وزیر اعظم نے فرمایا ہے کہ معاشی ترقی کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ مطلب یہ کہ معاشی ترقی کیلئے پھر آپ کی طرف سے ’’ناں‘‘ ہی سمجھا جائے کہ سیاسی استحکام تو حقیقی آزادی بشمول امریکی سازش والی جماعت ہونے ہی نہیں دے گی اور جب سیاسی استحکام کوئی ہونے ہی نہیں دے گا تو معاشی استحکام کو سہانا خواب سمجھ کر بھول جائے گا۔اس کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ حقیقی آزادی بشمول امریکی سازش عوامی سطح پر اتنے طاقتور نہیں کہ سیاسی استحکام کی اینٹ سے اینٹ بجا دے لیکن وہ بجا رہے ہیں، مطلب یہ کہ عوامی نہ سہی، خواصی سطح پر ان کے کلّے مضبوط ہیں۔
برسبیل تذکرہ ، پاکستان میں سیاسی استحکام آیا ہی کب تھا؟۔ ہاں، سقوط ڈھاکہ کے بعد سے شملہ معاہدے کے بیچ کا زمانہ سیاسی استحکام کا تھا۔ سقوط ڈھاکہ کے فوراً بعد جو سیاسی استحکام آیا وہ اتنا ’’شدید‘‘ تھا کہ سیاسی جمود بلکہ انجماد کی فضا لگتا تھا۔ دسمبر 1971ء سے جولائی 1972ء کا یہ ڈیڑھ سال کا عرصہ سیاسی استحکام کا تھا اس کے فوراً بعد اس دور کے حقیقی آزادی والے سرگرم ہو گئے تب سے لے کر اب تک کا سارا عرصہ آپا دھاپی اور دھوم دھڑاکی سے عبارت ہے اور اس دھوم ھڑاکی میں تب سے مزید اضافہ ہوا جب ’’امریکی سازش‘‘ کے تحت عمران حکومت ختم ہوئی اور وہ خطرناک سے خطرے ناک ہو گئے۔
……………
موجودہ حکومت نے غالباً دو اڑھائی ہفتے پہلے یہ حکم واشگاف انداز میں جاری کیا تھا کہ لوڈشیڈنگ دو گھنٹے سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ اس ’’دبنگ حکم نامے‘‘ کے اڑھائی ماہ بعد کی صورتحال یہ ہے کہ اکثر علاقوں میں 14 گھنٹے اور بعض میں اس سے بھی زیادہ کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ سنا ہے کچھ علاقوں میں لوڈشیڈنگ بہت کم ہو رہی ہے۔ ممکن ہے اوسط نکالا جائے تو وہ دو گھنٹے کا ہی نکلے لیکن مشکل ہے کہ ایسا اوسط نکلے۔
کہا جاتا ہے کہ لوڈشیڈنگ اس لئے ہے کہ عمران حکومت 42 سو ارب کا گردشی قرضہ چھوڑ گئی اور ایل این جی ایندھن وغیرہ کے مسائل کو اس طرح ابتر کر کے ،الجھا کے گئی کہ اب سلجھانے کے لیے ڈور کا سرا ہاتھ میں ہی نہیں آ رہا۔ قطر کو ناراض کیا اور چین کو بھی۔ ناراض تو سعودی عرب کو بھی کیا لیکن اسے سلجھانے میں کچھ کامیابی ملی ہے لیکن لوڈشیڈنگ کا تعلق جس ایندھن سے ہے وہ سعودی عرب سے ہٹ کر ہے۔
مزے کا بیان عمران خاں کی طرف سے آیا ہے۔ فرمایا کہ ہمارے دور میں لوڈشیڈنگ تھی ہی نہیں۔ بجا۔لیکن آپ کو یہ صفر لوڈشیڈنگ ورثے میں ملی۔ آپ سے پہلے جو چور ڈاکو اور غدار حکمران تھے (اور جواب پھر جزوی طور پر، بقول شخصے برائے تہمت پھر سے حکمران ہیں) لوڈشیڈنگ انہوں نے ختم کی اور اس کا پھل ساڑھے تین سال آپ نے کھایا پھر یہ پرایا ’’جرم‘‘ اپنے نام لکھوایا۔ جانے سے ذرا پہلے آپ نے مطلوبہ ایندھن کا آرڈر ہی نہیں دیا (بھول گئے ملاقات) اور قطر سے معاملات خراب کئے (نادانستگی میں ہو گئے ہوں گے) ۔ اور اب جو ہو رہا ہے، یہ سب آپ کا دیا ہوا ہے۔ آپ کی کرم فرمائی کا تمام ملک ممنون احسان ہے۔
……………
سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے وزیر اعظم کے بیان پر پی ٹی آئی کے رہنما فواد چودھری نے دلچسپ بیان دیا ہے۔ فرمایا، سیاسی استحکام بیٹے کو وزیر اعلیٰ بنانے سے نہیں آتا۔
برجستہ طنز ہے لیکن محترم، آپ حکمران پارٹی کی مجبوری بھی تو سمجھیں۔ وہ اب وزیر اعلیٰ بنانے کیلئے عثمان بزدار کہاں سے لائے۔
……………
عثمان بزدار کے حوالے سے بھی خبر آ گئی۔ ان کے ایک بڑے فرنٹ مین کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ الزامات کچھ ایسے ہیں کہ طلسم ہوشربا کا گمان ہوتا ہے اور اطلاع ہے کہ بزدار کا گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور کسی بھی وقت وہ ’’کڑکی‘‘ میں آ جائیں گے لیکن عثمان بزدار کا نام کوئی تنہا تھوڑا ہی آنا ہے۔ اب میرا نام بھی آگے گا تیرے نام کے ساتھ سے بھی آگے کا ماجرا ہے۔ کوئی فرح خاں ہیں، ان کا نام بھی سننے میں آیا ہے کچھ معزز افراد ایسے ہیں کہ نام کے ساتھ مانیکا بھی لگتا ہے اور گوجر بھی۔ بہت بڑے پاور ہائوس اور زبردست ترسیلی نظام قائم تھے۔ ایسا ہر طرف سے سن رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ کھوج کا دائرہ بہت وسیع ہے اور بہت کچھ ہونے والا ہے۔
بہت کچھ ہونے والا ہے جس کے آخر میں یہ معلوم ہوگا کہ کچھ بھی نہیں ہو گا،اللہ سب کی خیر کرے گا۔ اس ملک میں نہ جانے کب سے ایسا بہت کچھ ہوتا رہتا ہے جس کے آخر میں کچھ نہ ہونے کا تصحیح نامہ لگا ہوتا ہے۔ بزدار صاحب کو خوشخبری ہو کہ اپنے تین سالہ دور میں انہوں نے جو نصف درجن کے لگ بھگ ’’ننھّے منّے آشیانے‘‘ ملتان تونسہ لاہور ڈی جی خاں میں بنائے ہیں، بالآخر وہ قائم رہیں گے اور انہی کے پاس رہیں گے۔
……………
جو کچھ بھی ہوتا ہے اور جس کے آخر میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، اس کی تشریح ’’برطرف ترجمان‘‘ شیخ رشید نے گزشتہ روز اپنی تقریر غیر دلپذیر میں کی۔ فرمایا، ہمارے ہاں جو کرپشن کے بڑے بڑے مقدمات بنتے ہیں، ان کا مطلب کرپشن پر کارروائی کرنا نہیں ہوتا، بلکہ زیر مقدمہ افرادکو استعمال کرنا ہوتا ہے۔ ارے یہ چودھری برادران کس موقع پر بے موقع یاد آ گئے۔ خیر، چھوڑئیے ان کے ذکر کو۔ شیح صاحب کے ’’یونیورسل ٹروتھ‘‘ کو داد دیجئے۔ ایسے سچ شیخ صاحب پہلے کبھی نہیں بولتے تھے، اب کیا ہوا کہ ناگفتی زیر گفتن آ گئی۔ اللہ خیر کرے۔
……………
خبر چھپی ہے کہ ملک کی عظیم ترین روحانی شخصیت اور درویش صفت ہستی نے توشہ خانے میں آنے والی تین قیمتی گھڑیاں ساڑھے پانچ کروڑ میں بیچ دیں۔ یہ تین گھڑیاں ان تین گھڑیوں اور ہار سے الگ ہیں جن کو بارہ پندرہ کروڑ میں بیچا گیا تھا۔ خبر کے مطابق یہ گھڑیاں توشہ خانے پہنچ ہی نہیں پائی تھیں، بیچ راستے ہی سے انہیں بیچ کر دام کھرے کر لئے گئے۔
اعتراض کی اس میں کوئی بات ہی نہیں، اتنے مہنگے ہیروں کے ہار اور اتنی گراں قیمت گھڑیوں کا درویش کے گھر کیا کام۔ درویش صفت روحانی شخصیت نے درویش کی لاج رکھی اور یہ حقیر متاعِ دنیا گھر سے نکال پھینکی۔عوضا نے میں کیا پایا، کاغذ کے بے جان نوٹؒؒ۔ بے جان نوٹ بھی گھر میں کہاں رکھے، کسی بنک میں جمع کرا کے جان چھڑا لی گئی۔
درویش ہستیاں مال و دولت سے کس طرح بھاگتی ہیں، اس کی ایک روشن مثال سامنے آ گئی۔
……………
سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے موقع پر ایک ایم پی اے کے بیٹے نے خاتون افسر کے ساتھ بدتمیزی کی۔ ایک اور بااثر وڈیرے نے پولنگ افسر کو تھپڑ رسید کر دیا۔ الیکشن کمشن نے حکام سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔
حیرت کی بات ہے، یہ معاملہ کب سے رپورٹ طلب ہو گیا۔ ایم پی اے کے بیٹے کا اتنا استحقاق تو بنتا ہے کہ کسی سے بدتمیزی کر کے اس کی مزاج پرسی کر سکے۔ بااثر شخص پھر کہاں کا بااثر جو کسی کو تھپڑ بھی رسید نہ کر سکے۔ یہاں تو ایس ایچ اوز کے بھائی بھتیجے لوگوں کی مزاج پرسی کرنے گھروں میں گھس جاتے ہیں اور نظریہ ضرورت کے تحت ایک آدھ کو ملک عدم بھی روانہ کر دیتے ہیں۔
وڈیرے اور مملکت لازم و ملزوم ہیں۔ شہروں اور شہری علاقوں سے روایتی وڈیرہ شاہی ختم یا کمزور ہوئی تو اس کی جگہ شہری جاگیرداری نے لے لی۔ اب سیاستدان، ارکان اسمبلی، سول بیوروکریسی کے سینئر افسر، پراپرٹی کے چھوٹے بڑے ٹائیکون ملا کر یہ ’’اربن فیوڈل ڈم‘‘ بناتے ہیں جو روایتی جاگیرداری سے کہیں زیادہ استحقاق رکھتی ہے۔
اس استحقاق کا احترام سب پر واجب ہے! ورنہ ملک کا کیا ہو گا۔