لاہور (حافظ محمد عمران/نمائندہ سپورٹس) ٹیسٹ فاسٹ باؤلر جنید خان کا کہنا ہے کہ دو ہزار انیس عالمی کپ کے لیے منتخب ہونے کے بعد ڈراپ کیا گیا تو ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا تھا۔ آٹھ سال تک اس وقت کا انتظار کیا تھا لیکن صرف دو میچوں کی کارکردگی کو بنیاد بنا کر ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا حالانکہ میرا اکانومی ریٹ دیگر گیند بازوں سے بہتر تھا۔ اس فیصلے سے بہت دکھ پہنچا تھا منہ پر ٹیپ لگا کر فوٹو ٹویٹ کی لیکن بعد میں ہٹا دی تھی کیونکہ تصویر کے لگے رہنے سے پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا۔ آٹھ سال بعد موقع ملے اور اچانک ڈراپ ہو جاؤں تو کیا کر سکتا تھا۔ یہ تصویر خود ہٹائی تھی کرکٹ بورڈ میں سے کسی نے نہیں کہا تھا۔میرا کیرئیر نہایت صاف شفاف ہے والد نے ہمیشہ یہی کہا کہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس سے ملک کی عزت خراب ہو۔ دورہ انگلینڈ کے لیے بھی منتخب نہیں کیا گیا افسوس تو ہوا ہے کیونکہ وہاں تجربہ رکھنے والے کھلاڑیوں کو فائدہ ہوتا ہے۔ میرا خیال تھا کہ موقع ملے گا لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ میں تیاری کر رہا تھا، فٹنس پر بھی کام کر رہا تھا اور ٹریننگ بھی جاری تھی لیکن موقع نہیں مل سکا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ گھر بیٹھ جاؤں۔ محنت کروں گا میں ابھی چار پانچ سال کرکٹ کھیل سکتا ہوں۔ چند برسوں تک میں نے پاکستان کی فاسٹ باؤلنگ کا بوجھ اٹھائے رکھا، زیادہ تعداد میں میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلے ہیں۔ بدقسمت ہوں کہ دو ہزار گیارہ، پندرہ اور پھر دو ہزار انیس کے عالمی کپ میں نہیں کھیل سکا۔ چیمپئنز ٹرافی میں اپنی کارکردگی سے مطمئن ہوں۔ اپنے گاؤں صوابی میں کرکٹ اکیڈمی قائم کر رکھی ہے گاؤں کے بڑے بھی اس میں تعاون کرتے ہیں کئی برسوں سے یہ اکیڈمی قائم ہے آج تک کسی سے کوئی پیسہ نہیں لیا بلکہ کھلاڑیوں کی ضروریات پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ ہماری اکیڈمی سے نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا موقع مل رہا ہے۔ جونیئر اور سینئر کرکٹ میں ہمارے پلیئرز اوپر آ رہے ہیں۔ گھر میں جم بنایا ہوا ہے ان دنوں وہیں ٹریننگ کر رہا ہوں۔ میں زیادہ گھلتا ملتا نہیں ہوں شاید اس وجہ سے بااثر لوگ زیادہ پسند نہیں کرتے کیونکہ مجھے یونس خان نے یہی سکھایا تھا کہ پوری توجہ کھیل پر رکھو، ادھر ادھر گھومنے کی ضرورت نہیں ہے دیکھ لیں لوگ رات کو کھانے کے لیے جاتے ہیں، کلب جاتے ہیں سب کی تصاویر آتی ہیں لیکن میری ایسی کبھی کوئی تصویر نظر نہیں آئے گی کیونکہ میں صرف اپنی کرکٹ پر توجہ دیتا ہوں۔ ایک چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھتا ہوں ہو سکتا ہے کراچی یا لاہور کا رہنے والا ہوتا تو زیادہ مواقع ملتے روزانہ این سی اے جاتا لوگوں سے ملتا جلتا تو صورت حال مختلف ہوتی لیکن اس کے لیے فیملی سے الگ ہونا پڑتا میرے لیے فیملی سب سے اہم ہے اپنا گاؤں چھوڑ کر نہیں جانا چاہتا۔چیمپینز ٹرافی میں بھی وکٹوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آیا تھا۔ اس کے باوجود مناسب برتاؤ نہیں کیا گیا۔ اب بھی ٹیم میں واپسی کے لیے پرامید ہوں میں نے تو ٹیپ بال سے کرکٹ شروع کی تھی اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان ٹیم کی نمائندگی کروں گا۔ تب بھی صرف صلاحیت کی بنیاد پر منتخب ہوا اور ملک کی نمائندگی کی تھی کوئی سفارش نہیں تھی اب بھی کم بیک کے لیے پر امید ہوں۔ سلیکشن کے حوالے سے بھی شاید اس لیے مسائل آئے کہ اپنے کام سے کام رکھتا ہوں زیادہ گھلتا ملتا نہیں۔ یہ میرا مزاج ہے۔ کبھی کسی سے بدتمیزی نہیں کی۔ ابھی چار پانچ سال مزید کرکٹ کھیل سکتا ہوں۔
2019ء میں ورلڈ کپ سکواڈ سے ڈراپ کرانے پر ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کیا: جنید خان
Jun 30, 2020