گورنر پنجاب سے بلیغ الرحمن سے پوچھا کہ پنجاب میں اسمبلی ایک ہے مگر اجلاس دو ہو رہے ہیں، کیا یہ کھلا تضاد نہیں، گورنر نے اپنی جیب سے موبائل نکالا اور کچھ لکھنا شروع کر دیا. پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے یہ میں نے گوگل سے آئین کا آرٹیکل 109 نکالا ہے جس میں واضح طور پر لکھا ہے گورنر کبھی بھی کہیں بھی کسی وقت بھی اسمبلی کا اجلاس منعقد کر سکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی پنجاب اسمبلی کے کئی اجلاس ہوٹلوں میں ہوتے رہے ہیں، اگر اپوزیشن آئین کی خلاف ورزی کرتی ہوئی اپنا الگ مجمع لگانا چاہتی ہے تو یہ ان کی مرضی ہے۔ ہم نے تو پاکستان کی عوام کی خاطر ایوان اقبال میں اجلاس بلایا ہے تا کہ وقت مقررہ پر بجٹ پیش کیا جا سکے اور عوام کی فلاح کے لئے کام کیا جا سکے. انور خان اور باقی ساتھیوں نے گورنر سے بھی سوالات کیے جن کے گورنر صاحب نے احسن طریقے سے جوابات دئیے۔ لالہ رخ گورنر پنجاب کی میڈیا ہیڈ کے طور پر کام کرتی ہیں، وہ ایک زیرک خاتون ہیں انھوں بہت عمدہ طریقے سے ہم سب مہمانوں کی خاطر تواضع کی۔
گورنر صاحب سے یہ ملاقات گزشتہ ہفتے میں ہوئی، اس دوران ملکی سیاست میں کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں، ملکی سیاست کا منظر گھمبیر ہوتا چلا جا رہا ہے، ایک طرف تو سیاسی جماعتیں پنجاب میں ضمنی انتخابات کی تیاری میں مصروف عمل ہیں تو دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر مخصوص نشستوں کی بحالی کا آرڈر جاری کر دیا ہے، ایک خبر کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں پر ارکان کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست منظور کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر کمیشن کو مخصوص نشستوں پرنوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پرنوٹیفکیشن جاری نہیں کررہا تھا جبکہ منحرف ارکان کوڈی سیٹ کرنے کے بعد الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری کرنے کا پابند ہے، جنرل سیٹ کے تناسب سے فہرست کے مطابق نوٹیفکیشن کیا جاتا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کی دی گئی فہرست بدل نہیں سکتا۔پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر کا کہنا ہے کہ ہم نے الیکشن کمیشن سے گزارش کی کہ اس پرنوٹیفکیشن جاری کریں، الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 20سیٹیں خالی ہوئی ہیں، اس لیے پارٹیوں کی کل نشستیں بھی بدلی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کا یہ موقف قانون کے مطابق نہیں۔پی ٹی آئی وکیل کے دلائل پر ایڈووکیٹ جنرل نے موقف اختیار کیا کہ مخصوص نشستوں پرنوٹیفکیشن جنرل الیکشن کے بعد ہوتا ہے، اب 20 نشستوں کی وجہ سے سیاسی جماعتوں کی پوزیشن بدل گئی ہے۔ عدالت نے پنجاب اسمبلی کی مخصوص نشستوں کا نوٹیفکیشن نہ کرنے کے خلاف درخواست منظور کرلی اور الیکشن کمیشن کو مخصوص نشستوں پرنوٹیفکیشن جاری کرنے کی ہدایت کردی ہے۔ بیرسٹر علی ظفر کے مطابق ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد پنجاب اسمبلی میں اب پاکستان تحریک انصاف کی اکثریت ہے اس لئے حمزہ شہباز کو اعتماد کا ووٹ لینا پڑے گا یا پھر عدالت ان کا الیکشن ہی کالعدم قرار دے سکتی ہے اور اگر الیکشن کالعدم قرار دے دیا جائے تو پرویزالٰہی کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات ہیں ، الیکشن کمیشن کو ہر صورت ہائیکورٹ کافیصلہ ماننا چاہیے۔دوسری طرف ماہرین کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد بھی صوبائی اسمبلی میں حکومتی اتحاد کے نمبر گیم پورے ہیں ،ن لیگ کے حکومتی اتحادکے ووٹوں کی تعداد 175ہے جبکہ پی ٹی آئی کو 5 مخصوص نشستیں مل بھی جائیں تو بھی اپوزیشن اتحادکی تعداد173 بنتی ہے اور اس طرح حکومتی اتحاد کو اپوزیشن پر 2 ووٹوں کی برتری حاصل رہے گی. اب پنجاب کی سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ لاہور ہائی کورٹ کا ایک اور فیصلہ طے کرے گا جو آج سنایا جائے گا۔
یار لوگوں کے مطابق پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کو چلنے دیا جائے گا کیونکہ اگر پنجاب حکومت ڈگمگائی تو اسکا اثر وفاق پر بھی پڑے گا. اور ملک ابھی کسی نئے تجربے کا متحمل نہیں. . مگر دوسری طرف سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں ہار کے بعد حکومتی اتحادی جمعیت علمائے اسلام، پاکستان پیپلز پارٹی سے نالاں ہے جبکہ قومی اسمبلی میں اسلم بھوتانی نے حکومتی رویے کا پول کھول کر اس بات کی شنید دی ہے کہ حکومت بس دو ووٹوں پر کھڑی ہے. پاکستانی سیاست کا منظر نامہ ایک ایسے گرداب میں پھنسا ہوا ہے جس سے نکلنے کے لئے واحد حل نئے انتخابات ہیں۔ملک میں ایک غیر یقینی کی صورتحال ہے. ملکی بقا کی خاطر تمام اداروں اور سیاست دانوں کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے کہ کیسے اس غیر یقینی کی صورتحال سے باہر نکلا جا سکے اور مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور غربت جیسے حقیقی مسائل سے نبرد آزما ہوا جا سکے۔