میں اپنے گھر جو کہ شہر کے گنجان آباد اور بائو ٹائپ علاقوں میں شمار ہوتا ہے،کے ساتھ والی گلی کی نکڑ پر ابھی پہنچا ہی تھا کے دیکھتاہوں کہ رش لگا ہوا ہے کوئی ٹافیاں تو کوئی بسکٹ لے رہا ہے۔باری نہیں آ رہی،ٹافیاں دینے کے ساتھ وہ خود بھی کچھ نہ کچھ منہ میں ڈال کر مزے سے کھا تا جارہا ہے۔کوئی ایزی لوڈ کروا رہا ہے ۔مجھے بھی اچانک یاد آیا اور میں نے بھی اسی رش میں اس کو ایزی لوڈ کے لئے پچاس کا نوٹ تھما دیا۔اس کو نمبر بتایا تو اس نے فر فر مجھے بتایا اور منٹوں میں مجھے فارغ کر دیا۔ مجھے اس کی یادداشت اچھی لگی۔لیکن جس مہارت سے اس نے دوسرے ہاتھ سے ٹیکہ ٹھاہ کر کے اس عورت کو لگایا ،اس سے میں حیران ہوئے بغیر اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا ساتھ ہی وہ دوسرے ہاتھ ہر ایک کو باقی سکے بھی تھما رہا تھا۔ میں نے اس سے بات کرنے کی جرأت کرتے ہوئے پوچھ ہی لیا تو اس نے کچھ بے اعتنائی اورکچھ خشمگیں ،ملے جلے لہجہ سے جواب دیا جس کا مطلب میں یہ سمجھا کہ میں اپنے کام سے کام رکھوں۔ اس کی کریانہ کی دکان نما کلینک کا مجھے کوئی دروازہ بھی نظر نہ آیا ،باہر کچرے کے ڈھیر پر نظر پڑی ۔وہ کمال وارفتگی ،جس میں پھرتی بھی شامل تھی،سے کبھی ادھر کبھی ادھر کبھی دوائیوں کی پڑیا بنارہا تھا اور بغیر توقف کسی کو چینی بھی تول کردے رہاتھا اور بے تکان اپنی مہارت کے بارے میں بتا رہا تھامجھے اس کی عمر بیس بائیس سے کچھ کم ہی لگی میں نے اپنا تعارف کروانے کی کوشش کی ،تو اس نے سپاٹ سے چہرے سے مجھے دیکھا اور اپنے کام ،وہ ہی یعنی کسی اور گاہک کو تان تان کر اس دفعہ پٹھے کی بجائے پنسل کان کے پیچھے اڑسے ،کسی نسںمیں ٹیکے لگارہاتھا،لوگ اس کو اجل طبیب سمجھ پیسے بھی تھما رہے تھے اور جس کے پیسے کم ہوتے ،وہ بلا ججھک ان سے بتائے ہوے پیسے وصولتا۔ میں دل ہی دل میں اس کو داد دئیے بغیر نہ رہ سکاکیونکہ یہ تو شہر کے دل میں علاج جیسی اہم سہولت بہم پہنچارہاتھا۔ میں نے قریب ہی کسی سے اس کے کوائف جاننے کی کوشش کی،تو انہوں نے کہا کی ان کے ساتھ والی دکان پر جو حضرت ہیں ،وہ اگرچہ میرج بیورو کے ساتھ ساتھ ہومیو ڈاکٹر کہلاتے ہیں ،یہ انہی کے شاگرد امجد لگتے ہیں۔ میں نے اس چوکڑی مارے بوڑھے سے پوچھا تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا،حضور،ہم نے تو شروع دن سے ساٹھ سال سے اوپر ہونے کو ہیں ، یہی کچھ دیکھ رہے ہیں ہمارا واسطہ تو جناب والا ،آج تک ایسے ہی ان جیسے ڈاکٹروں سے پڑا ،تبدیلی نہیں نظر آئی میں نے ڈاکٹر ڈھنکنے کے نام کی وجہ تسمیہ جاننے کو کوشش کی ،تو اس نے بے ساختگی سے کہا ،بھائی جان ، اس کا مطلب ہوتاہے ہر فن مولا۔میں نے ،از راہ تفنن کہا،تو اس نے بیڑی دورپچکارتے ہوے کہا، جی ایسا ہی سمجھ لیجئے ۔میری توجہ بے ساختہ ان ہزاروں گائوں اور دور دراز علاقوں کی طرف چلی گئی کہ وہاں تو ایسے کئی عطائی ڈاکٹر وں نے کہرام مچا یا ہوگا ۔مجھے اچانک خیال آیا کہ پنجاب ہیلتھ کمیشن کو شاید ابھی ان لوگوں کا پتہ نہیں چلا ہوگا، کیونکہ آج کل کرونا کی وباء بہت پھیلی ہوئی ہے اور اسی طرح ہزاروں ،عطائی ڈاکٹر،جعلی لیباڑریوں ،عطائی ہسپتال جن کاَ کوئی والی وارث نہیںاور جو دن رات لوٹ مار میں مصروف ہیں ،ان کی طرف ابھی توجہ نہیں دے پارہے۔مجھے گارڈن ٹائون کا لش پش ہیلتھ کمیشن کا دفتر ،اور وہاںسفید، سنہری بالوں والے بزرگ افسرجو ساٹھ کی دہائی کراس کرچکے تھے ،اچانک یاد آ گئے اور سوچنے لگا کہ کہیں بظاہر اچھا ہیلتھ کمیشن بھی ہیلتھ کے نام پرعوام کو اپنی بھاری بھر کم تنخواہوں کا بڑا ٹیکہ، تو نہیں لگا رہا اور عوام ہیںکہ،پستے ہی جا رہے ہیں یقین کریں ۔مجھے توآر ٹی آئی، ویسٹ مینجمنٹ ،پانی صفائی،ہارٹیکلچر وغیرہ تمام بڑے بڑے نام کچھ مذاقیہ اور طنزیہ سے لگنے لگے اور ان نئے نکو ر تینتالیس محکموں پر کچھ شک سا گزرا ،سوچ میں پڑ گیاکہ کیوں نہ ہیلتھ کیئر کمیشن کو محکمہ صحت میں ضم ،اور ایجوکیشن فاونڈیشن جیسے محکمے ختم ہو جائیں، کہیں بیوقوف تو نہیں ،یا غلط تو نہیں سوچنے لگا کیونکہ ہم منفی ذرا جلدی سوچ لیتے ہیں ،میں خود کوکوسنے لگا ،مینوں کی آپے اللہ پچھے گا ،سوچتے ہوئے خدا کے سپرد کر دیا لیکن رہ رہ کر یہ خیال آتا رہا کہ کہیں ہمارے بیروزگار اور پڑھے لکھے نوجوان، جو اپنے گھر کا خرچہ کی وجہ سے شدید دبائو کا شکار ہیں اور پریشرککر بن رہے ہیں، ان محکموں میں بھرتی نہیں ہو سکتے تھے،کیا یہی ہمارا مستقبل ہے ،مجھے محسوس ہوا، جیسے کہ کہیں نہ چاہنے کے باوجود، میں ڈاکڑ ڈھنکنے کی زندگی کی کامیابی پر رشک تو نہیں کرنے لگا ، کیا ہمارے وطن عزیز میں غریب اور اشرافیہ میں سہولیات میں تفاوت ،تضادات بڑھ تو نہیں رہے،کیاجعلی کیپٹن، پولیس انسپکٹر کو ہی پکڑنا ہے جعلی یا عطائی ڈاکٹرکو پکڑنا ممنوع ہے ، چلو مٹی پائو ، مجھے اچانک آمد سی ہوئی،یہاں کوئی مقدس گائے نہیں ، گہری سوچ میں پڑے پڑے کہ کبھی اور کیسے تبدیلی آئے گی، اسی مخمصے میںسو، سا،گیا کہ یہاں ڈاکٹر ڈھنکنے ہی کھلواڑ کرتے رہیں گے۔