نامور گلوکاروں سے ملاقاتیں 

9 مارچ کو معروف لوک گائیک پٹھانے خان (غلام محمد) کی 21ویں برسی تھی۔ اس حوالے سے انکی یاد آئی جب جون 1972ء میں ان سے ملاقات ہوئی۔ پنجابی ادبی سنگت لاہور کا میں سیکرٹری تھا۔ سنگت کے تحت شاہ حسین کالج میں دو روزہ تقریبات ہوئیں جس میں محفل موسیقی بھی شامل تھی۔ اس محفل میں پٹھانے خان اور عالم لوہار نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ دونوں فنکار پوری رات گاتے رہے۔ نہ وہ تھکے نہ حاضر ین بور ہوئے۔ 
پٹھانے خان، خواجہ غلام فرید اور بلھے شاہ کا کلام وجد میں آ کر گاتے تھے۔ انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ پٹھانے خان کی ولادت 1926ء میں اور وفات کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ میں ہوئی۔ محفل موسیقی میں پٹھانے خان کے بعد عالم لوہار نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ 
عالم لوہار کی آواز میں پنجاب کی دھڑکن سنائی دیتی تھی۔ عالم لوہار سے میری ملاقاتیں محفل موسیقی کے علاوہ انکی رہائش گاہ (سمن آباد) میں ہوئیں۔ یوں تو انھوں نے مرزا صاحباں، جگنی اور دیگر بے شمار لوک گیت گائے تاہم مرزا صاحباں گانے کا ان کا خاص انداز تھا۔ عالم لوہار جب اپنے مخصوص انداز اور موڈ میں مرزا صاحباں گاتے تھے تو رات گزرنے کا احساس بھی نہ ہوتا تھا، چمٹا، لاچہ اور کرتا ان کی شخصیت کا لازمی جزو بن کے رہ گیا تھا۔ لاچے کُرتے میں ملبوس عالم لوہار پنجاب کے روایتی گھبرو نظر آتے تھے۔ وہ کوئی زیادہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن انھیں لوک داستانوں کے ہزاروں شعر یاد تھے۔ مرحوم نے مجھے بتایا تھا کہ اگر میں سات راتیں گاتا رہوں تو ایک بھی شعر دوبارہ نہیں دہراؤں گا۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا۔ انکی وفات کے بعد میں نے تعزیتی ریفرنس کیا جس میں بے شمار فنکاروں نے عالم لوہار کی یادوں کو تازہ کیا۔ مہمان خصوصی ملکہ ترنم نور جہاں تھیں۔ عالم لوہار کی زندگی حادثات سے پُر تھی لیکن ٹریفک کے دوحادثے انکی زندگی میں وارد ہونے والے اہم حادثے تھے۔ ایک مرتبہ وہ کراچی سے بذریعہ کار لاہور آ رہے تھے کہ حیدرآباد کے قریب حادثہ پیش آیا۔
 اس حادثہ میں انکی ٹانگیں ٹوٹ گئیں۔ لوگوں نے انھیں ہسپتال پہنچایا۔ اس علاقے میں انھیں کوئی پہچانتا نہ تھا۔ جو لوگ انھیں ہسپتال پہنچا کر آئے، انھیں معلوم نہ تھا کہ جس شخص کو وہ ہسپتال پہنچا کر آئے ہیں، وہ کتنا بڑا عوامی فنکار ہے۔ وہ کئی روز تک بے یارومددگار ہسپتال میں پڑے رہے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کو بلاتے مگر کوئی ان کی طرف توجہ نہ دیتا تو اس دوران انھوں نے یہ شعر کہے:۔؎ 
واجاں ماریاں بلایا کئی وار میں 
کسے نے میری گل نہ سنی
ٹٹی لت نوں وکھایا کئی وار میں 
کسے نے میری گل نہ سنی
انھیں دوسرا حادثہ ساہیوال کے قریب پیش آیا۔ یہ حادثہ جان لیوا ثابت ہوا۔ وہ 3 جولائی 1979ء میں وفات پا گئے۔ ان کی تدفین مزار خاص، جی ٹی روڈ، لالہ موسیٰ (گجرات) میں ہوئی۔ عالم لوہار کی وفات کے بعد ان کا صاحبزادہ عارف لوہار نہ صرف اپنے والد کے فن کے امین کے طور پر سامنے آیا بلکہ اس نے ان کے فن کو عصری تقاضوں اور جدید انداز کے ذریعے آگے بڑھانے کا اہتمام کیا ہے۔ لالہ موسیٰ ہی سے تعلق رکھنے والی ایک نامور گائیکہ ملکہ موسیقی روشن آرا ء بیگم ہیں۔ ان سے بھی میری ملاقات رہی۔ ان کی ولادت 1922ء کو کلکتہ میں ہوئی۔ فنِ موسیقی کے علاوہ انھیں عربی سے بہت دلچسپی رہی۔ انھوں نے اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور ہندی زبانیں سیکھیں۔ سات برس کی عمر میں قرآن حکیم پڑھ لیا۔ قرأت میں بھی خاصی مہارت حاصل تھی۔ جب وہ نو برس کی تھیں تو ان کی والدہ نے موسیقی کی تعلیم باقاعدگی سے شروع کرادی۔ 
موسیقی میں وہ خان صاحب عبدالکریم خاں کی شاگرد ہوئیں۔ اپنے فن کا پہلا مظاہرہ مہاراجہ گدھور کے ہاں کیا، جو بہت پسند کیا گیا بلکہ انعام بھی ملا۔ موسیقی کے علاوہ انھیں جانوروں سے بھی بے حد محبت تھی۔ پھولوں سے خاص شغف رہا۔ رنگوں میں سبز رنگ انھیں پسند تھا۔ گھر کو سجانا اور صاف ستھرا رکھنا، انکے محبوب مشاغل تھے۔ وہ اکثر کہا کرتیں۔ پاکیزہ خیالات رکھیں۔ قرآن حکیم سے راہنمائی حاصل کریں۔ اسوہ حسنہ پر عمل کریں۔ روشن آراء بیگم کا اصل نام وحید النساء ہے۔ آپ کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ آپ کی وفات 5 دسمبر 1982ء میں ہوئی۔ تدفین لالہ موسیٰ (گجرات) کے اسی قبرستان میں ہوئی جہاں عالم لوہار ابدی نیند سو رہے ہیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن