ٹیکس اور تنگ آمد بجنگ آمد 

ہر خطے اور دھرتی کی طرح پنجاب نے بھی جہاں موقع پرست ، بیاصول ، غدار اور بیننگ و ناموس لوگ پیدا کیے وہاں غیرت مند اصول پہ مر مٹنے والے اور ظلم و استبداد  کے خلاف ڈٹ جانے والے عظیم سپوت بھی پیدا کئے جنھوں نے جبر و استبداد کے طوفانوں کے رخ موڑ دیے اور اس راہ میں بہت کچھ یا سب کچھ قربان کر دیا۔ ناجائز ظالم اور عوام پہ ٹیکسوں (محصولات) کا بیجا بوجھ ڈالنے والے جابر حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کی تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو بیشمار نام آتے ہیں جنھوں عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ظالمانہ ٹیکسوں کے نفاذ کو مسترد کرتے ہوئے مزاحمت کی راہ اپنائی اس طویل فہرست میں دو نام ایسے ہیں جو پنجاب یا موجودہ پاکستان ہی نہیں برصغیر کی تاریخ کے درخشندہ ستارے قرار پائیہیں۔ میں جب بھی ان دو غیرت کے استعاروں کے متعلق کچھ لکھتا یا پڑھتا ہوں تو اپنے جذبات پہ قابو رکھ سکتا ہوں نہ فرط جذبات سے بہنے والے آنسوؤں پر۔ مغل بادشاہ اکبر کے ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف مزاحمت کا عظیم استعارہ رائے عبداللہ بھٹی جنھیں عرف عام میں  دْلا بھٹی کہا جاتا اس راہ کا عظیم راہی ہے ان کے والد اور دادا نے ناجائز محصولات کے خلاف مزاحمت میں جان کی قربانی دی تھی دْلا بھٹی نے بھی اپنی اس عظیم وراثت کو قائم رکھتے ہوئے نہری نظام کے ظالمانہ ٹیکسوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیا، ساندل بار کے اس غیرتمند نے اکبر بادشاہ کو ایک عرصے تک زچ کیے رکھا اور مالیہ و محصول سے انکاری رہا لیکن اپنوں کی غداری کے باعث صرف بیالیس سال کی عمر میں گرفتار ہو کر بڑی سج دھج سے تختہ دار پہ چڑھ گیا لیکن تاریخ میں عوام کے حقوق کی جنگ کا ایک عظیم استعارہ بن کر امر ہوا۔ اس فہرست کا دوسرا عظیم الشان نام رائے احمد خان کھرل ہے جنھوں نے 80 سال کی عمر میں جب انسان مزاحمت کی بجائے مفاہمت کی جانب مائل ہوتا ہے ناجائز محصولات کے مطالبہ پہ انگریز سرکار کے خلاف مزاحمت کا راستہ اختیار کیا اور تاحیات ناجائز محصولات دینے سے انکار پہ ڈٹے رہے اور اس راہ میں اپنی جان، مال اور اولاد کی قربانی سے گریز نہ کیا اور یوں یہ بھی قرطاس تاریخ  میں سرکار کے ناجائز محصولات کے خلاف مزاحمت کا ایک انمٹ استعارہ بن گئے۔ تحریر کے تنگی ہائے داماں کے باعث دیگر بطلان حریت  کا تذکرہ ممکن ہے نہ ہی ظلم کے خلاف سینہ سپر ہونے والوں کی فہرست بیان کرنے کا یہ کالم متحمل ہو سکتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج پھر بجلی ، گیس ، تیل، اشیائے خوردونوش، اشیائے سرف، ادویات سمیت درجنوں بنیادی ضروریات پہ بیپناہ ٹیکس عائد کر کے عام الناس کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ لوگ موٹر سائیکل اور گھریلو سامان فروخت کر کے بجلی کے بل جمع کرانے پہ مجبور ہیں۔

ای پیپر دی نیشن