برصغیر پاک و ہند میں جب مسلمانوں کے الگ دیس کی باز گشت باقاعدہ سنائی دینے لگی تو اس بے جان قطعہ ارض (جس پر پاکستان مشتمل ہے) میں بھی اس خواب کی تعبیر کا خواب دیکھا ہو گا کہ کب وہ وقت آئے گا کہ اس کے سینے پر پڑنے والے قدم اندرونی و بیرونی آقاؤں کی بیڑیوں سے آزاد ہوں۔آخر اس زمین کے ٹکڑے کو بھی قومی ترانوں میں سوہنی اور ہیر جیسے پیارکے استعاروں سے تشبیح کی چاہ ہو گی۔ بے نام زمین بھی نام سے پکارے جانے میں فخر محسوس کرتی ہو گی۔ دھرتی ماں جیسے لقب کا غرور بے جان مٹی کوبھی ایسی جِلا بخشتا ہے کہ زرہ زرہ اس مقصد کے حصول کیلئے سربسجود ہوتا ہے ۔ہم نے بھی اس دھرتی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ ہم تیری مانگ ستاروں سے بھر دیں گے۔ لیکن پھر ہوا کیا؟تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے بھی ہراس نظریے اور احساس کو شرمندہ کیا جو کہ تحریک پاکستان میں مرکزی حیثیت رکھتا تھا۔ اس سرزمین نے ہمارے وہ کارہائے نمایاں دیکھے کہ جن کی نظیر نہیں ملتی۔ قیام پاکستان کے اوائل سے ہی ہم نے ثابت کیا کہ ہم ایک آزاد ملک چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے، اس کی سب سے بڑی دلیل اس امر میں پوشیدہ تھی کہ ہم تقریباً دس سال اس مملکت خداداد کو قانون دینے میں قاصر رہے۔ اور قانون سازی کی جس مشق کو ہم نے 1973 تک جاری رکھا اس کی داستان الگ ہے۔ نتیجتاً قیام کے پہلے دس سال ہم نے انگریز کے دئیے قانون کے سہارے گزار دیئے جس سے چھٹکار ا پاکر ہم اپنے تیعں آزاد کہلائے تھے۔ کسی بھی معاشرے کا دستور کے طابع ہونا اس کی ذہنی بلوغت اور ترقی کا مظہر ہوتا ہے جبکہ ہم نے ہم ہمیشہ قانون شکنی کو ہی ایک معیار گردانا۔ ہم اوائل سے ہی اس شش و پنج کا شکار رہے کہ آخر کار وہ کونسا نظام حکمرانی ہو گا جو اس مملکت خداداد میں رائج کیا جائیگا۔ آیا وہ مذہبی نظام ہو گا یا مغربی جمہوریت کی کوئی شکل ہو گی، نتیجتاً ہرآنے والے طالع آزماء نے ’’جو مزاجِ یار میں آئے‘‘ کا معقولہ ملحوظ خاطر رکھا۔ساٹھ کی دہائی میں ایک باوردی پاکستانی نے جمہوریت کی بساط کو یہ کہہ کر لپیٹ دیا کہ اس فضول نظام کے زیر اثر یہ مملکت نہیں چل سکتی اور اس دھرتی کو ضرورت ایک disciplined قیادت کی ہے۔ اس disciplinedقیادت کو ایک عالمی قوت نے جھوٹی تعریفوں کے پل باندھ کر اتنا in-disciplinedکر دیا کہ آمریت کے زیر سایہ بنیادی جمہوریت کے ڈھانچے کی اختراع بھی اس ملک کو دو لخت ہونے سے نہ روک سکی۔
1970 ء میں پاکستان کی تاریخ کے واحد شفاف الیکشن منعقد ہوئے جن کی نگرانی بھی ایک آمر ہی کے ذمہ آئی۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی اس سرزد غلطی کو تاریخ کے اوراق میں زندہ رکھتے، انہوں نے اپنے اس اقدام کو خود ہی مسترد کر دیا اور آدھا پاکستان کھونے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی باگ دوڑ ایک سول وزیراعظم کے حوالے کر دی۔ جمہوریت کی اس قسط نے دھرتی ماں کواپنے آدھے حصہ کی جدائی کے غم سے نکلنے میں مدد توفراہم کی۔ لیکن پھر بھی ان تمام امیدوں اور خوابوں کے بوجھ تلے تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی جو اس ملک کی غریب عوام نے اس حکومت سے وابستہ کر رکھے تھے۔ جہاں اس دور میں ملک نے بے شمار قانونی ، انتظامی اور معاشی ترقی کی منازل طے کیں وہاں جمہوریت میں لپٹی ذاتی آمریت نے اس ترقی کے ثمرات کو گھنائے رکھا۔ یہ بھی امر واقع ہے کہ تادمِ تحریر اُس دور کا وضع کردہ قانونی اور انتظامی نظام اس مملکت خداداداد میں کار فرما ہے۔ جمہوری نظام سے اکتاہت شاید ہماری گھٹی میں ہے۔ اسی کے باعث ستر کی دہائی کے آخر میں جموریت کی بساط ایک بار پھر الٹ دی گئی
اور آمریت نے خود کو تخت حکمرانی پر جلوہ افروز کر دیا ۔زمانہ گواہ ہے کہ اس اامریت کے زیرِ سایہ ، عالمی طاقتوں کی ایماء پر پاکستان کو دوبارہ مشرف بااسلام کیا گیا۔ سوہنی دھرتی بھی ورطئہ حیرت میں تھی کہ اسلام کے نام پر وجودمیں آنے والی مملکت کو دوبارہ کیوں دائرہ اسلام میں داخل کیا جا رہا ہے اور ہم
دائرہ اسلام سے خارج کب ہوئے تھے؟ ہم آج بھی اُس فیصلے کی حدت سے متاثر ہو رہے ہیں کہ جب ہم نے غیروں کی لڑائی کی آگ کو اپنے دامن میں سمیٹتے ہوئے’’ پرائی شادی میں عبداللہ دیوانہ‘‘ کی کہاوت کو عملی جامعہ پہنایا۔ اُس دور کی بوئی ہوئی فصل کو ہم آج تک متواتر کاٹ رہے ہیں اور ناجانے کب تک کاٹتے رہیں گے۔ ایک فضائی حادثہ اس دور کے اختتام کا موجب بنا اور مملکت خداداد انے جمہوریت کی طرف ایک یو ٹرن لیا۔ جمہوریت کا پودہ چونکہ نیم رضامندی سے لگایا گیا تھا اس لئے بجائے اس کے کہ پودے کی آبیاری دل و جان سے کی جاتی، اس کی افرائش کے عمل کو روکنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا گیا۔ نتیجتاً اس کی بڑھوتی کا خواب تشنئہ تعبیر ہی رہا اور ڈگمگاتی جمہوریت بالآخر 1999 ء میں پھر ڈھیر ہو گئی۔ 11ستمبر2001ء کے حادثہ کے بعد عالمی قوتوں کی ایماء پر ہمارے اس وقت کے حکمرانوں نے پاکستان کو اسی کی دہائی کے دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی ٹھانی اور enlightened moderation کے فلسفہ کی جانب راغب کیا۔ اس پالیسی کے اثرات خود کش بمباروں اور قومی سلامتی کے اداروں کی بے شمار قربانیوں کی صورت میں ظاہر ہونے شروع ہوئے۔ گھروں سے نکلنا محال ہو گیا۔ شیرخوار سے لیکر بزرگوں تک نے اس فیصلہ کی پادداش میں زندگیاں قربان کیں اور سوہنی دھرتی اپنے ہی فرزندوں کے خون سے رنگین ہوتی گئی۔ حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ پاکستانی معاشرہ
تباہی کے دہانے پر کھڑا ہو گیا۔ تو ایک بار پھر جمہوریت کے پودے کو پرانی شاخوں کی مدد سے کھڑا کر دیا گیا اور بالادست اور طاقت کے محور اداروں نے ٹھان لی کہ اب چاہے کچھ ہو جائے جمہوریت ہی اس ملک کا نظام حکومت رہے گا۔ لیکن ’’سہاگن وہی کہلائے گی جو پیا من بھائے گی‘‘ اوپر درج کئے حالات و واقعات کے تناظر میں یہ دھرتی ماں ہم سے ضرور سوال کرتی ہو گی کہ وہ خواب کیا ہوئے جن کی بدولت یہ ارضِ پاک وجود میں آئی تھی۔ وہ سوہنی دھرتی جس کو پہلی اسلامی مملکت ہونے کا ناز تھا وہ جھوٹ، ملاوٹ، چوری اوربددیانتی سمیت اخلاقی گراوٹ کے ہر اعشاریہ کی نسبت سے سہرِفہرست آتی ہے دنیا میں ایک ایسی مثال بن گئی کہ اخلاق کے ہر اعشاریے نے فہرست کے آخر میں آتی ہے۔ اسلامی اقدار کی سربلندی کے مقصد کے تحت حاصل کی گئی مملکت کے حالت ِ زار ایسی ہے کہ شرمائے یہود۔ وہ مملکت ِ خداداد کہ جس کا حصول مسلمانوں کی افزائش اور ترقی کی خاطر کیا گیا وہاں لوگ بھوک سے تنگ آکر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔ وہ معصوم بچے جن کی زندگیوں نے شمع کی مانند جگمگانہ تھا، بے رحم قاتلوں کے ہاتھوں میں وہ کونپلیں روندی جارہی ہیں۔ آج یہ پاک سرزمین اپنے مکینوں کی غالب اکثریت کو خوراک، لباس اور علاج جیسی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ہم زوال کی ان اتھاہ گہرائیوں میں گِر چکے ہیںکہ جہاں پر ہمیں اپنا مذہب بیچنے میں بھی کوئی عار نہیں ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تمام ممکنہ علتیں ہمارے اندربتدرجہ اتم پائی جاتی ہیں اور بجائے خود اصلاحی کے ہم ان علتوں کے سوداگر ہیں۔ ہماری تاریخ اور آج کی حالت ِزار کو دیکھ کر اس قطعہ اراضی جسکا جغرافیائی نام پاکستان ہے کو ’’قوت ِ گویائی‘‘ میسر ہو تو وہ اپنے مکینوں سے کچھ اس طرح ہی نوحہ کناں ہو گی’’کی کھٹیا میںتیری ہیر بن کے ‘‘