سری لنکا کی صورتحال پاکستان میں اضطراب کیوں؟

Jun 30, 2022

قوم کو اس بات کا علم ہے کہ کئی آئی پی پیز مالکان ایسے ہیں جن سے وزیراعظم  کے ذاتی تعلقات ہیں اس لئے وہ ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ان سے بہت بڑی ریلیف لے سکتے ہیں۔ بجلی کے گردشی قرضوں پر سب سے پہلے بات ہونی چاہئے کہ یہ 2013ء میں 503 ارب تھے جو 8 سالوں میں تقریباً 5 گنا بڑھ کر 2500 ارب ہو چکے ہیں یہ ایک حقیقت ہے کہ غیرملکی قرضے اور گردشی قرضے اس ملک کیلئے پھندا بن چکے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں یقیناً یہ ہماری غفلت‘کوتاہی‘ نالائقی‘ ناقص منصوبہ بندی اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے جس کی سزا پوری قوم بھگت رہی ہے۔ہمیں اب اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کرنی ہے ہمیں پاکستان کو ہر صورت میں سری لنکا بننے سے بچانا ہے۔ 
عوام کو ہر وقت ’’قربانی کا بکرا‘‘ بنانے کی بجائے اب حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عملی طور پر قربانیاں دینی ہو گی۔ صنعتکاروں اور تاجروں کو توانائی کی بچت کرنے کیلئے حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔ تمام سرکاری تقریبات جلسے ، جلوسوں اور انتخابی مہم پر خرچ ہونے والے اربوں کھربوں روپے کو بچانا ہو گا ملکی پیداوار اور برآمدات کو بڑھانے کیلئے عملی اقدامات کرنے ہونگے، زرمبادلہ کو بچانے کیلئے درآمدات میں ہنگامی بنیادوں پر کمی کرنا ہوگی سمگلنگ کا خاتمہ اور مینوفیکچرنگ کے شعبے کو ترقی دینا ہو گی۔ پہاڑوں، صحرائوں ، میدانوں، سمندروں میں موجود چُھپے ہوئے قدرت کے خزانوں کو دریافت کرنا ہو گا۔ معدنیات، زراعت، صنعت ، سیاحت ، سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور انسانی وسائل کے بھرپور استعمال کیلئے قابلِ عمل پالیسیاں بنانا ہونگی۔ اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ ملکی مفادات کے لیے سیاسی اختلافات کو بُھلا کر حکومت کے ساتھ میثاق معیشت کرے تاکہ سب ملکر اس پیارے وطن کو سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے سے بچا سکے۔ آنے والے طوفان کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ درآمدات میں ریکارڈ اضافے سے توازنِ تجارت بگڑ چکا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو چکے ہیں مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے کس قدر دکھ کی بات ہے کہ کاغذ کی قیمتیں دگنی ہونے کی وجہ سے درسی کتب تک بھی نہیں چھپ سکیں۔ پٹرولیم مصنوعات بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے عوام کے ساتھ ساتھ پیداواری اور برآمدی شعبہ بُری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ ہمارے پیداواری اخراجات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ہم عالمی منڈیوں میں دنیا کا مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہے یہ بات افسوسناک ہے کہ ہم بدحال معیشت اور صنعت و تجارت کے باوجود آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر مزید ٹیکس لگانے کے چکروں میںہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے زراعت کو پہلے ہی تباہ کر چکے ہیں جبکہ مزید تباہی زرخیز زرعی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیاں بنا کر کر رہے ہیں۔ 
سری لنکا کی صورتحال یہ ہے کہ ان کے پاس پٹرول خریدنے کیلئے ڈالر نہیں ہیں جس کی وجہ سے وہاں کے عوام شدید بحران کی زد میں ہیں ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ڈالر کے ذخائر کو خطرناک حد تک نیچے لے جا چکے ہیں۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی درآمدات ہمارے ڈالرز کے ذخائر کو ٹڈی دل کی طرح چٹ کر رہی ہیں۔ انتظامی، مالی، معاشی، تجارتی اور اقتصادی طور پر ہم کلین بولڈ ہو چکے ہیں لیکن ہمارے حکمران، وزراء اور اُن کے ترجمان ’’سب اچھا ہے‘‘ کے راگ الاپ رہے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں نے ہمیشہ دوسروں کو بچت اور محنت کرنے کا درس دیا ہے لیکن ان کے قول و فعل کے تضاد نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ 50 سے زائد کی کابینہ ، ان کے اخراجات، مراعات ، تنخواہوں کے علاوہ اربوں روپے ان کے شاہی پروٹوکول پر خرچ ہو رہے ہیں ان کو پٹرول تو شاہی خزانے سے مفت مل جاتا ہے انہیں عوام کی مشکلات سے کیا غرض؟ یہی وجہ ہے کہ چند ہفتوں کے دوران عوام پر 3 مرتبہ پٹرول بم گرانے کے بعد چوتھی مرتبہ پھر پٹرول بم گرانے کی سری بھیجی جا چکی ہے اور امکان یہی ہے کہ اس کالم کے چھپنے سے پہلے پٹرول ڈیزل مٹی کا تیل اور بجلی کے بم عوام پر گر چکے ہوں گے۔ حکومت ہر وقت اپنی نالائقیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے بے چارے عوام کو قربانی کا بکرا بنا دیتی ہے۔
 اگر ہم نے سری لنکا جیسی صورتحال سے بچنا ہے تو پھر حکمرانوں، اپوزیشن سمیت تمام سیاسی رہنمائوں کو عملاً جدوجہد کرنا ہو گی۔ ہم سب کو ہر صورت میں دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت کو ہر طرح کے معاشی اور مالی بحران سے محفوظ کرنا ہے اس مقصد کے حصول کیلئے ہمیں اتحاد و اتفاق کے ساتھ عزم، ہمت، خودداری، جرأت ، حوصلے اور تدبر کے ساتھ دن رات محنت کرنا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ مقاصد میں یقینا کامیابی عطاء کریں گے۔ (انشاء اللہ)  …… (ختم شد) 

مزیدخبریں