آج تحریکِ قیامِ پاکستان کے جن کارکنوں نے نوائے وقت حمید نظامی اور مجید نظامی کی قومی و ملّی خدمات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ان میں ڈاکٹر رفیق احمد سرفہرست تھے جبکہ دیگر کارکنوں میں پاکستان کے ممتاز صحافی محمد بدر منیر کے علاوہ پروفیسر عبدالقیوم قریشی، ملک حامد سرفراز ایڈووکیٹ، خورشید احمد وائیں، عبدالعزیز قریشی، ظفر اقبال چودھری، محمد ارشد چودھری، محمد اقبال سنبل، سردار شجاع الدین، ڈاکٹر عبدالعزیز، آغا نصیر احمد، ایم اے شیدا، مرزا محمد اسلم، ڈاکٹر ایم اے صوفی، ظفر اللہ چودھری اور مصطفی کمال پاشا بطور مقرر شامل تھے، ان تمام شخصیات نے نہایت سنہری الفاظ میں نوائے وقت کی ملّی خدمات کو سراہا اور جناب حمید نظامی اور جناب مجید نظامی کی قومی اور صحافتی جرات و شجاعت کو بھرپور انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا مگر اس وقت پورا ہاوس مجید نظامی کے خیالات کی سماعت کے لئے بے تاب نظر آ رہا تھا چنانچہ انہوں نے آج بھی اپنے خطاب میں بھارت پر کاری ضرب لگائی اور پاکستان کے موجودہ حکمرانوں کو جھنجھوڑ کر بیدار کر دینے کی کوشش میں فرمایا کہ بھارت تو پا کستان کو ریگستان بنا دینے پر تلا ہوا ہے مگر ہماری حکومت سو رہی ہے حالانکہ ہم ان کو ایک مدت سے خبردار کررہے ہیں کہ بھارت نے پاکستان کی طرف پاکستان کے رواں دریاوں کو خشک کر دینے اور پاکستان کی زرخیزی اور ہریالی کو دشت و صحرا میں بدل دینے کے منصوبے پر عمل رکھے ہوئے ہیں مگر ہمارے حکمران ٹس سے مس نہیں ہو رہے لیکن آج میں پھر واضح کر رہا ہوں کہ ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان سے اٹھنے والی آواز اتنی قوت سے بلند ہوگی کہ اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھیں گے اور انہیں احساس ہوگا کہ بھارت کو (مقبوضہ) کشمیر میں پاکستانی دریاوں پر ناجائز طور پر ڈیم تعمیر کرنے سے روکا جانا چاہئے مجید نظامی نے کارکنانِ تحریکِ پاکستان کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ نے جنابِ قائِداعظم کے سپاہیوں کی حیثیت میں پاکستان قائم کیا لہٰذا وہ عزم آپ کے سینے میں بھی پختہ ہے کہ ہم نے جنابِ قائداعظم اور جناب علامہ اقبال کے فرمودات و ارشادات کے مطابق پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی، جمہوری اور فلاحی مملکت بنا کر دم لینا ہے، ہمیں اس حقیقت کو بھی پوری طرح پیش نظر رکھنا ہوگا کہ جناب قائِداعظم نے اپنے عوام کے لئے ہی پاکستان بنایا، انہوں نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے لئے پاکستان قائم نہیں کیا تھا مگر افسوس کہ وہی طبقات پاکستان پر قابض ہو گئے ہیں اور آج 62 برس گزر جانے کے باوجود ہم اپنے نصب العین یعنی ایک جدید اسلامی جہوری اور فلاحی مملکت کی تشکیل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کر سکے، میں کہوں گا کہ آج ہمارے پیارے وطن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نہیں ہونا چاہئے اور سول حکومت جیسی بھی ہے اسے کام کرتے رہنا چاہئے اور ہماری بہادر افواج کو صرف پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کا فریضہ ادا کرنا چاہئے۔ جناب مجید نظامی نے دعائیہ انداز میں کہاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بے پایاں فضل و کرم سے ہمیں امریکہ کی غلامی سے جلد از جلد نجات عطا فرمائے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں نوائے وقت کی 70 سالہ عظیم قومی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک نوائے وقت کا تعلق ہے میری ہمیشہ وہ کوشش رہی ہے کہ اپنے برادر بزرگ جناب حمید نظامی کی عائد کردہ ذمہ داری کو بہ احسن طریق نبھاتا رہوں اور ان کی توقعات پر پورا اترتا رہوں تاکہ مجھے ان کی روح کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے حالانکہ میری صحت کا عالم وہ ہے کہ میں اب تک اپنے دل کے تین بائی پاس آپریشن کرا چکا ہوں اور الحمد اللہ آئندہ 3 اپریل کو اپنی 81 ویں سالگرہ منا رہا ہوں۔ اس کے بعد مجید نظامی نے اس تقریب میں موجود ملک حامد سرفراز ایڈووکیٹ کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ جب لاہور میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے لیڈر تھے تو اس درو میں ان کو میانوالی جیل سے رہا کیا گیا اور لاہور میں انہوں نے ملک غلام جیلانی کے گھر میں (چند روز) قیام کیا تو وہاں میری ان سے ملاقات ہوئی اس سے قبل بھی میں مشرقی پاکستان میں متعدد بار ان سے مل چکا تھا۔ جہاں مجھے اخباری تنظیموں کے اجلاسوں میں شرکت کے لئے جانا پڑتا تھا۔ اس ملاقات کے دوران میں نے شیخ مجیب الرحمان سے کہاکہ آپ عام انتخابات میں ضرور حصہ لیں کیونکہ آپ اکثریت میں ہیں اور انتخابات میں بھی آپ کو اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ میری اس بات کے جواب میں شیخ مجیب الرحمان نے کہا کہ مجید بھائی یہ جو فوجی بھائی ہیں مجھے کبھی اکثریت نہیں لینے دیں گے۔ میں لندن جا رہا ہوں وہاں فیصلہ کروں گا۔ میں نے کہاکہ میں نے تو سنا ہے کہ آپ مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ کہنے لگے کہ میں کوشش کروں گا کہ آپ کی بات پر عمل کر سکوں، اپنی تقریر میں مجید نظامی نے بدر منیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے بہاری بھائی ہیں اور میں نے بنگلہ دیش میں ان کے اور اپنے محصور پاکستانی بھائیوں کے لئے ایک فنڈ قائم کر رکھا ہے جبکہ اس کا آغاز میں نے خود اپنے عطیہ سے کیا تھا اور بعد ازاں پبلک نے بھی اس فنڈ میں دل کھول کر عطیات دئیے گذشتہ کئی سال سے ہر ماہ زیادہ نہیں تو ایک کروڑ روپے کے لگ بھگ بنگلہ دیش بھجوائے جا رہے ہیں۔ اس طرح بوسنیا کے مسلمانوں کے لئے بھی فنڈ قائم کیا گیا جس کے انتہائی حوصلہ افزا نتائج سامنے آئے اور خاطر خواہ امدادی رقم پر مشتمل چیک اسلام آباد میں بوسنیا کی سفیر کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ مجید نظامی نے وہ بھی بتایا کہ کشمیر میں زلزلہ زدگان کا معاملہ ہو یا بلوچستان میں سیلاب زدگان کا مسئلہ، نوائے وقت نے ہر موقع پر دل کھول کر متاثرین کی مدد کی، پھر مجید نظامی کرنل (ر) سید امجد حسین کی طرف مڑے اور ان کو اپنا برادر بزرگ قرار دیتے ہوئے کہاکہ وہ میرے بڑے بھائی ہیں اور انہوں نے ہمیشہ بڑے بھائیوں کی طرح میرا ساتھ دیا۔ میں نے بھی انہیں ویسا ہی عزت و احترام پیش کیا جیسا کہ بڑے بھائیوں کو پیش کرنا فرض ہوتا ہے۔ اس وقت کرنل صاحب ماشاءاللہ 93 سال کے ہیں وہ جناب حمید نظامی کے ہم عمر ہیں اور حمید نظامی نے 45 سال کی عمر میں وفات پائی جبکہ اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی ان کو 48 سال گزر گئے تو اس سے اندازہ کیجئے کہ سید امجد حسین کی عمر کتنی ہو گی۔ گویا وہ اس ہال میں موجود تمام دیگر شخصیات سے زیادہ بزرگ اور سینئر ہیں اور میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ اس کے لئے بے پایاں فضل و کرم سے میرے برادر بزرگ کرنل (ر) سید امجد حسین اپنی عمر کی سینچری مکمل کریں۔ (آخری قسط)