اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے کیس سے متعلق رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ دیا ہے۔ جسٹس اطہر نے خط میں کہا کہ تاثر دیا گیا کہ فیصل واوڈا اور مصطفیٰ کمال کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز میری شکایت پر کیا گیا۔ توہین عدالت کی کارروائی چلانے کیلئے کوئی شکایت دی نہ ہی کوئی رائے، 2017ء سے مجھے تضحیک آمیز مہم کا سامنا ہے۔ خط کے متن کے مطابق میرے خلاف جس قدر تضحیک آمیز اور جھوٹی مہم چلائی جائے کسی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی چلانے کی رائے نہیں رکھتا۔ توہین عدالت کی کارروائی کیلئے کوئی شکایت دائر کی نہ ہی مجھ سے کوئی مشاورت کی گئی تو ہین عدالت کے معاملے پر میرا مؤقف میرے عدالتی فیصلوں سے واضح ہے۔ علاوہ ازیں جسٹس اطہر نے سنی اتحاد کونسل کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ جسٹس اطہر نے کہا ہے کہ وکیل الیکشن کمشن کے دلائل کے بعد ووٹرز کی اہمیت اور حقوق پر اثرات سے متعلق سوالات اٹھ گئے۔ انتخابی عمل کی قانونی حیثیت سے متعلق سوالات جڑے اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت سپریم کورٹ فیصلے کی تشریح کی بنیاد پر نااہل ہوئی۔ بادی النظر میں سپریم کورٹ فیصلے کی تشریح غلط ہوئی، سپریم کورٹ فیصلے کا مقصد کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخابات سے باہر کرنا نہیں تھا۔ سپریم کورٹ فیصلے کی غلط تشریح سے بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے نکالا گیا۔ بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی عمل سے نکال کر ووٹرز کو بنیادی حق سے محروم کر دیا گیا۔ انتخابات سے قبل، دوران اور بعد میں کیا کیا شکایات تھیں؟ الیکشن کمشن مکمل ریکارڈ دے۔ مخصوص نشستوں کا کیس صرف نشستوں کا نہیں، یہ اصل سٹیک ہولڈرز یعنی ووٹرز کے بنیادی آئینی حقوق کا کیس ہے۔ الیکشن کمشن مطمئن کرے کہ عام انتخابات میں سب کو یکساں مواقع دے کر آئینی ذمے داری پوری کی۔ مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ اکیلے میں محض تکنیکی نقطے نکال کر نہیں کیا جا سکتا،،مخصوص نشستوں کا فیصلہ 8 فروری کے انتخابات کے تناظر میں کیا جاسکتا، الیکشن کمشن تحریری بیان دے کہ کیا پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنا قانونی عمل تھا؟ وکیل الیکشن کمشن نے کہا سپریم کورٹ فیصلے پر پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد حیثیت دی، الیکشن کمشن کے فیصلے ریکارڈ پر موجود ہیں اور واضح ہیں۔ بادی النظر میں صورتحال غیر معمولی تھی، نااہل ہونے والی سیاسی جماعت کے امیدوار اپنی حیثیت رکھنا چاہتے تھے۔ وکیل الیکشن کمشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو آزاد حیثیت دینے کا فیصلہ آر اوز پر ڈالنے کی کوشش کی۔ وکیل کے دلائل نے انتخابی عمل اور الیکشن کمشن کے کردار پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ الیکشن کمشن کی غلط تشریح کا اثر سیاسی جماعت، ووٹرز اور مخصوص نشستوں سے محروم رکھنے پر پڑا، گورننس، پالیسیاں، قانون سازی اور عوام کا اعتماد کا انحصار انتخابی عمل پر ہوتا ہے۔