چوہدری شاہد اجمل
chohdary2005@gmail.com
روس اور یو کرین کے درمیان ہو نے والی جنگ کے اثرات سے جہاں پوریی دنیا توانائی کے بحران سے دوچار ہے وہاں پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک اس جنگ سے سب سے زیادہ توانائی کے شعبے میں متاثر ہو رہا ہے ،جون جولائی اور اگست وہ مہینے ہیں پاکستان میں بجلی کی طلب سب سے زیادہ ہو تی ہے ، یوکرین پر روسی حملے سے پیدا ہونے والے توانائی کے بحران کے باعث عالمی ایندھن کے ذخائر پر دبائو پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے یورپی ممالک نے بڑے پیمانے پر گیس کی خریداری شروع کر دی ہے۔پاکستان ان یورپی ممالک کی قوت خرید کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو ایندھن کے عالمی ذخائر کے ممکنہ صارفین اور خریدار ہیں، جس کی پاکستان کو بھی اشد ضرورت ہے۔پاکستان کی مائع قدرتی گیس(ایل این جی)خریدنے میں ناکامی نے حکام کو بجلی کی پیداوار کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب توجہ دی جا رہی ہے ۔تاہم اس کے حصول میں ایک ماہ یا اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ یوکرین کے ساتھ جنگ کی وجہ سے روس سے گیس کی سپلائی معطل ہے اس لیے یورپی ممالک بھی ہر جگہ سے گیس خرید رہے ہیں جس کے نتیجے میں ڈھائی سال پہلے 4ڈالر میں ملنے والی ایل این جی اب 40ڈالر میں بھی دستیاب نہیں ۔ جون سے ستمبر تک حکومت نے ابتدائی طور پر پاور سیکٹر کی طلب کو پورا کرنے کے لیے ہر ماہ زیادہ سے زیادہ 12ایل این جی کارگوز کا بندوبست کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جو اب پاکستان کی قوت خرید سے باہر ہو چکے ہیں، ایل این جی کے علاوہ پی ایس او فرنس آئل بھی درآمد کر رہا ہے جس سے اس کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔16جون کو چار کارگوز کے لیے ٹینڈر جاری کر نے کے بعد بولیاں بغیر کھولے واپس کر دی گئیں۔ملک میں گیس کے ذخائر میں سالانہ 200ایم ایم سی ایف ڈی کمی ہو رہی ہے اور موجودہ 3663ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے ذخائر کم ہو کر 2030تک1659ایم ایم سی ایف ڈی رہ جائیں گے،2030میں گیس کی طلب 5643سے بڑھ کر 7049ایم ایم سی ایف ڈی ہو جائے گی جو انتہائی الارمنگ صورتحال ہو گی اس لیے فوری طور پر آنے والے حالات کے لیے پیشگی اقدامات اٹھا نا ہو ں گے ۔
پاکستان ایل این جی لمیٹیڈ نے 16جون کو چار کارگوز کے لیے ایک ٹینڈر جاری کیا، جس میں پہلے اور دوسرے ہفتے کیلئے ایک، ایک کارگو اور دو جولائی کے آخری ہفتے کے لیے دو کارگو طلب کئے گئے۔جولائی کے پہلے ہفتے میں پی ایل ایل کی طرف سے ایل این جی کارگو رکھنے کی یہ تیسری کوشش تھی۔
پاکستان نے 2015 میں ایل این جی کی درآمد شروع کرنے کے بعد سے اب تک کی سب سے زیادہ بولی نومبر2021میں 30.65ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو کی لگائی تھی۔ سستے طویل مدتی معاہدوں سے آنے والے کارگوز کی ایک بڑی اکثریت کے باوجود پاکستان میں ایل این جی کی قیمتیں حالیہ مہینوں میں پہلے ہی 40فیصد بڑھ کر 22-24ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تک پہنچ چکی ہیں۔ اسپاٹ کارگوز کے ایک سلسلے کو نئی اتحادی حکومت نے منصب سنبھالنے کے پہلے ہی مہینے طلب کر لیا تھا۔کوئلے اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر ایل این جی کے نرخوں سے بجلی کے ایندھن کی قیمتوں میں 100فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ واپڈا کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں(ڈسکوز)کی طرف سے 7.95 روپے فی یونٹ اور کے الیکٹرک لمیٹیڈ کی جانب سے اگلے مہینے 11.38روپے فی یونٹ اضافی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔پاکستان کے قطر کے ساتھ دو طویل المدتی معاہدے ہیں، ایک میں ماہانہ 6 کارگو شامل ہیں جن میں برینٹ کے 13.37فیصد پر مسلم لیگ(ن) کی سابق حکومت نے دستخط کیے تھے ۔ دو ماہانہ کارگوز جس پر پی ٹی آئی حکومت نے برینٹ کے 10.2فیصد پر معاہدہ کیا تھا، مہینے میں باقی چار کارگو زیادہ تر اسپاٹ ٹینڈر کے ذریعے ترتیب دیے جاتے ہیں۔سرکاری طور پر چلنے والے ایل این جی درآمد کنندگان پی ایس او اور پی ایل ایل مہنگی درآمدات کے لئے بھی آمادہ ہوں گے کیونکہ وہ بالترتیب 3.22فیصد اور 3فیصد کی شرح سے منافع کماتے ہیں، جو ظاہر ہے کہ زیادہ درآمدی قیمتوں کے ساتھ بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان حالیہ مہینوں میں روزانہ تین سے سات گھنٹے تک بجلی کی بندش کی لپیٹ میں ہے، پچھلی حکومت نے زیادہ قیمتوں کے درمیان اسپاٹ ایل این جی ٹینڈرز کا آرڈر دینے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جبکہ بین الاقوامی منڈی میں اتار چڑھا ؤکی وجہ سے طویل مدتی سپلائرز سردیوں میں تقریبا ایک درجن بار ڈیفالٹ ہوئے۔ حکام ایل این جی کے فرق کو پورا کرنے کے لیے فرنس آئل کا بندوبست کرنے کے لیے بھی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس کی اضافی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی لاگت اس قیمت سے دگنی زیادہ ہے جس کا حوالہ دیا گیا ہے۔یومیہ 900ملین مکعب فٹ تک پاور سیکٹر کی مانگ کے برخلاف گیس کمپنیوں کو نصف کو بھی پورا کرنے کے حوالے سے جدوجہد کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملک بھر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے، یہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پی ایس او کی وصولی 600ارب روپے سے تجاوز کر چکی ہے اور پٹرولیم ڈویژن نے لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے کے لیے ایندھن کی درآمدات کے حوالے سے بتایا کہ اگلے مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے لیے تقریبا 19کھرب 80ارب روپے کی مجموعی لیکویڈیٹی کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ابتدائی طور پر پاور سیکٹر کی طلب کو پورا کرنے کے لیے جون سے ستمبر تک ہر ماہ زیادہ سے زیادہ 12 ایل این جی کارگوز کا بندوبست کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ روس یوکرین جنگ اور عالمی طلب و رسد کے محرکات کی وجہ سے اسپاٹ ایل این جی کارگوز کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جس سے یہ پاکستان کی قوت خرید سے باہر ہو چکے ہیں۔ ایل این جی کے علاوہ پی ایس او فرنس آئل بھی درآمد کر رہا ہے جس سے اس کی مالی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔پی ایس او اور پی ایل ایل نے موسم گرما کے مہینوں کے دوران اپنی لیکویڈیٹی کی ضروریات پیش کی ہیں۔ جس کے تحت پاکستان اسٹیٹ آئل کو ایل این جی اور فرنس آئل دونوں کی مد 17کھرب روپے کی ضرورت ہے۔دوسری جانب پی ایل ایل نے چار ماہ کے لیے کل 278ارب روپے مانگے ہیں جن میں رواں ماہ کے 98ارب روپے، جولائی میں 44ارب روپے، اگست میں 80ارب روپے اور ستمبر کے 56ارب روپے شامل ہیں۔
ملک میں گیس کے ذخائر میں سالانہ 200ایم ایم سی ایف ڈی کمی واقع ہو رہی ہے اور موجودہ 3663ایم ایم سی ایف ڈی گیس کے ذخائر کم ہو کر 2030تک1659ایم ایم سی ایف ڈی رہ جائیں گے،2030میں گیس کی طلب 5643 سے بڑھ کر 7049ایم ایم سی ایف ڈی ہو جائے گی جو انتہائی الارمنگ صورتحال ہو گی اس لیے آنے والے دنوں کے لیے پیشگی اقدامات اٹھا نا ہو ں گے۔ سرکاری اعداو شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں گیس کے ذخائر سے 3663ایم ایم سی ایف ڈی گیس سسٹم میں شامل ہو رہی ہے جوکم ہوکر2030تک 1659ایم ایم سی ایف ڈی رہ جائے گی۔
اس وقت ملک میں گیس کی مجموعی طلب 5643ایم ایم سی ایف ڈی ہے اور 2030تک بڑھ کر7049ایم ایم سی ایف ڈی ہو جائے گی۔دستاویز کے مطابق یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ 2030تک ایل این جی کی سپلائی میں معمولی اضافہ ہو گا اس وقت 1200ایم ایم سی ایف ڈی ایل این جی سپلائی کی جا رہی ہے ،2030تک ایل این جی کی سپلائی 1800ایم ایم سی ایف ڈی ہو جائے گی ۔دستاویز میں بتایا گیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں 980ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی کمی ہے جس میں ہر سال اضافہ ہو گا۔
اور2030میں 3590ایم ایم سی ایف ڈی تک اضافہ ہو جائے گا جو ملک کے لیے ایک الارمنگ صورتحال ہے۔
ادھرملک میںیکم جو لائی سے پہلے مرحلے میں ساڑھے تین روپے فی یونٹ اضافہ کیا گیا ہے ،ذرائع پاور ڈویژن کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافہ بنیادی ٹیرف پر کیا جائے گا۔یکم جولائی سے فی یونٹ بجلی 3روپے 50پیسے مہنگی ہوجائے گی اور بجلی کا فی یونٹ 16روپے 91پیسے سے بڑھ کر 20روپے 41پیسے ہوجائے گا۔یہی نہیں بلکہ یکم اگست سے فی یونٹ بجلی مزید ساڑھے 3روپے مہنگی ہوجائے گی اور بنیادی ٹیرف بڑھ کر 23روپے 91پیسے فی یونٹ ہوجائے گا۔ یکم اکتوبر سے بجلی ٹیرف میں مزید 91پیسے فی یونٹ اضافہ کیا جائے گا اور پھر بجلی کا فی یونٹ بڑھ کر 24روپے 82پیسے ہوجائے گا۔ تاہم ماہانہ 200یونٹ یا اس سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین پر اضافے کا اطلاق نہیں ہوگا،وزیر مملکت برائے پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ پاکستان ان یورپی ممالک کی قوت خرید کا مقابلہ نہیں کر سکتا جو ایندھن کے عالمی ذخائر کے صارفین اور خریدار ہیں۔ پھر بھی ملک میں بجلی کی پیداوار کے لیے مائع قدرتی گیس(ایل این جی) کے علاوہ توانائی کے متبادل ذرائع بروئے کار لائے جائیں گے جس کے نتائج آنے میں ایک ماہ یا اس سے زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔