پاکستان سٹاک ایکسچینج کراچی پر دہشتگردوں کا حملہ ‘چاروں دہشتگرد ہلاک‘ اپریشن میں انسپکٹر سمیت 6 افراد جاں بحق
پاکستان سٹاک مارکیٹ پر دہشت گردوں کا حملہ سکیورٹی فورسز نے ناکام بنادیا‘ حملے میں ایک پولیس انسپکٹر سمیت 6 افراد جاں بحق ہوگئے جبکہ چاروں دہشت گردوں کو ہلاک کردیا گیا۔ چار دہشت گردوں نے گزشتہ صبح پاکستان سٹاک مارکیٹ پر دستی بموں سے حملہ کر دیا جبکہ آٹومیٹک ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کی جس کی زد میں آکر ایک پولیس انسپکٹر‘ چار سکیورٹی گارڈ اور ایک شہری جاں بحق اور 3 اہلکار زخمی ہوگئے۔ اطلاع ملتے ہی پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں چاروں حملہ آور مارے گئے۔ بعدازاں سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ دہشت گردوں کی گاڑی تحویل میں لے لی گئی۔ برآمد کئے گئے اسلحے میں دستی بم اور آٹومیٹک رائفلیں شامل ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی نے بتایا کہ دہشت گرد پارکنگ ایریا سے عمارت کے اندر گھسے‘ دو دہشت گرد وںکو اندر گھستے ہی مار دیا گیا تھا‘ دہشت گردوں کے سامان سے بھنے ہوئے چنے بھی ملے ہیں۔ گورنر سندھ عمران اسماعیل کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ اور سکیورٹی ایجنسیز کو حملے میں ملوث دہشت گردوں کے سہولت کاروں کو فوری قانون کے کٹہرے میں لانے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔
حالیہ دنوں سندھ میں دہشت گردی کے کچھ واقعات ہوئے ہیں‘ ان کو کچھ حلقوں کی طرف سے سندھ میں دہشت گردی کی نئی لہر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ گھوٹکی میں رینجرز کے مقامی کمانڈر کی گاڑی پر دستی بم حملے میں دو رینجرز اہلکار اور ایک راہگیر شہید جبکہ دو افراد زخمی ہوگئے تھے۔ لاڑکانہ میں چانڈکا میڈیکل کالج کے گیٹ پر بھی دستی بم پھینکا گیا۔ کرونا کے باعث کالج بند ہونے سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ چند دن قبل کراچی لیاقت آباد میں احساس پروگرام کے کیش سنٹر پر دستی بم دھماکہ میں ایک شخص جاں بحق اور رینجرز کے اہلکار سمیت 8 زخمی ہوگئے تھے۔ کراچی کافی عرصہ سے پرامن تھا‘ احساس پروگرام کے کیش سنٹر پر حملے سے کراچی کے امن میں ارتعاش پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر گزشتہ روز سٹاک ایکسچینج پر حملہ تو باقاعدہ ایک بڑی دہشت گردی کی کوشش اور سازش تھی جو پولیس‘ رینجرز اور سکیورٹی گارڈز نے ناکام بنا دی۔ دہشت گردوں کا مقصد محض دہشت گردی کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانا ہوتا تو اس کیلئے ایک ہی دہشت گرد کافی تھا۔ یہ چار تھے اور انکے پاس بھنے ہوئے چنے ملنے سے لگتا ہے کہ وہ کچھ لوگوں کو یرغمال بنا کر اپنے مطالبات منوانا چاہتے تھے۔ اس میں کچھ دن لگ سکتے تھے۔ یہ چار دہشت گرد اپنے مقصد میں ناکام ہوئے اور جہنم واصل بھی ہوگئے مگر ماسٹر مائنڈ بدستور اپنی جگہ پر موجود اور وہ اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر اسی قسم کی نئی منصوبہ بندی بھی کرنے کی کوشش کریگا جس کے مقام اور وقت کا تعین بھی ماسٹر مائنڈ نے خود کرنا ہے۔ ایک آدھ دہشت گرد گرفتار ہوجاتا تو ماسٹر مائنڈ تک پہنچنا آسان ہوجاتا‘ اب بھی ادارے دہشت گردوں سے برآمد ہونیوالے اسلحہ اور دیگر سامان کی مدد سے منصوبہ سازوں تک پہنچنے کی کوشش کرینگے۔ اسکے علاوہ شہر میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں سے مدد بھی لی جاسکتی ہے۔ سندھ میں دہشت گردی کی نئی لہر چونکہ کالعدم ایم کیو ایم متحدہ کے رہنماء ڈاکٹر عمران فاروق کے مقدمہ قتل کے فیصلہ کے بعد پیدا ہوئی جس کی بنیاد پر الطاف حسین کی پاکستان حوالگی کیلئے حکومت برطانیہ سے رجوع کیا جا سکتا ہے اس لئے بادی النظر میں دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں میں ایم کیو ایم کے لوگ ملوث ہو سکتے ہیں۔ سکیورٹی ایجنسیز کو اس پہلو کو بھی تحقیقات میں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اس وقت تک ہر سرکاری نیم سرکاری اور سول ادارے کو یہ سوچ کر سکیورٹی کے انتظامات کرنا ہونگے کہ دہشت گرد ان کو ٹارگٹ کرینگے اور انتظامات اسی طرح کے ہوںجیسے کراچی سٹاک ایکسچینج میں حملے کے وقت دیکھے گئے ہیں۔ دو دہشت گردوں کو فوری طور پر اور دو کو دو تین منٹ بعد مار ڈالا گیا۔ ڈی جی رینجرز کراچی کا کہنا ہے کہ یہ اپریشن آٹھ منٹ میں مکمل ہوگیا۔ یہ سب سٹاک ایکسچینج کی اندرونی حد سے باہر ہوا جس سے سٹاک ایکسچینج کا کام متاثر نہیں ہوا۔ شہید پولیس انسپکٹر زخمی ہونیوالے اور دہشت گردوں کا صفایا کرنیوالے گارڈز‘ پولیس اور رینجرز کے سپوت قوم کے ہیرو ہیں۔
شمالی وزیرستان اور بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ یہ سب زخم خوردہ دہشت گرد کررہے ہیں۔ بلاشبہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے‘ انکی باقیات پھر سے منظم ہونے کیلئے کوشاں نظر آتی ہیں۔ پاک فوج اور قوم نے دہشت گردی کے خاتمے کیلئے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردوں کو کسی صورت منظم نہ ہونے دیا جائے۔ دہشت گردوں ہی کی طرح انکے سہولت کار بھی خطرناک ہیں۔ سہولت کاروں کی مدد کے بغیر دہشت گردی نہیں ہو سکتی۔ دونوں کے قلع قمع کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے نیشنل ایکشن پلان موجود ہے‘ اس میں کسی تبدیلی و ترمیم کی ضرورت ہے تو ضرور کرلی جائے۔ عام پاکستانیوں کو ایک بار پھر خبردار ہونا ہوگا کہ وہ اپنے گرد وپیش پر نظر رکھیں کہ کوئی مشکوک شخص تو موجود نہیں‘ مشکوک قسم کی سرگرمیاں تو نہیں ہورہیں۔ بادی النظر میں اس دہشت گردی کا مقصد پاکستان کی معیشت کو بڑا دھچکا لگانا یا تباہ کرنا بھی ہوسکتا ہے جس پیچھے ہمارے ازلی دشمن بھارت کی سازشوں کو نظرانداز ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔