اور کالج چلا رہی ہے۔ تعاون کرنے کے خواہشمند فیس بک اور ویب سائٹس کے ذریعے معلومات لے سکتے ہیں۔ اگر ہم اپنے اپنے حصے کی اینٹ لگا دیں تو پاکستان میں کتنے ہی تعلیمی ادارے‘ ہسپتال اور فلاحی مراکز بن سکتے ہیں۔ نیکی کے کام میں دیر کیوں۔ آگے بڑھ کر آپ بھی اپنے حصے کی اینٹ لگا کر اپنا فرض ادا کر دیں۔