اسلام آباد میں رہتے ہوئے بھی ہمیں اپنے صوبے سے اتنی ہی محبت ہے جتنی اسلام آباد سے ہے۔اگر اسلام آباد میں امن و امان و جرائم کی صورتحال پر لکھتے ہیں تو اگر پشاور میں یہ دونوں مسائل سر اْٹھائیں گے تو کیسے خاموش رہ سکتے ہیں۔ایک وقت تھا جب پشاور میں خودکش اور بم دھماکے روز مرہ کا معمول بن چکے تھے عوام تو لقمہ اجل بن ہی رہے تھے مگر ساتھ ہی قانون نافذ کروانے والے رینجزز پولیس اھلکاروں سمیت اعلیٰ افسران بھی شہید ہو رہے تھے،رفعت پاشاصاحب نے پولیس لائن میں میڈیا کو اس حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے بے بسی ظاہر کی تو میں نے انہیں بے بسی کی وجہ بتانے پر آمادہ کر ہی لیا جس کا اظہار انہوں نے پریس کانفرنس کے بعد اپنے کمرے میں کیا۔اس کے بعد نویدملک صاحب آئی جی مقرر ہوئے تو اْن سے بھی اھلیان پشاور نے توقعات وابستہ کر لیں جن کا اظہار میں نے اْن سے بھی کیا،یہ ملاقات کار گر ثابت ہوئی ویسے بھی ملک صاحب زرا نسبتاً بولڈ آفیسر تھے،ڈٹ گئے دہشتگردوں کے آگے،پولیس کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑنے پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گئے،باقاعدہ عوامی لشکر ترتیب دے دیئے جنہوں نے منگل باغ گروپ سے زبردست پنجہ آزمائی کی اور اْسے پشاور سے باہر دھکیلنے میں کامیاب ہوگئے اورپشاور شہر میں کافی حد تک امن قائم ہو گیا۔قارئین کرام یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ یہ سارے واقعات یا ماضی زہن میں تازہ ہونے کی وجہ آجکل پشاور میں جرائم میں ہونے والا بے تحاشہ اضافہ ہے جس کی طرف یقینا آئی جی گنڈاپور صاحب کی توجہ ہوگی اور وہ فکر مند بھی ہوں گے مگر جہاں تک ہمارے تجزئیے کا تعلق ہے تو وہ اس سلسلے میں کچھ کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہے بلکہ معذرت کے ساتھ کہ ناکام دکھائی دے رہے ہیں جس کے پیش نظر یقینا کسی بولڈ فیصلے لینے والے پولیس سربراہ کی ضرورت ہے جو پشاور کے شہریوں کیلئے قابل قبول ہو اور قابل قبول اْسی صورت میں ہو ا جاسکتا ہے کہ شہر میں قتل مقاتلوں راہزنیوں چوریوں ڈکیٹیوں،بھتہ خوری اور سٹریٹ کرائم کی جو لہر چل پڑی ہے اْسے قانون کے سمندر میں ڈبو کر ختم کیا جا سکے اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے پولیس کی جو زمہ داریاں ہیں وہ بطریق احسن یقینی صورت اختیار کر سکیں۔ کرائم رپورٹس کے مطابق رواں سال کے صرف ابتدائی چھ ماہ کے دوران پشاوراور مضافات کے علاقوں میں 288 افراد جن میں مرد خواتین اور بچے شامل ہیں نہایت بے دردی سے قتل ہوئے جو ایک ریکارڈ تعدادہے،جبکہ اسی طرح مختلف مقامات پر سٹریٹ کرائم اور ڈکیتیوں میں جو قیمتی انسانی جانیں تلف ہوئیں و ہ ان کے علاوہ ہیں تو اگر اسی اعداد و شمار کو زہن میں رکھا جائے تو ظاہری سی بات ہے ساری زمہ داری اخلاقی طور پر بھی اور پیشہ ورانہ طور پر بھی پولیس سربراہ پر عائد ہوتی ہے جس کاانہیں اپنی ناکامی نیک نیتی اور پورے خلوص اور پیشہ روانہ تقاضوں کے عین مطابق قبول کر بھی لینی چاہیے۔یہ بات ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ ڈاکٹر ناصر اکبر صاحب سے پہلے قاضی جمیل صاحب آئی جی اسلام آباد تعینات تھے کہ اْن کے دور میں اسلام آباد میں سر عام ایک بنکوں کی رقوم لانے لے جانے والی سیکیورٹی وین کو لو ٹ لیا گیا او ر اسی واقعہ کی بناء پر قاضی صاحب کو اْن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی دارالحکومت سے اگر صرف ایک واقع پر آئی جی کو تبدیل کر دیا جاتاہے تو پشاور تو ا س وقت جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے وہاں تبدیلی کیوں نہیں آسکتی۔علاوہ ازیں یہ بھی کہ جرائم کے متذکرہ اعداد شمار صرف شہر پشاور کے ہیں اگر صوبائی سطح پر جائزہ لیا جائے تو بات کہاں سے کہاں تک پہنچے گی اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ہمارے کہنے کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ ہم موجودہ آئی جی اختر حیات گندا پور صاحب کے مخالف ہیں اور ہم مخالفت میں یہ سب لکھ رہے ہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اْنہیں آج دن تک بالمشافہ دیکھا تک نہیں نہ ہی کبھی اْن سے ملاقات ہوئی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم کسی قسم کی تبدیلی وبدیلی کے بھی کبھی قائل نہیں رہے بلکہ جو کسی سیٹ پر ہے اْسے ہی اس قسم کے چیلنجز سے نمٹنے کی ہمت دلائی جائے اور پورا تعاون بھی کیا جائے تاہم اگر اس کے باوجود کوئی حوصلہ افزاء نتائج برآمد نہ ہو پائیں تو تب تبدیلی کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا لہذا وزیراعلی ٰ خیبر پختونخواخصوصاً، وفاقی سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور وزیراعظم سے صوبے کے عوام کی جان و مال کے یقینی تحفظ کے پیش نظر عوامی حلقوں کی طرف سے درخواست ہے کہ خیبر پختونخواہ کے عوام کیلئے جو بھی نیا پولیس سربراہ چْنا جائے اسے اس شرط پر لا یا جائے کہ وہ نہ صرف صوبائی دارلحکومت پشاور بلکہ پورے صوبے میں جرائم کے خاتمے اور امن قائم کرنے کا پابند ہوگا اورسی بنیاد پر اِس کی تعیناتی میں توسیع کی گنجائش بھی رکھی جانی چاہیے تب کہیں پشاور میں پھولوں کی مہک واپس آ آسکتی ہے بصورت دیگر اگر یہی صورتحال قابو میں نہیں آئی تو کہیں آپریشن عزم استحکام کی ضرورت پشاور کے اندر ہی نہ پڑ جائے خدا نخواستہ۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ کے پی پر دیکھا جائے تو دوہری زمہ داریاں عائد ہوتیں ہیں،ایک تو یہ کہ وہ صوبے کے کلی اختیار رکھنے والے سربراہ ہیں تو دوسرا صوبے میں اس وقت بظاہر اْن کی جماعت گو کہ ہمارے مطابق آئینی قانونی نہ سہی مگر عوام کے نزدیک پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے تو ایسی صورت میں عوامی غیض و غضب کا نزلہ ظاہر ی سی بات ہے تحریک انصاف پر ہی پڑے گا اس لئے انہیں صوبے خصو صاً پشاور میں امن و امان کی بد ترین صورتحال کا فوری نوٹس لے کر اس پر توجہ دینی چاہیے اور نتیجہ خیز فیصلے کرنا چاہیے جس کی صوبے کے عوام اْن سے توقع رکھتے ہیں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭