منصف ہو اگر تم تو کب انصاف کرو گے 

Jun 30, 2024

گلزار ملک

گلزار ملک

 بجلی کے بلوں میں بھاری ٹیکسز اور ہر سو یونٹ کے بعد ریٹ بڑھا کر چارج کیے جانے کے حوالہ سے گزشتہ ہفتے ہمارا کالم تھا جس کا عنوان دو سو یونٹ سے اوپر لٹکتی تلوار نا منظور پر ہمیں بہت سارے صارفین بجلی کی طرف سے مختلف کمنٹس موصول ہوئے ہیں ہر کمنٹس میں شہری حکومت کو بد دعائیں اور راقم الحروف کو حکومت کے اس ظالمانہ اقدام پر لکھے گئے کالم پر شہریوں کی طرف سے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے پر خراج تحسین پیش کیا ہے اور اس ظالمانہ اقدام کو ختم کرنے کی درخواست کرتے رہے آپ یقین جانیں کہ ان بجلی کے بلوں نے لوگوں کی چیخیں نکال کے رکھ دی ہیں اس بڑھتی ہوئی مہنگائی کے دور میں لوگوں کو دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے میسر ہو رہی ہے اور وہاں پر حکومت کی عیش و عشرت ختم نہیں ہو رہی اور یہ لوگوں سے اس قدر زبردستی جگا ٹیکس وصول کر رہے ہیں۔ ایک ایک نام اور ایک ایک کمنٹس کا ذکر نہیں کیا جا سکتا۔
  لہذا ایک خط ہمیں ایک ریٹائرڈ سکول ٹیچر کا بذریعہ واٹس ایپ موصول ہوا ہے جس کا ذکر کرنا بہت ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ اس کمنٹس میں اس شخص نے جو کچھ لکھا ہے آپ جب اسے پڑھیں گے اس سے نہ صرف حکومتی ایوانوں میں ہلچل مچ جائے گی بلکہ میرے سمیت آپ کی روح خوش ہو جائے گی اب ان ظالموں کا راستہ روکنے کا وقت آگیا ہے اپنا حق لینے کے لئے پرامن احتجاج کا سوچیں اور اس وقت تک احتجاج کو ختم نہ کریں جب تک یہ بجلی کے بلوں پر بھاری ٹیکس اور یونٹس کے بڑھائے ہوئے ریٹس کو ختم نہیں کر دیتے اس مسئلہ پر پوری قوم کو متحد ہونا پڑے گا مجھے یقین ہے کہ آپ اگر اس بات پر عمل کر لیں تو یقینا ہم اپنا حق لے کر چھوڑیں گے ان شاء  اللہ وہ وقت دور نہیں ہے جب ہم سب اس مسئلہ پر سکھ کا سانس لیں گے۔
  سکول ٹیچر کا خط درج ذیل ہے جناب گلزار ملک صاحب صرف بجلی کے بلوں پر تیرہ (13) مختلف قسم کے ٹیکس اس وقت عوام ادا کر رہی ہے۔ ان ٹیکسز میں  انکم ٹیکس بھی  شامل ہے۔ اب آپ اسی انکم ٹیکس کو ہی لے لیجی?۔ آپ کوئی بھی خریداری کریں کسی بھی قسم کے بل سے لے کر ادویات کی خریداری پر آپ کو یہ ٹیکس تو لازماً دینا ہوگا خیال رہے اس میں کفن بھی شامل ہے کیونکہ جب آپ کپڑا خریدتے ہیں تو اس میں انکم ٹیکس شامل ہوتا ہے۔ ایک سرکاری ملازم کو جب تنخواہ ملتی ہے تو اس میں سے انکم ٹیکس منہا کرکے اسے تنخواہ دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والا سب سے  بڑا طبقہ ملازمین کا ہے۔ اعدادو شمار جو کچھ بتاتے ہیں حقیقت میں تنخواہ دار طبقہ اس سے کہیں زیادہ ٹیکس دیتا ہے اعدادو شمار کے مطابق یہ وہ ٹیکس ہے جو تنخواہ کی ادائیگی کے وقت ان سے وصول کیا جاتا ہے۔ جبکہ وہ مختلف اشیا کی خریداری کی مدات میں جو ٹیکس ادا کرتا ہے  وہ اس پر مستزاد ہے۔ صرف بجلی کے بلوں کو ہی نہ لیجئے، گیس ، فون وغیرہ کو بھی ذرا اس میں شامل کرلیجئے ۔ اب اس میں فکسڈ چارجز کا  اضافہ کیا جا رہا ہے۔ عوام کا جینا محال کیا جارہا ہے۔ پھر عوامی نفرت میں حکومت کے خلاف اضافہ نہیں ہوگا تو کیا محبت کی نسیم بہار چلے گی۔ پہلے ہی حزب اختلاف  اس حکومت پر فارم 47 کے حوالے سے الزامات کی بوچھاڑ کی ہوئی ہے۔ وہ تو بھلا ہو جسٹس عامر فاروق ، قاضی فائز عیسیٰ اور الیکشن کمیشن کا جو ان الزمات کے سامنے سدسکندری کی طرح سینا تانے کھڑے ہیں جبکہ آٹھ فروری کے عوامی فیصلے سے بچہ بچہ آگاہ ہے۔ خیر یہ ایک  الگ بحث اور ایک الگ سوال ہے۔ ہمارا فی الحال زیربحث مسئلہ ٹیکسز کی بھر مار ہے۔ اور یہی وہ مسئلہ ہے جس نے عوام کی نہ صرف قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ دوسرے الفاظ میں عوام کو مہنگائی کی چکی میں جھونک دیا ہے جہاں سے اس کا بچ نکلنا ممکن ہی نہیں رہا۔ موجودہ حکومت کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اپوزیشن بھی اس حوالے سے وہ کردار ادا نہیں کر رہی جو اس کا امتیاز ہوتا ہے۔ اپوزیشن کو ابھی اس گرداب سے نکلنے میں وقت لگے گا جس میں چند سٹیک ہولڈرز نے اسے دھکیل دیا ہے۔ ہاں ایک دھیمی دھیمی سی آواز جماعت اسلامی پاکستان کی جانب سے بلند ہونا شروع ہوئی ہے۔ دیکھی? امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن کس قدر عوامی ترجمان بنتے ہیں۔ دراصل تینوں حکومتی اتحادیوں کے علاوہ جب تک تمام اپوزیشن مل کر اپنا کردار ادا نہیں کرے گی موجودہ حکومت عوام دشمن پالیسیاں بناتی رہے گی۔ دوسری طرف نہ تو حکومتی اخراجات کو کم کیا جارہا ہے بلکہ یہ اللے تللے دن بدن بڑھتے جار رہے ہیں۔ ایک ایک آفیسر کے پاس دو دو تین تین گاڑیاں ہیں ۔ اربوں روپے اس پر لگائے جا رہے ہیں۔ پٹرول مفت ہے اور صاحب کے بچے انہیں گاڑیوں میں اسی پٹرول پر سیروتفریح سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ سرکاری آفیسر کی گاڑی جو صبح سٹارٹ ہوتی ہے تو پھر رات گ? تک یہ معاملہ رکتا نہیں ہے کیونکہ کونسا پٹرول جیب سے خریدنا ہے۔ مال مفت دل بے رحم۔ IMF اور  ورلڈ بینک سے لیا گیا قرض مجھے نہیں یاد کہ کبھی  پیداواری شعبوں میں لگایا گیا ہو کہ آمدنی ہو اور اثاثہ جات بننے کے ساتھ ساتھ ہم اس سے اپنا قرض بھی اتار سکیں۔ اگر بھٹو نہیں تو کم از کم ایوب دور کے بعد تو یہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ 
خدا حافظ۔۔خیر اندیش 
                       محمد صادق

مزیدخبریں