انسانی آبادی کا سیلاب بلا خیز زمیں پر ایسا پھیلا کہ سب رستے بدنما ہوگئے۔ وہ لاہور جہاں بلا مقصد گھومنے کیلئے بھی گوجرانوالہ سے تقریبا روزانہ جانا ہوتا،آبادی نے برباد کردیا۔عمارتیں دلکش ہوگئیں مگر راستے دل شکن ۔وہ مال روڈ ،وہ پنجاب یونیورسٹی ،وہ ہائی کورٹ ،وہ احباب کی مجلیس اور رات گئے تک لاہور میں واقع لکھن¿و کے "چوک بازار"کی طرح تاروں کی رو پہلی چھاﺅں میں دوستوںکی منڈلی میں ،ٹھٹھے اور قہقہے لگاتے گردوپیش سے بے نیاز گھومنا۔سب یاد ہے، وہ دوستوں کی جگتیں،شاعری ،مزاح اور بذلہ سنجی جوکبھی نہ بھولی۔سچی بات تو یہ ہے کہ صرف یادیں ہی باقی رہ گئیں۔دوست پہلے اپنے اپنے کالجوں اور شعبہ جات سے فارغ ہوئے ۔پھر کچھ عرصہ ملنا ملانا رہا ،پھر ملنا ملانا کم ہوا ۔پھر صرف غمی ،خوشی کے موقع پر ملنا رہتا اور آخر میں سب کاروبار زندگی کی تباہ خیز یوں میں ایسے گم ہوئے کہ باالکل ہی بھول گئے ۔لاءکالج کی طرف جاتے ہوئے دل رو دیتا تھا۔کیاکیا چہرے یاد آجاتے ۔کیاکیا واقعات فلم کی طرح دماغ میں آتے اور پھرTHE ENDہوجاتا۔اس کے اردگرد کھانوں کی خوشبودماغ کو معطر کرتی تو کئی "پیٹو"یاد آجاتے ۔وہ لوگ وہ طلباء،وہ اساتذہ ،وہ عمارتیں ،وہ شعبہ جات،وہ کیفے ٹیریازدہ چاند چہرے یادآتے ہیں تو دل میں ہوک سی اٹھتی ہے ۔
آنکھوں میں اڑرہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو
38سال ہوگئے جب اپناسامان باندھ کر گاڑی میں رکھا۔یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس پر آخری نظر دوڑائی اور گھر کی راہ لی کہ شکر ہے کہ قانون کا امتحان پاس کرلیا۔مگر کسے خبر تھی کہ زندگی کا امتحان تو اب شروع ہوا ہے۔جس میں آس پاس کوئی بھی دوست نہیں ۔سب اجنبی سے وکلاء،جج ،اہلکار اور مظلوم لوگ خاکی رنگ کے لفافے لئے سالوں سے آرہے ہیں ،ایک عددتاریخ لیتے ہیں اور کوئی نئی تاریخ لینے دوبارہ سے تیاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔کچھ دوست افسر شاہی میں چلے گئے۔یہ "رکھ رکھاﺅ"والے لوگ ہوتے تھے۔چند ایک ہی ایسے تھے جواپنے پرانے کلاس فیلوز کو ملنے کیلئے اپنا چپڑاسی بجھواتے اور مل کر خوش ہوتے بقیہ تو کوشش کرتے کہ کسی دوست کو معلوم ہی نہ ہوسکے کہ وہ شہر یاراں میں اب ان کے افسر ہیں ،مبادا کوئی کام کرنا پڑ جائے ۔ماں اور باپ کو چھوڑ کر گھر کے دیگر افراد کی یادیں بھی ختم ہوجاتی ہیں مگر جو ساتھ ساتھ بیٹھ کر پڑھے ہوں ،بحثیں کی ہوں،لاہور جیسے عالم میں انتخاب شہر میں سالوں تک صبحوں ،شاموں کو بسر کیا ہو،ان کی یادیں کبھی نہ بھولیں۔ایک تو میں نے لاہور جاناکم کردیا کہ اب اس شہر میں احباب بہت کم ہوگئے جوباقی بچے وہ خود مصروف ہوگئے۔یار لوگوں نے اندرون شہر کے"دروازوں"سے نکل کر نئی نئی مختلف قسم کے ناموں کی ہاﺅسنگ،کالونیوں میں پناہ لے لی شائدکوئی کسی سے ملنا نہیں چاہتا۔کبھی دوستوں کی محبت میں جب لاہور جاتا ہوں تو مجبوراموٹروے اور پھر نیوکیمپس کی نہر والی سٹرک کا راستہ اختیارکرنا پڑتا ہے ۔جتنا وقت بھی اس شاہراہ پر گذرتاہے دل پر چھریاں سی چلتی رہتی ہیں ۔کبھی فلسفہ،کبھی سوشیالوجی ،کبھی آئی،ای ،آر ،کبھی پولیٹیکل سائنس ،کبھی زوالوجی اور نہ جانے کون کون سے شعبے نظر کے سامنے جنت کی حوربن کر آجاتے ہیں ۔کیسے کیسے لوگ تھے کہ اب گم ہوگئے۔اورسٹرک پربے ہنگم قسم کے "پیدل پل"جنات بن کر کھڑے ہوگئے ۔وہ خامشی،وہ سکوت ،درختوں کے گھٹتے بڑھتے سائے ،لہروں کا بہاﺅ، نہر کنارے کی گیلی راکھ،وہ کشتیاںسب خواب بن گئے۔اب بھی کبھی گاڑی کھڑی کرکے ایک اوردونمبرہاسٹل قریب دیکھتا ہوں تووہ خواب بھی اب نظر نہیں آتے۔1970ءکی دہائی میں ایک مقبول ماہنامہ"دھنک"ہواکرتا تھا۔شائد ہی کوئی کمرہ ایساہوجہاں اس کا وجودنہ ہو۔شائد حسن نثارنے اس میں ایک جملہ لکھا تھا کہ "اے کیمپس کی نہر سچ سچ بتانا کہ تونے آج تک کتنے جوڑوں کو ملتے اور پھرکبھی نہ ملنے کیلئے بچھڑتے دیکھا"بہت ماتم ہوچکا ماضی کا۔اس عرصے میں سب دوست بچھڑ گئے ،اگر کہیں کوئی مل بھی گیا تو شکل تک پہچاننا مشکل ہوتا۔کئی بار جی میں آیا کہ کیا کوئی بھی ایسا صاحب دل نہیں جو کسی بہانے ہی سہی لاہور میں سب دوستوں کو اکٹھاکرسکے۔کھانا نہ سہی ایک کپ چائے کا ہی پلاسکے ۔پرانی یادوں کو پھر سے تازہ کرسکے ۔اور ہم خوب زور سے گنوارقسم کے ہی سہی کھل کر کوئی قہقہے ہی برساسکیں۔ایک دوسرے سے ایسے گلے ملیں کہ گذرے ہوئے 38سال دیکھتے ہی دیکھتے ایک لمحے کیلئے بھول جائیں۔کیااب ہم کبھی نہ ملیں گے۔جو بیرون ملک چلے گئے کیا کبھی نہ آئیں گے ،جوافسرشاہی سے ریٹائر ہوگئے کیا کبھی تجدید تعلقات بھی کریں گے،جوعدلیہ میں تھے اب کبھی کبھار کسی عدالت میں ملتے ہیں اور ہم انہیں تھینک یو کہہ کر اگلے ہی لمحے کسی دوسری راہداری میں چلے جاتے ہیں۔کہتے ہیں جب خوشیوں کے قحط کی انتہا ہوتی ہے تو ابرکھل کر برستاہے ،خوشیوں کے ندی نالے لبالب بھرجاتے ہیں سب ہرا بھرا نظر آنے لگتا ہے ۔پھر چند روز قبل ایسا ہی ہواجب ہمدم دیرینہ اجمل شاہ نے فون کیا کہ ارشد اعوان ہالینڈ سے آیا ہوا ہے اور ہم سب کے پیارے راجہ منورنے23جون کی رات اس کے اعزاز میں پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس کے کلب میں عشایئے کا اہتمام کیا ہے ۔مزید کہا کہ انہوں نے نعمان عزیز اور چوہدری خالد ظفر سے کہا ہے کہ تمہیں ہر حالت میں لانا ہے۔رات 9بجے ان کے ساتھ یونیورسٹی کیمپس کے کلب پہنچا تو یہ دیکھ کر دہائیوں کی اداسی ختم ہوگئی کہ وہاں میرے جان سے بھی زیادہ پیارے دوست اور سابق طالب علم راہنما ارشداعوان مہمان خصوصی بن کر بیٹھے تھے اور ان کے دائیں بائیںراجہ منور،اجمل شاہ، خواجہ فلاح،ملک زاہد ،راجہ عبد الرحمان ،مہر اظہر معروف الرحمان ،شہباز بھٹی،ملک مجید،راجہ منور،میاں امین الدین ،سجاد بھٹی ،راشدملک ،سردار مشتاق اور دیگر ایسے ہی نادرونایاب اور محبتوں کے سفیر دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ سب کو پہچاننے میں مشکل پیش آئی ۔چہرے بدل چکے تھے،بال یاتواڑچکے تھے یا"برف پوش "ہوگئے تھے۔کئی ایک کے نام یاد کرنے میں حافظہ ٹھوکرکھا گیاکہ یہ 38سال پرانا دور تھا۔پھر چند منٹ کے بعد سبھی پہلے کی طرح گھل مل گئے ۔اتنے میں چوہدری احمد کمال بھی آگئے۔اتنی سفید اور اتنی دراز داڑھی دیکھ کرپہلے تو پہچانے ہی نہ گئے لیکن جب اپنے مخصوص انداز میں خواجہ فلاح کوتختہ¿ مشق بنایا تو اصل احمد کمال سے بھی ملاقات ہوگئی ۔طارق بشیر چیمہ ،چوہدری غلام عباس ،رانا فاروق اورڈسکہ سے چوہدری صداقت اپنی اپنی اتنخابی مہم میں مصروف تھے اس لئے فون پر ہی ان کی آواز سن کر بڑی خوشی ہوئی۔خدا انہیں انتخابی امتحان میں بھی کامیاب کرے۔واپس گھر پہنچے تو رات کے آخری پہر کا آغاز ہوچکا تھا۔مگر یادیں ہیں کہ ابھی تک دل ودماغ معطر ہے۔