حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ دنیا تمھیں اس وقت تک نہیں ہرا سکتی جب تک تم خود سے نہ ہار جائو ۔ اپنی سوچ بدلئے آپکی دنیا خود بدل جائے گی جس طرح درخت کی قیمت اس کے پھل کے حساب سے ہوتی ہے اسی طرح انسان کی قیمت اس کے اخلاق کے حساب سے ہوتی ہے۔ زندگی میں ہمیشہ یاد رکھیں رفتار سے زیادہ ڈائریکشن اہم ہوتی ہے۔ یاد رکھیں انسان اچھی شخصیت کا مالک اسی وقت بن سکتا ہے جب وہ دوسرو ں کی خوبیوں اور اپنی خامیوں پر نظر رکھے اور چیزوں کو ایسے دیکھے جیسے وہ ہیں ایسے مت دیکھے جیسے آپ دیکھنا چاہتے ہیں ۔
یاد رکھیں اصل حکومت دلوں پر ہوتی ہے علاقوں پر حکومت تو جنگلی جانور بھی کر لیتے ہیں ۔ انسان جب طاقت کے نشے میں ہوتا ہے تو کچھ باتیں زبان تک نہیں آتیں کچھ باتیں کان سُن نہیں پاتے دراصل وہی باتیں اہم ہوتی ہیں کیوں کہ جب غلطی ثابت ہو جاتی ہے تو عقل مند اپنے آپ کو درست کر لیتا ہے اور بے عقل ضد پر اَڑجاتا ہے۔ اس بات میں ذرا شک نہیں کہ کچھ لوگ اتنے ہوشیار ہوتے ہیں کہ آپ جتنی بھی اچھی بات کہیں وہ اس کے اند ربرائی ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔میں بحیثیت انسان اس کا قائل ہوں کہ انسان کے قاتل سے پہلے احسان کے قاتل کو پھانسی چڑھا دینا چاہیے ویسے بھی حقیر پن کی سب سے کمتر سطح احسان فراموشی ہے ۔انسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ جن سے محبت کی جائے ان کی عزت محبت سے زیادہ کرو ۔ یاد رکھیں :
What you do to others will surely heppen to you oneday .
میں ہمیشہ یہ سوچتا ہوں کہ انسان کوزندگی میں بلاوجہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو ایشو نہیں بننے دینا چاہیے فیصلہ کرنے سے پہلے ضرور سوچیں اور اس کے نیگٹیو اور پازیٹو پہلوئوں کو ضرور مدّ ِ نظر رکھنا چاہیے اور غور طلب یہ ہے کہ کیا ہم اس موقع پر یہ سب افورڈ کر سکتے ہیں یا نہیں ۔ کیوں کہ تلخ حقائق میں رہتے ہوئے بھی حسین تصورات پالنا انسانی ذہن کا وہ کمال ہے جس کو کوئی زوال نہیں ہے۔ جو لوگ اپنی زبان پر کنٹرول رکھتے ہیں وہ شیطان کے شر سے بھی محفوظ رہتے ہیں اور حقیقت یہی ہے کہ جواب دینے میں کوئی زور نہیں لگتا اصل طاقت چُپ رہنے میں لگتی ہے۔جناب وزیر اعظم صاحب پاکستان کو بیرونی دشمنوں سے زیادہ اندرونی دشمنوں سے خطرہ ہے جو ففتھ جنریشن وار کا حصہ بن چکے ہیں ۔ قابل افسوس یہ ہے کہ کچھ آستین کے سانپ بھی آپ کو ڈسنے کیلئے تیار اور بے تاب نظر آتے ہیں ۔ اس وقت پاکستان کی تعمیر و ترقی اور پاکستان میں بقائے جمہوریت آپکے ساتھ وابستہ ہے ۔ میں یہ لکھ چکا ہوں کہ :
مجھے خوف آتشِ گُل سے یہ ہے
کہیں یہ چمن کو جلا نہ دے
وزیر اعظم صاحب جب صحرا میں رہنے والوں کے بچے کا غذ کے جوتے پہن کر بیٹھے ہوں اور حکمران پیٹ کی گیس کا علاج کروانے باہر جائیں تو یہ ایک سوالیہ نشان ضرور ہے جناب عالیٰ۔
وزیر اعظم صاحب آج پاکستان مشکل ترین حالات سے گزر رہا ہے آپ کی حکومت جتنی غلطیاں غلط اور بے وقت فیصلوں کی صورت میں کرے گی اس کا سارا فائدہ انہیں لوگوں کو ہوگا جن کے احتساب کا نعرہ لگا کر آپ آئے تھے ۔ آپ کے اندازِ حکومت کو کوئی مائی کا لال تبدیل نہیں کر وا سکتا آپ اپنی مرضی کے مالک ہیں مگر آپ کو علم ہے کہ ان تقریباً دو سالوں میں آپ کا امیج دھندلا رہا ہے۔
جناب وزیر اعظم صاحب This is proper time for image building آپ کی حکومت کے اختتام پر قوم ضرور یہ فیصلہ کرے گی کہ آپ نے پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے کیا کیا ہے۔ اور ادھر ادھر سے اکٹھا کیا ہوا جمگھٹا پاکستان کے مسائل حل کر سکا ہے یا اپنے مسائل حل کرتا جا رہا ہے۔ آج اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتیں جنہوں نے پاکستان کی روح کو زخمی کیا ہے وہ دوبارہ شیروانیاں پہننے کی باتیں کر رہے ہیں اور چور دروازے سے دوبارہ پاکستان پر قابض ہو کر اس ملک کو کرپشن کی دلدل میں دھکیل کر سب کو بے بس کر دینگے اور جانتے ہیں اس کی ساری ذمہ داری آپ اور آپ کی انتہائی قابل ٹیم پر عائد ہوگی۔
ویسے یہ علیحدہ بات ہے کہ اب پاکستانی قوم سب کوپہچان چکی ہے مجھے ڈر ہے کہ اگر پاکستانی قوم برباد یٔ گلستاں دیکھ کر سڑکو ں پر آگئی تو اسے واپس لے جانے والا کوئی نہیں ہوگا اسلئے کہ یہ سب کو دیکھ اور آزما چکے ہیں میں بے بسی کی چکی میں پستی ہوئی قوم کی آنکھوں میں انتقام کے شعلے دیکھ رہا ہوں جو کسی کو بھی معاف نہیں کریں گے خدا نہ کرے کہ وہ وقت پاکستان پر آئے اسے روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اچھی ریفارمز کے ذریعے اس جلتی ہوئی آگ کو بجھا دیا جائے ورنہ پھر وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہو گا۔
جناب وزیر اعظم صاحب جسے پھول پسند آتا ہے وہ پھول توڑ لیتا ہے اور جسے پھول سے زیادہ پیار ہوتا ہے وہ پھول نہیں توڑتا بلکہ پودے کو پانی دیتا ہے ۔ اپنی ٹیم کو پابند کریں کہ پھول نہ توڑیں بلکہ پودے کو پانی دیں ۔
جنابِ وزیر اعظم صاحب ریاستِ مدینہ میں اگر زلزلہ آتا تھا توجنابِ فاروقِ اعظمؓ زمین پر کوڑا مارتے تھے کہ کیا میں تیرے اوپر انصاف نہیں کر رہا ۔
یاد رکھیں جب انسان اللہ کے دائرے کو توڑ کر خاک کے پتلے کے پیچھے بھاگتا ہے تو پھر اللہ کریم اسے تھکا دیتا ہے۔ اللہ کریم سے مدد مانگیں اور رسول اکرمﷺ کے در پر حاضری دے کر پاکستانی قوم کی اس مصیبت سے جان بخشی کروائیں اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہونا کچھ کو وہ فوری عطا کرتا ہے اور کچھ کی آواز با ر بار سننا چاہتا ہے اور وہ خوش قسمت ہیں جن کی پکار وہ بار بار سننا چاہتا ہے ۔
جناب وزیر اعظم صاحب اب پاکستانی قوم کے اس باپ کا خیال کرہی لیں جو اپنے بچوں کیلئے دھوپ میں جلتا ہے اور اس ماں کی طرف بھی نظرِ شفقت فرمائیں جو چولہے پر جلتی ہے ۔ جناب وزیر اعظم یہ حقیقت ہے کہ آپکا دل لالچ زدہ نہیں ہے کیونکہ لالچ زدہ دل ہمیشہ خوف زدہ رہتا ہے اور خوف زدہ دل کبھی پرواز نہیں کر سکتا ۔
جناب وزیر اعظم صاحب ابھی وقت ہے آپ بہترین فیصلے کر کے اور سابقہ فیصلوں پر نظر ثانی کر کے اس بے یقینی کی صورتِ حال سے نکل سکتے ہیں اپنے دوستوں اور محسنوں کو ایک موقع بھی نہ دیں کہ وہ آپکے دشمن بنیں ۔ آپ کے ساتھ جو لوگ کھڑے ہیں اور وزیر اعظم کی کرسی تک لانے میں جن لوگوں نے اپنا کردار ادا کیا کبھی ان سے بے رُخی اور ان کی توہین نہ کرنا ۔ اگر یہ وقت ہاتھ سے نکل گیا تو آپ سے زیادہ پاکستان کا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر آ پ کے پاس بھی اس کے سوا کہنے کو کچھ نہیں ہوگا کہ:
تاک میں دشمن بھی تھے اور پُشت پہ احباب بھی
تیر پہلا کس نے مارا یہ کہانی پھر سہی
٭…٭…٭
تاک میں دُشمن بھی تھے۔۔۔۔۔
Jun 30, 2020