سطحی استحکام

ہماری معیشت ایک پْرآشوب دور سے گذر رہی ہے۔ یقیناً اس میں ایک بڑا حصہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا ہے۔ لیکن خود اس حکومت کو قائم ہوئے گیارہواں مہینہ چل رہا ہے۔ اگر اس بڑے عرصے میں استحکام نہیں آیا ہے تو قدرتی طور پر اس کی ذمہ داری نئی حکومت کو قبول کرنا ہوگی۔ آج کے مضمون میں ہم قارئین کے سامنے معیشت کی موجودہ صورتحال کا جائزہ پیش کرینگے اور اس بات کی کو شش کرینگے کہ آگے آنے والے حالات کا ایک نقشہ پیش کرسکیں۔ہم نے بجٹ کی آمد پر اس کا خیرمقدم کیا تھا اس اعتبار سے کہ یہ معاشی استحکام کی طرف سفر میں مددگا ر ہوگا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ بجٹ ٹیکسوں سے بھرپور ہے اور عوام پر اس سے تکلیف دہ اثرات مرتب ہونگے، لیکن معاشی مشکلات کے پیش نظر اس سے کوئی مفر نہیں تھا۔ بجٹ میں پیش کی گئی تجاویز آئی ایم ایف سے طے کیے گئے معاہدے پر مبنی ہیں۔ لہذا سختی وہاں سے آرہی ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہمارے لیے ناگزیر تھا۔ اس کی ضرورت ماضی کی خطاؤں کا خمیازہ ہے۔ اگر ہم اپنے وسائل کے اندر رہیں گے، تو ہمیں کبھی بھی آئی ایم ایف پروگرام کی سختی کا سامنا نہیں ہوگا۔
آئی ایم ایف کے سٹاف لیول معاہدے کے بعد اور بجٹ کے اعلان تک، کچھ ابتدائی اشاریے اس بات کے مل رہے تھے کہ معاشی استحکام آہستہ آہستہ بحال ہورہا ہے۔ اس پس منظر میں نئے گورنر اسٹیٹ بینک نے سترہ جون کو ایک جامع پریس کانفرنس میں نہایت ہی مدلل اور امید افزا خطاب کرتے ہوئے معاشی حکمت عملی اور آئی ایم ایف کے پروگرام کا دفاع کیا اور یہ نوید سنائی کہ مشکل مرحلہ گزر چکا ہے اور آگے آسانیاں آنے والی ہیں۔ انھوں نے مارکیٹ اور سرمایہ کاروں کے چند اہم ترین شبہات کا بھی موثر انداز میں ازالہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فری فلوٹنگ شرح تبادلہ کا نظام نافذ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا ہے بلکہ شرح تبادلہ کو مارکیٹ کی طلب و رسد کو سامنے رکھتے ہوئے طے کیا جائیگا۔ مرکزی بینک اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ مارکیٹ میں کچھ بھی ہوتا رہے اور وہ کھڑا تماشہ دیکھتا رہے۔ جب بھی مارکیٹ میں غیر ضروری رد و بدل ہوگا، مرکزی بینک اس میں مداخلت کرکے نظم اور ضبط کو بحال کریگا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شرح مارک اپ کا تعین کرتے وقت مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی اب افراط زر کی مستقبل کی پیشنگوئی کو مدنظر رکھ رہی ہے تاکہ اس سے نمٹنے کیلئے ایک جارحانہ انداز اپنایا جائے، نہ کہ اس کی آمد کے بعد ردعمل کے طور پر کوئی قدم اٹھایا جائے۔ اس سے افراط زر کی بیح کنی موثر انداز میں ہوگی۔ اس موقع پر گورنر نے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے حصول کیلئے جن سابق اقدامات Spror actions)) کی ضرورت تھی وہ مکمل ہوگئے ہیں اور تین جولائی کو آئی ایم ایف کا بورڈ پاکستان کی درخواست پر غور کریگا۔ اس خبر کے ساتھ ہی یہ توقع تھی کہ کم از کم آئی ایم ایف کے پروگرام کے دوران ایک سہ ماہی میں جبتک کہ اس کا جائزہ لیا جائے، اب کوئی مزید بحرانی کیفیت نہیں آئے گی۔
گورنر کی پریس کانفرنس، جس میں انھوں نے اعتماد کیساتھ تمام سوالات کے جوابات موثر انداز میں دیئے، معاشی ماحول میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔ کچھ لوگوں کو ان کی یہ ادا پسند نہیں آئی کہ ان کی پریس کانفرنس کسی کلاس روم کا لیکچر لگ رہی تھی۔ لیکں ہر ایک کو ہر بات پسند نہیں آتی، لہذا قطع نظر اس کے، اہم بات یہ تھی کہ حکومت کی ٹیم کے ایک اہم رکن نے کھل کر معاشی حکمت عملی کا دفاع کیا اور مایوسی کے ان اندھیروں میں امید کی شمع روشن کی۔ لیکن ابھی یہ روشنی قندیل نہ بن پائی تھی کہ اس کو حادثہ پیش آگیا اور یہ مدہم پڑ گئی۔چھبیس جون کو زرمبادلہ کی مارکیٹ میں یوں لگا کہ ایک بھونچال آگیا ہے۔ ایک دن میں ڈالر کی قیمت میں سات روپے کا اضافہ ہوگیا۔ دوسرے دن مزید ڈیڑھ روپے کی گراوٹ ہوگئی۔ مارکیٹ میں سراسیمگی پھیل گئی۔ لوگوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ چند دن پہلے گورنر صاحب نے بذات خود یہ اعلان کیا تھا کہ وہ بے جا اور غیرمعمولی رد وبدل کی اجازت نہیں دینگے اور پھر آئی ایم ایف کی شرائط بھی پوری کردی گئی تھیں، لہذا اس بڑی تبدیلی کا کیا جواز بنتا ہے؟ وہ کیا محرکات تھے جو اس غیرمعمولی تبدیلی کا باعث بنے؟ ہمارے پاس نہ حکومت اور نہ مرکزی بینک کی طرف سے کوئی وضاحتی بیان سامنے آیا ہے۔ ایسی صورت میں مارکیٹ کی موشگافیاں سننے میں آتی ہیں۔ کچھ لوگوںکاخیال ہے کہ مرکزی بینک نے شرح تبادلہ کو کھلا چھوڑ دیا ہے، جو گورنرکی اس یقین دہانی اور وضاحت کیخلاف ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کے پاس مداخلت کیلئے زرمبادلہ کے مطلوبہ ذخائر موجود نہیں تھے، جو درست نہیںہے کیونکہ یہ بھی گورنر کی طرف سے دی گئی یقین دہانی کے برخلاف ہے۔ ایک اور خیال یہ ہے کہ مرکزی بینک کو مارکیٹ سے مزید ڈالر خریدنے کی ضرورت تھی کیونکہ پروگرام کی ابتدائی شرائط پوری نہیں ہوئی تھیں۔ یہ بھی گورنر کے واضح بیان کیخلاف جس میں انہوں نے صاف یہ خبر دی تھی کہ یہ شرائط پوری ہوچکی ہیں۔ آخری خیال یہ ہے کہ شرائط پوری ہوچکی تھیں لیکن اگر مداخلت کیلئے زرمبادلہ کے ذخائر کو استعمال کیا جاتا تو مکمل ہوئی شرط ٹوٹ جاتی۔ اس سے یہ لازم آئے گا کہ مرکزی بینک کو صورتحال کا اندازہ لگانے میں کامیابی نہ ہوسکی اور اس آناً فاناً تبدیلی سے کماحقہ نمٹنے میںکامیاب نہ ہوسکا۔ لیکن یہ بات مرکزی بینک کی کارکردگی پرکوئی اچھا تاثر قائم نہیںکرتی۔ مزیدبراں یہ تبدیلی ایک ایسے کلیدی معاشی اشاریے میں آئی ہے جو ساری معیشت کو متاثر کریگا۔ اسکے ہمہ گیر اثرات سب سے پہلے ملک کے غیر ملکی قرضے پر مرتب ہونگے جن کی روپوں میں قدر سات سو ارب روپے سے زیادہ بڑھ جائیگی، اور ان پر سوو کی ادائیگی بھی روپے میں بڑھ جائیگی۔ گذشتہ چھ ہفتوں میں شرح تبادلہ میں سترہ فیصدکا نقصان ہوا ہے اور یوں اس کے برے اثرات اور بھی زیادہ ہیں۔ پھر اس کا اہم ترین اثر پیٹرولیم کی قیمتوں پر مرتب ہوگا، جو بڑھ جائینگے، بغیر عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوئے۔ پیٹرولیم کی قیمتوں کے اثرات دیگر قیمتوں پر ابتدائی اور ثانوی دونوں مرحلوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ افراط زر اس سے بڑھے گا اور جب یہ ہوگا تو اس کو قابوکرنے کیلئے مرکزی بینک پھر شرح مارک اپ کو بڑھائے گا، جو پہلے ہی سوا بارہ فیصدکی بلند سطح پر ہے اور ماضی میں یہ سطح اس صدی کے آغاز پردیکھی گئی تھی۔ یہ شرح سرمایہ کار کیلئے ناقابل برداشت بوجھ ہے، اس میں مزید اضافہ سرمایہ کاری کے ماحول کو تلپٹ کردیگا۔ اس سطح پرحکومت کا حال یہ بانڈ تقریباً چودہ فیصد پر شائع ہوا ہے۔ دو فیصد مزید اضافے کے بعد یہ سولہ فیصد کا ہو جائیگا۔ اب ایسی صورت میں جہاںحکومت کا خطرات سے خالی بانڈ سولہ فیصد پر مل رہا ہے، وہاںکسی کا سرمایہ کاری کے خطرات کو مول کر اس سے زیادہ منافع بخش کاروبار ڈھونڈنا، کوئی پرکشش تجویز نہیں بنتی۔ لہذا اس ساری صورتحال کے سرمایہ کاری پر منفی اثرات پڑینگے۔
دوسری جانب افراط زر اور شرح مارک اپ میں اضافے کیساتھ ملک میں ترقی کی رفتار متاثر ہوگی جو اس سال بھی سال گذشتہ کے مقابلے میں نصف کے قریب ہے۔ اس کیوجہ سے حکومت کیلئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ وہ روزگار کے وہ مواقع پیدا کرسکے یا اس تعداد میں گھروں کی تعمیر کرسکے جس کا اس نے وعدہ کیا ہے۔ ماہرین اس خدشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ ان حالات میں غربت میں اضافے کا بھی امکان ہے۔ لیکن احساس کے نام سے شروع کیے جانے والے پروگرام سے اس پر قابو پانے مدد ملے گی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...