دعا اور دوا میں توازن

خْداوندِ قْدوس نے انسانی جسم کو جس کاریگری اور ہنرمندی سے تخلیق کیا ہے، وہ قابلِ داد بھی ہے اور قابلِ غور بھی۔ اگر اِس عملِ آفرینش پر گہرائی سے غور کیا جائے، تنقیدی نقطہ نظر سے جانچا جائے اور عقلی معیار سے پرکھا جائے تو کہیں بھی نہ کوئی کمی بیشی نظر آتی ہے اور نہ ہی کسی خلا کا سراغ ملتا ہے۔ 
انسان کی ایجاد کردہ ہر سائنسی اِختِراع میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت اور تبدیلیاں آتی رہتی ہیں مگر قدرت کا تخلیق شدہ انسان اْنہی اعضائے رئیسہ اور حواسِ خمسہ کے ساتھ اْتنی ہی خوبصورتی، رعنائی اور جاذبیت کے ساتھ موجود ہے، جتنا اپنی تخلیق کے وقت تھا۔ 
حیاتیاتی ارتقا کے بارے میں تحقیق کرنے والے ڈورسا نے انسانی جسم کو قدرتی تاریخ کا عجائب گھر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی جسم میں چھ چیزیں ایسی ہیں جن کا اب عام زندگی میں کوئی استعمال نہ ہونے کے برابر ہے: پیڑ پر چڑھنے میں مدد کرنے والے پٹھے، کان کے پٹھے، ٹیل بون یا دم کی ہڈی، آنکھ میں تیسری پلک، رونگٹے کھڑے ہونا اور نو عمروں کا ہاتھ پکڑنا۔ اِس تحقیق پر سوال جنم لیتا ہے کہ اگر ان حصوں کی کوئی خاص ضرورت باقی نہیں رہی تو پھر کئی لوگوں میں آج بھی یہ پٹھے اور ہڈیاں کیوں موجود ہیں؟ اِس کا جواب ڈورسا نے یوں دیا ہے، ’’حیاتیاتی ارتقا کی رفتار سست ہے، اس لیے ایسے اعضا کو پوری طرح ختم ہونے میں وقت لگ سکتا ہے‘‘۔ 
زمانے کی سْبک رفتار ترقی کے باوجود محققین یہ دعویٰ نہیں کر سکے کہ انسانی دماغ کھوپڑی کی بجائے ٹخنوں میں ہوتا تو بہتر کام کرتا، دانت منہ کی بجائے معدے میں ہوتے تو ہاضمہ زیادہ ٹھیک رہتا۔ زبان ماس کی بجائے ہڈی ہوتی تو زیادہ موثر انداز میں چلتی، کان کہنیوں کے ساتھ پیوست ہوتے تو زیادہ موزوں طریقے سے سن سکتے یا ایک آنکھ سر کے پیچھے ہوتی تو دیکھنے کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا، وغیرہ وغیرہ۔ اللہ کی طرف سے عطا کردہ انسانی اعضائے بدن اِس قدر باہم مربوط ہیں کہ منکرینِ خدا بھی اِس جسمِ کامل پر کوئی اعتراض نہیں کر سکے۔ 
اْدھر خدا کو ماننے والے بھی لاتعداد مذاہب میں منقسم ہیں اور ہر مذہب کو فرقہ واریت نے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ اِس گہری تقسیم کی وجہ سے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ کے پیروکار برسوں آپس میں برسرِ پیکار رہے۔ ہندوازم برہمن، کشتری، ویش اور شودر میں بٹا ہوا ہے۔ یہودی مذہب میں بھی یہ تقسیم پائی جاتی ہے۔ عصرِ حاضر میں اسلام کے نام لیوا فرقہ واریت کے مضر اثرات کو سب سے زیادہ بھگت رہے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر فرقے اور مذہب کے ماننے والے یہی سمجھتے ہیں کہ صرف وہی حق پر ہیں۔ جارج کارلن کا کہنا ہے، ’’مجھے یقین دلایا گیا کہ میں صحیح مذہب یا فرقے میں پیدا ہوا ہوں، لیکِن جس چیز نے میرے یقین کو خراب کیا وہ یہ تھا کہ دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی میری طرح مطمئن تھے‘‘۔ 
کووڈ-19 نے بلا تفریق اتنی شدت سے یلغار کی کہ پوری دنیا دہل گئی۔ اْسکے نزدیک جمہوریت، بادشاہت اور آمریت کی کوئی تمیز تھی نہ ہی مذہبی اور جغرافیائی حدود کا لحاظ۔ چشمِ فلک نے ہر انسانی زاویہء نگاہ کو کرونا کے سامنے عاجز، بے بس اور روبہ زوال دیکھا۔ تمام ممالک میں مذہبی عبادت گاہیں بند کر دی گئی تھیں یا ہر دو بندوں کے درمیان کرونا پروٹوکول کے تحت فاصلہ رکھا جاتا تھا۔ 
یوں لگتا تھا جیسے کرونا کی بدولت قدرت نے انسانوں کو پارسائی کا رتبہ بخش دیا ہو۔ نائٹ کلب بند ہو گئے تھے۔ مے کدوں کی رونقیں ماند پڑ چکی تھیں۔ تھیٹر ویران ہو چکے تھے۔ فلمی دنیا اجڑ چکی تھی۔ کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر چڑھائی نہیں کر رہا تھا۔ پھونکوں سے ہر مصیبت، پریشانی اور بیماریوں کا علاج اور تنِ نیم مردہ میں جان ڈالنے کا دعویٰ کرنے والے زیرِ زمین چلے گئے تھے۔ تعویذ گنڈوں سے آفات کو بھگانے کا پرچار کرنے والے چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے تھے۔ 
 پاکستان میں قہوہ، ثنا مکی اور بھارت میں گئو موتر کی پکار آخر کار گنگ ہو گئی تھی۔ عقیدت مند اور حاجت مند موجود تھے مگر دم کرنے والا کوئی نظر نہیں آ رہا تھا۔ پیروکار اپنے پیشواؤں کی پھونکوں کو ترس رہے تھے مگر ان کی پھونکیں عالیشان محلوں میں ماسک کے پیچھے دبک کر رہ گئی تھیں۔ اِن رویوں سے عام لوگوں کی سوچ ضرور بدلی۔ علیحدہ علیحدہ خانوں میں بٹی دنیا اور مختلف مکتبہء فکر کے لوگ، جلد از جلد ویکسین تیار ہونے اور بیتابی سے اپنی شریانوں میں منتقل کرنے کے لئے ایک پیج پر موجود تھے۔ بالآخر مَشِیَّتِ ایزدی سے ویکسین تیار ہو کر مرحلہ وار انسانی خون میں اترنا شروع ہوئی تو اموات کا گراف تیزی سے نیچے کی طرف آنے لگا۔ 
زندگی دوبارہ اپنی پرانی ڈگر پر دوڑنے لگی۔ پھونکیں مارنے والوں نے اپنے آستانے دوبارہ سجا لئے، سادہ لوح اْن کا سابقہ رویہ بھول گئے، روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا، بھارت کشمیر ڈکار گیا اور اسرائیل نے غزہ میں درندگی اور سفاکی کی نئی تاریخ قلمبند کرنا شروع کر دی۔ دنیا میں امتِ مسلم پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا اور ہم دعائیں مانگتے ہی رہ گئے۔ 
حسرت رہی کہ ہماری نوجوان نسل کو مِنبَر و مِحراب سے پر جوش انداز میں کچھ اِس انداز میں دعوت دی جائے، ’’اے نوجوانانِ مسلم! اپنے دل و دماغ اور جوانیاں یہود و نصاریٰ سے بھی بڑھ کر معاشیات، سیاسیات، مذاہبِ عالم، میڈیکل، انجینئرنگ، آئی ٹی اور دفاع کی تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرکے عالمِ اسلام کو امریکی، روسی، بھارتی اور اسرائیلی جارحیت سے ہمیشہ کے لئے محفوظ بنا دو‘‘۔ فرض کریں کہ ایسی تبدیلی آتی ہے تو اِس سے اْن کے ماضی بعید میں نئی ایجادات کے استعمال کی راہ میں بے جا رکاوٹیں کھڑی کرکے امت مسلمہ کو صدیوں پیچھے دھکیلنے اور مشہور مسلم سائنسدانوں اور ریاضی دانوں سے روا رکھے گئے ناروا سلوک کے داغ بھی کسی حد تک دھل جائیں گے۔ 
عبادت گاہوں میں تواتر سے دہرائی جانے والی دعاؤں سے کووڈ-19 ختم نہیں ہو سکا تو اِن دعاؤں سے امریکہ، بھارت اور اسرائیل کیسے نیست و نابود ہو سکیں گے؟ غزہ کے معاملے پر کیا عالمِ اسلام کی شب و روز دعاؤں سے کوئی فرق پڑا؟ بالکل بھی نہیں … کیونکہ دعا کے ساتھ دوا بھی ضروری ہے کیونکہ امتِ مسلمہ کے دورِ عروج میں تکنیکی مہارت اور حربی حکمتِ عملی اغیار سے کہیں بہتر ہوا کرتی تھی۔ اب بھی کفار پر غالب آنے کا واحد حل یہی ہے کہ مسلم دنیا دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی پر دیگر ترقی یافتہ اقوام سے بھی بہتر دسترس حاصل کرے۔ وزارتِ اوقاف اِس سلسلے میں اوقاف کی مساجد کے آئمہ کو اِس امر کی طرف مائل اور قائل کرنے کی جانب پہلا قدم بڑھا سکے تو یہ ملک و قوم پر احسانِ عظیم ہوگا۔ 

ای پیپر دی نیشن