وفاقی بجٹ منظور،172حمایتی،138مخالف

Jun 30, 2021

اسلام آباد (نا مہ نگار+ نمائندہ خصوصی+ خصوصی نامہ نگار) قومی اسمبلی نے مالی سال 2021-22ء کے 8ہزار 487 ارب روپے حجم کا بجٹ اور مالیاتی بل کثرت سے رائے سے منظور کر لیا ہے۔ مالیاتی بل میں حکومت کی طرف سے پیش کردہ تمام ترامیم کو منظور کر لیا گیا جبکہ اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دی گئیں۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے ایوان میں بل پیش کر نے کی تحریک پر ایوان کی رائے کو اپوزیشن نے چیلنج کر دیا جس پر ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے  ووٹنگ کرائی بل پیش کرنے کی تحریک کے حق میں 172اور مخالفت میں 138 ووٹ پڑے۔ ووٹنگ کے لیے وزیر اعظم عمران خان بھی ایوان میں آگئے ۔ منگل کو ڈپٹی سپیکر قاسم خان سوری کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہو۔ وزیر خزانہ کی جانب سے پیش کردہ ترمیمی بل کی تحریک پر اپوزیشن نے سخت مخالفت کی۔ ڈپٹی سپیکر نے تین بار ایوان سے رائے لی اور تینوں بار اپوزیشن کی طرف سے اسے مسترد کیا گیا جب سپیکر نے تیسری بار رائے لینے کے بعد کہا کہ میرے خیال میں اس تحریک کے حق میں زیادہ ارکان کی رائے ہے تو پیپلز پارٹی کے رکن نواب یوسف تالپور نے اسے چیلنج کرتے ہوئے گنتی کرانے کا مطالبہ کیا جس پر ڈپٹی سپیکر نے گنتی کرنے کا حکم دیا، اس دوران حکومت نے اپنے ارکان کو ایوان میں بلالیا، وزیر اعظم عمران خان بھی ایوان میں آگئے ،سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری بھی ایوان میںموجود تھے تاہم اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ دو گرفتار ارکان اسمبلی سید خورشید شاہ اور علی وزیر کو پروڈکشن آرڈر پر ایوان میں لایا گیا، بجٹ کو منظور کئے جانے کے بعد اجلاس آج بدھ تک ملتوی کردیا گیا۔ فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے نئی شق کا بھی اضافہ کیا گیا اور حکومتی ترمیم کی اپوزیشن نے بھی مخالفت نہیں کی جبکہ ترمیم کے تحت ارکان اسمبلی کو اب ائیر ٹکٹس کے بجائے واؤچر دیئے جائیں گے۔نئی شق کے اضافے کی ترمیم رانا قاسم نون نے پیش کی تھی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپوزیشن ارکان کی جانب سے مالیاتی بجٹ میں ترامیم پر بحث کے جواب میں کہا کہ  ہم صرف باتیں کرنے والوں میں سے نہیں ہیں، عملی اقدام بھی اٹھاتے ہیں۔ اگر مہنگائی کی بات کی جائے تو مہنگائی کی شرح 7فیصد ہے اور سابقہ حکومتوں کے وقت بھی 7فیصد تھی لیکن خوراک پر مہنگائی بڑھی ہے کیونکہ سابقہ حکومتوں نے زراعت کے شعبہ میں سرمایہ کاری نہیں کی تھی۔ ہمیں چینی اور دیگر اشیا ضروری درآمد کرنی پڑتی ہیں اور عالمی منڈی میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 10 برس میں اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ اپوزیشن جماعتیں 20 ارب ڈالر کا خسارہ چھوڑ کر گئیں اور اس کو سنبھالنے کے لیے آئی ایم ایف جانا پڑا، انہوں نے اپوزیشن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں میرٹ والا شخص ہوں اس لیے میرٹ کی بنیاد پر تنقید کریں،شوکت ترین نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس ڈیڑھ کروڑ لوگوں کی تفصیلات آگئی ہیں جنہوں نے کبھی ٹیکس نہیں دیا انہوں نے کہا کہ ڈیری مصنوعات، انٹرنیٹ، ایس ایم ایس، پراویڈنٹ فنڈ پر ٹیکس نہیں لگا رہے جبکہ کپاس پر ٹیکس نہیں لگایا لیکن کپاس پر جننگ فیکٹری سے ٹیکس لیا جائے گا۔پروڈکشن آرڈر کے بعد قومی اسمبلی میں پہلی مرتبہ خطاب کے دوران خورشید شاہ نے کہا کہ آج غریب کے لیے ادویات خریدنا مشکل ہے ہیلتھ کارڈ کا بہت بڑا سکینڈل سامنے آئے گا۔ 'کیونکہ جو کام ہورہا ہے  وہ  ہسپتال اور 'بندے' کے درمیان ہے، ادویات 500فیصد مہنگی ہوگئی ہیں، بغیر کسی خوشامد کے کہوں گا کہ طبی سہولیات فراہم کرنے میں سندھ کو لاکھ مرتبہ سلام ہے۔ امید تھی کہ وزیر خزانہ ٹیکس فری بجٹ دیں گے، موجودہ حکومت بھاری ٹیکس لگا کر بجٹ پاس کررہی ہے اور بعد میں پریشان ہوتے پھریں گے۔سید خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کو دیکھ کر شکر ادا کیا کہ میں جیل میں ہوں کیونکہ ہم نے پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی ہے، آپ نے عوام کو کون سا چہرہ دکھایا ہے۔ ہمارا چہرہ ایسا ہونا چاہے کہ عوام کہیں کہ عوام نمائندے مسائل کے حل کیلیے کوشاں ہیں پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر میں بحث کا حصہ بنتے ہوئے حکومت کے ٹیکسیشن کے عمل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی جانب سے ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنے کا عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے نیب سے تنگ ہے اور اب ایف بی آر کو گرفتاری کے اختیارات دیے جا رہے ہیں اور کاروباری طبقہ کہے گا ایف بی آر سے بچاؤ، نیب کے حوالے کر دو۔ موبائل فون کالز پر ٹیکس لگانے سے عام آدمی متاثر ہو گا۔مسلم لیگ (ن)کی رہنما ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین کی باتوں، دعوؤں اور فنانس بل میں تضاد ہے۔ ٹیکس گزاروں کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑھ جائیں گے اور انکم ٹیکس سے متعلق ترامیم ٹیکسیشن کے نظام کو مشکل بنا دیں گی۔پیپلز پارٹی کے نواب یوسف تالپور نے کہا کہ اگر حکومت زراعت کے شعبے کو ریلیف نہیں دے گی تو معیشت ترقی نہیں کرے گی۔ پانی کے مسئلے پر سندھ اور پنجاب کو لڑایا جا رہا ہے اس مسئلے کو سنجیدگی سے حل کیا جا نا چاہیئے ۔مسلم لیگ(ن)کے علی پرویز ملک نے کہا کہ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا تھاکہ باالواسطہ ٹیکسوں کو ختم کریں گے اب شائدا نہوں نے یو ٹرن لے لیا ہے ،ٹیکسوں سے چینی، مرغی،ڈیری،کھانے کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ قبل ازیں وزیر اعظم کا ایوان میں آمد پر تحریک انصاف کے ارکان نے ڈیسک بجائے۔  پیپلز پارٹی کے 56 میں سے 54 اراکین ایوان میں موجود تھے جبکہ 2 ارکان کرونا سے متاثر ہونے کے باعث غیر حاضر رہے۔  بجٹ منظوری کے دوران پیپلز پارٹی کے ارکان  کم تھے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے عبدالقادر پٹیل کو پی پی ارکان پورے کرنے کی ہدایت کی۔  اور کہا کہ  باہر موجود تمام ارکان کو اندر بلا کر لائیں۔ عبدالقادر پٹیل‘ بلاول بھٹو کی ہدایت پر خورشید شاہ‘ شازیہ مری اور پرویز اشرف کو بلا کر لائے۔  شازیہ مری نے کہا کہ پیپلزپارٹی موبائل فون پر ٹیکس کی مخالفت کرتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ بڑی آسانی سے بجٹ پاس ہو گیا۔ شہباز شریف اور اپوزیشن کے 30 ارکان اجلاس میں نہیں آئے۔ مریم نواز اور شہباز شریف کے جھگڑے میں قیادت کی گرفت پارٹی پر کمزور ہو گئی۔ سندھ اسمبلی میں اپوزیشن کی آواز کا گلا دبایا گیا۔  اپوزیشن لیڈر اور آٹھ ممبران کو ایوان میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ سندھ میں یہ بدتر آمریت ہے۔  مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ بجٹ منظوری  کے وقت ہمارے ارکان کی اکثریت قومی اسمبلی میں موجود تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ شہباز شریف اپنے تایا زاد بھائی اور برادر نسبتی میاں طارق شفیع کی وفات کے باعث جنازے اور  لاہور میں رسم قل کے باعث قومی اسمبلی کے اجلاس میں  شرکت نہیں کر سکے ان کی عدم موجودگی پر پریشان ہونے والے اب ان سے تعزیت کر سکتے ہیں ۔  پیپلز پارٹی کے چیئئر پرسن بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ کی منظوری کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب  کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی کے حوالے سے سوال پر  گلہ کرتے ہوئے کہا  میں اپنی پارٹی اور اراکین کا جوابدہ ہوں، میرے تمام صحتیاب  ارکان قومی اسمبلی پوری تعداد میں ایوان میں موجود تھے،  یہ شکایت درست ہے کہ کچھ جماعتوں کے  ارکان  آج موجود نہیں تھے جس سے برا پیغام جاتا ہے لہٰذا یہ زیادہ بہتر ہوتا اگر وہ پوری تعداد میں موجود ہوتے۔ یہ غلط روایت قائم ہوئی ہے، ہم نے شہباز شریف صاحب سے کہہ دیا تھا کہ ہمارے تمام  ارکان بجٹ میں موجود ہوں گے، میں اپنے وعدے پر پورا اترا، میں ناصرف خود موجود تھا بلکہ اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ موجود تھا، ایوان کو اہمیت دینے کا یہی طریقہ ہے اور حزب اختلاف مؤثر اپوزیشن کا کردار اس وقت ادا کر سکتی ہے جب حزب اختلاف اسلام آباد اور ایوان میں موجود ہوں۔قومی اسمبلی نے 93گھنٹے کی طویل بحث کے بعد فنانس بل 2021-22کی منظوری دیدی۔ قومی اسمبلی  سیکرٹریٹ کے ذرائع مطابق کہ بجٹ پر بحث میں حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے 244ارکان نے حصہ لیا ۔ قومی اسمبلی میں بجٹ پر 69گھنٹے اور 5منٹ کی بحث ہوئی۔ اپوزیشن ارکان کو بجٹ پر بحث کیلئے اضافی 16گھنٹے 5منٹ دیئے گئے جبکہ حکومتی ارکان کو ان کے مختص وقت سے 13گھنٹے زائد کا وقت دیا گیا۔ فنانس بل کی منظوری  کے موقع پر شہباز شریف اور ن لیگ کے ارکان کی اکثریت ایوان سے غائب رہی۔ پیپلز پارٹی کے 56 میں سے 54 ارکان ایوان میں موجود تھے 2 ارکان کو کرونا وائرس سے متاثر ہونے کے باعث غیر  حاضر رہے۔

اسلام آباد (عترت جعفری) آئندہ مالی سال کے  منظور شدہ فنانس بل میں  ترامیم کے ذریعے اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ گرفتاری کے اختیار کو ٹیکس ڈیفالٹ کی رقم کی  سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ نان فائلر ڈھائی کروڑ ٹیکس کے ڈیفالٹ پر پکڑا جائے گا۔ فیصلہ وزیر خزانہ کی سربراہی میں کمیٹی کرے گی۔ تمام قوت کی گاڑیوں پر ٹیکس کی مراعات دی گئیں ہیں۔ ایک ہزار سی سی تک کی گاڑی پر ایف ای ڈی  پوری معاف اور اس سے زیادہ قوت کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں کمی کر دی گئی ہے۔ بجٹ  کے تحت تمام ضروری نو ٹیفکیشن آج جاری کر دئیے جائیں گے اور یکم جولائی سے تمام  ریونیو اقدامات موثر ہو جائیں گے۔ فنانس بل میں ترمیم کے ذریعے ایف بی آر کی طرف سے گرفتاری کے اختیار کو ڈیفالٹ سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ انکم کی تشخیص کرنے والا افسر ریکارڈ پر لائے گا کہ فائلر نے  جو آمدن چھپائی ہے اس  پر دس کروڑ روپے یا ا س سے زائد  ٹیکس  کی ادائیگی نہیں  کی گئی، یا نان فائلر کی صورت میں اڑھائی کروڑ روپے کے ٹیکس ڈیفالٹ پر  گرفتاری کی جاسکے گی۔ تاہم اس گرفتاری کے لئے کمیٹی سے  پیشگی اجازت لینا ہو گی، کمپنی کی صورت میں  کمپنی کا ہر ڈائریکٹر ذمہ دار تصور ہو گا یا وہ فرد جس کو مجاز افسر ذاتی طور پر آمدن چھپانے کا قصور وار سمجھے گا۔ ترمیم میں ایف بی آر کو ایک طرح کا پلی بارگین کا اختیار بھی دیا جارہا ہے جو مکمل ٹیکس کی ادائیگی جرمانہ کی ادائیگی سے منسلک ہو گا، ملک سے سروسز کی برآمد کے لئے ان پٹ ٹیکس کا ریٹ ایک فی صد کر دیا گیا ہے، ناقابل انتقال جائیداد کی فروخت پر ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے، اس کے ریٹ یہ ہوں گے، پچاس لاکھ تک کی گین پر3.5فی صد، پچاس سے ایک کروڑ روپے کی گین پر7.5 ایک کروڑ سے ڈیڑھ کروڑ روپے تک 10فی صد اورڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد کی گین پر15فی صد ٹیکس ہو گا، اسی طرح گاڑیوں کی رجسٹریشن کے بغیر فروخت(اون من) پر ٹیکس لگا دیا گیا ہے،گھریلو  بجلی کے صارفین کے بلز پر ودہولڈنگ ٹیکس کے نفاذ کے تھریش ہولڈ  میں کمی کر دی گئی ہے جس کے تحت 75 ہزار روپے ماہانہ کے بل کی بجائے25 ہزار روپے کے بل پر ودہولڈنگ ٹیکس لاگو ہو جائے گا، رواں مالی سال کے دوران کارپوریٹ  سیکٹر  سے واپس لی جانے والی مراعات کو فنانس بل کا حصہ بنا دیا گیا ہے، فوڈ آئٹمز پرٹیکس واپس لے لئے گئے  ہیں۔ آٹے اور منسلک آئٹمز پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ پولٹری فیڈ پر ٹیکس 17 سے کم کرکے 10فیصد کردیا ہے۔سونے اور چاندی پر ٹیکس 17 سے کم کرکے 7اور3فیصد کیا گیا ہے اور موبائل فون پر 5منٹ سے زائد کال پر 75پیسے ٹیکس لگایا ہے۔زرعی مشینری پر ٹیکس کم کر دیا گیا ہے۔پراپرٹی پرٹیکس کی شرح 35 سے20 فیصد کردی گئی ہے۔ٹیلی کمیونیکشن  پر ایکسائز ڈیوٹی کا ریٹ17سے16 فی صد کر دیا گیا،کار کے سیکٹر کی مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے،فنانس بل میں 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی معاف کردی گئی تھی تاہم ترمیمی فنانس بل میں اس رعایت کو 1000ہزا رسی سی تک کی گاڑی پر توسیع دے دی گئی ہے، اس کے علاوہ ایک ہزار ایک سے دو ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی پانچ فیصد سے کم کرکے ڈھائی فیصد اور 2001سی سی سے زائد قوت کی گاڑیوں پر فیڈل ایکسائز ڈیوٹی 7.5فیصد سے کم کرکے 5 فیصد کردی گئی ہے۔جوسز پر سے تمام فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ہٹا لی گئی ہے۔اسلام آباد سے سروسز کی برآمد کو زیرہ ریٹ کردیا گیا ہے۔آن لائن مارکیٹ پلیس میں غیر فعال ٹیکس پیئرز کو سپلائی پر دو فیصد ٹیکس ہوگا جو پرچون فروش ایف بی آر کے کمپیوٹر کے نظام سے منسلک نہیں ہوں گے، ان کے لیے، ’’ان پٹ ڈس الاؤنس‘‘ کی شرح 15فیصد سے بڑھا کر 60فیصد کردی گئی ہے، پوٹاشیم کلورائڈ پر جی ایس ٹی کی شرح 17فیصد کے علاوہ 80روپے کے بجائے 90روپے سیلز ٹیکس لگے گا۔ چوکر پر سے 17فیصد جی ایس ٹی ختم کردیا گیا ہے۔ نابیناؤں کے استعمال میں آنے والا موبائل فون ٹیکس فری کردیا گیا ہے۔

مزیدخبریں