یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ بھوک ننگ کے مارے کروڑوں پاکستانی عوام کو معدودے ۔چند ارب اور کروڑ پتی نام نہاد رہنمایانِ قوم کے استحصال اور تسلط سے کبھی نجات ملے گی یا نہیں مگر سردست عبوری طور پر مفلسی سے نیم جان افراد قوم کو اپنی بے بسی کے محرکات کا جائزہ لینے کے چندلمحے میسر ضرور آئے ہیں اور یہ عقدہ کھلا ہے کہ مروجہ آئین کی بدولت جن حکمرانوں سے عبوری طور پر نجات حاصل ہوئی ہے ۔ انہوں نے اپنے مخصوص مفادات کے حامل بیش بہا منصوبوں کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے لفظ” ویژن“ اور ”آرٹ آف دی سٹیٹ ایسے الفاظ کو کس بے دردی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے اپنے متکبرانہ لب و لہجہ کی دھاک بٹھانے کی کوششیں جاری رکھیں، ایوان اقتدار سے ان بزرجمہروں کے انٹا غفیل ہوتے ہی اس استحصالی اور چیرہ دست طبقے کی کم علمی اور بے بصیرتی کھل کر سامنے آگئی اور یہ راز طشت از بام ہوگیا کہ بوجوہ قوم پر مسلط ہونے والے جوتھے انہیں ویژن، آرٹ آف دی سٹیٹ ، ایسی اصطلاح کے مفہوم کا سرے سے علم ہی نہیں تھا ، آئینی تقاضوں کے مطابق محروم اقتدار طبقے میں خود کواریوں اور کروڑوں پتی ہونے کے دعویداروںمیں ان کی بھی کمی نہیں جنکی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی مالی حالت کا سنورنا ایوان اقتدار کے حواریوں حاشیہ نشینوں اور خوشامدیوں کے مخصوص ٹولے میں شامل ہونے کا مرہون منت ہے تبھی تو صرف 2013کے عام انتخابات کے بعد سے لے کر متوقع 2018کے انتخابات کے دوران قومی اور ملکی وسائل کی برکت سے ان کے اثاثوں میں 100فیصد سے کہیں زیادہ ااضافہ ہوا۔ سیاسی میدان کے یہ شعبدہ باز اپنی جھوٹی قابلیت کی دھاک بٹھانے کی خاطر گراں بہا قرض کی بنیاد پر قائم ہونے والے منصوبوں کو قومی اور ملکی ترقی کے حوالے سے اپنا ویژن قرار دیتے رہے جبکہ در حقیقت ان کے اس ویژن کا غریب عوام کو خوشحالی اور ملک کی ترقی سے دور دور تک بھی کوئی تعلق نہیں ۔ یہ بات باعث افسوس ہے کہ پاکستان میں اقتدار ایسے عناصر کوملا، جنہیں حصول پاکستان کے حقیقی محرکات سمیت بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے سیاسی اور جمہوری تصوررات سے نہ آگاہی ہے نہ ہی وہ اس کو جاننے کی خواہش رکھتے تھے۔ قیام پاکستان کے محرکات اور حضرت قائداعظم کا ویژن کیا تھا اس حوالے سے کاش ایوان اقتدار سے رخصت ہونے والے اوران کے حاشیہ نشین ہم نوا ، فرمودات قائدہی سے رہنمائی حاصل کرنے میں عقل استعمال کرتے ، حضرت قائداعظم نے تحریک پاکستان کے دوران میں بارہا دو ٹوک الفاظ میں مسلمان قوم کی بہتری اور خوشحالی کے حوالے سے ایسے ایسے بیانات دئیے جن سے ان کے اس ویژن کا پتہ چلتا ہے جو حقیقی معنوں میں قوم کے بہترین مستقبل کی خاطر اسے خوشحالی و ترقی سے ہمکنار کرنے والے ویژن پرمنتج ہوتا ہے۔ جیسا کہ بابائے ملت نے 1943ءمیںآل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت کرتے ہوئے واضح الفاظ میں دیگر باتوں سمیت یہ بھی فرمایا:
....”یہاں میں ان زمینداروں اور سرمایہ داروں کو متنبہ کر دینا چاہتا ہوں ۔ جو ہماری وجہ سے ہی خوب پھل پھول رہے ہیں یعنی ایک ایسے نظام کے ذریعے جو انتہائی ناقص اور غلط ہے اور جس نے انہیں اس قدر مطلبی اور مفاد پرست بنا دیا ہے ان کے خون میں عوام کا استحصال رچ بس گیا ہے ۔ وہ اسلام کے سبق کو بھول چکے ہیں ہوس اور خودپرستی میں یہ صرف خود فائدہ اٹھا رہے ہیں اور دوسرے کے مفادات کو انہوں نے پوری طرح سے پس پشت ڈال دیا ہے۔جمہوریت اور سماجی انصاف جس میں معاشی انصاف بھی شامل ہے۔ اسلامی تعلیمات کا ایک جزو ہے۔ اقتدار کے ایوانوں کو جن ارباب اختیار سے چھٹکارا ملا مخصوص ذاتی مفادات کی خاطر ان کی تمام تر توجہ بیرونی قرضوں کے حصول پر رہی وہ اس میں اپنا بھتہ بھی وصول کرتے رہے کیونکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ تو اس ملک کے مفلس اور فاقوں کی ماری 20کروڑ عوام سے عبارت قوم نے اتارنا ہے مگر حضرت قائداعظم نے پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لئے ملکی وسائل پر انحصار کرکے اور محنت کش عوام کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے حوالے جو واضح اشارے دئیے وہ بجا طور پرکسی عظیم قومی رہنما ہی کے ذہن رسا کا حصہ ہوسکتے ہیں ۔ انہوں نے قیام پاکستان کے بعد ایک جلسہ عام میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا ”.... بلاشبہ ملکی اور ملی ترقی کے لئے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے مگر قومی نشوونما اور ترقی کے جذبات محض سرمائے سے پیدا نہیں ہوا کرتے انسانی محنت کے ذریعے ہی عوام خوشحال ہوا کرتے ہیں اور مجھے کامل یقین ہے کہ پاکستان میں ایک جفاکش اور مضبوط قوم بستی ہے جس کی شاندار روایات نے انسانی کامیابیوں اور کامرانیوں کے میدان میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا ہے“۔بابائے قوم حضرت قائداعظم ؒ نے قوم و ملک کی ترقی و خوشحالی اور شاندار مستقبل کے لئے ملکی و سائل پر انحصار کرکے قوم کو ملکی و سائل کے بھرپور استفادہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ انہیں اس حقیقت سے بھی آگاہی تھی کہ قدرت نے پاکستان کو ہر طرح معدنی وسائل اور دولت سے مالا مال کر رکھا ہے ، مگر اصل بات یہ تھی کہ صرف اور صرف پاکستان کی ترقی و استحکام اور قوم کی خوشحالی اوران کے بہتر مستقبل پر ان کی نظر تھی۔ ان کے پیش نظر کبھی قومی اور ملکی وسائل سے ذاتی اغراض کے لئے استفادہ کرنا نہیں رہا ۔
ستھرے ماحول کو پراگندہ کرنے میں گئے دور کے ارباب اختیار نے مرکزی کردار ادا کیا۔ ایسے عناصر حال کی ترقی یافتہ اقوام کے رہنماﺅں کی طرز حکمرانی اور ان کی سوچ و فکر ہی سے سبق حاصل کرتے تو ہو سکتا ہے کچھ بھٹکے ہوئے راہی صحیح سمت پا جاتے ایسے ارباب اختیار میں سے کچھ نے جن بیرونی ممالک کو اپنے اثاثوں کے لئے ضروری سمجھا ان میں ملائیشیا بھی شامل ہے وہی ملائیشیا جسے عصر حاضر کے مہذب ، کرپشن سے پاک اور ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیا جا سکتا ہے اس کے عظیم رہنما مہاتیر محمد نے اپنے ملک اور قوم کو مقام رفیع سے ہمکنار کرانے کے لئے جو تاریخ ساز کارنامے انجام دئیے دنیا بھر میں اسے سراہا گیا ۔ اب بھی مہاتیر محمد نے وزیراعظم ملائیشیا کی حیثیت سے بیرونی قرضوں کے محرکات اور ان کے مضمرات کے حوالے سے جو بیان جاری کیا وہ ہمارے ایسے ملک کے مفادات پسند سیاسی رہنماﺅں کی آنکھیں کھولنے کے مترادف ہے مہاتیر محمد نے گزشتہ دنوں بربک قومی اخبار میں انٹرنیشنل ڈیسک کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر کے مطابق اپنے بیان میں غریب ملکوں میں چین کے منصوبوں پر جس طرح اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اُس سے ایک آزاد خود مختار ملک کے قومی درد سے لبریز لیڈرکے ویژن کا اظہار اور قومی مفادات کے تحفظ اور ملک کے خوشحال مستقبل کی نوید ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہاتیر محمد نے قرضوں کے حوالے سے پیدا ہونے والی جن مشکلات اوراس کے مضمرات کا اظہار کیا ہے۔ اس کی توفیق پاکستان کے ان رہبروں اور نام نہاد سیاست دانوں کو کہاں ہو سکتی تھی جن کا مقصد قومی و ملکی نہیں بلکہ اپنا مفاد مقدم تھا اور جسے حاصل کرکے وہ چلتے بنے۔!
تصور”ویژن “ سے محروم تھے حکمران؟
Jun 30, 2018