پارلیمانی کمیٹی کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ نے معاملات الجھانے کی کوشش کی

لاہور (رپورٹ محمد ثقلین جاوید) ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں‘ پارلیمانی کمیٹی کے معاملے پر اسٹیبلشمنٹ نے معاملات الجھانے کی کوشش کی تاکہ عوام کو یہ تاثر دیا جائے کہ عوامی قائدین ان کے مسائل حل کرنے کی بجائے باہم دست و گریباں ہیں۔ غیر منتخب قوتوں کی واپسی کا راستہ ہموار کرنے کی سازش ہو سکتی ہے۔ تاہم تمام سیاسی جماعتیں جلد ہی ججوں کی تقرری‘ صوبہ سرحد کے نئے نام سمیت تمام نکات پر متفق ہو جائیں گی اور آئندہ چند روز میں قوم کو 18ویں ترمیم کا تحفہ مل جائے گا‘ لیڈر عوام کو کچھ ڈلیور نہ کر سکے تو یہاں طالبان قبضہ کر لیں گے۔ ان خیالات کا اظہار مختلف سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنماﺅں نے روزنامہ نوائے وقت‘ دی نیشن اور وقت نیوز کے زیر اہتمام منعقدہ مجلس مذاکرہ ”پاکستان کا آئینی بحران سیاسی رہنماﺅں کی نظر میں“ کیا جس میں عوامی نیشنل پارٹی کے سیکرٹری جنرل احسان وائیں‘ صدر زرداری کے کوآرڈنیٹر نوید چودھری‘ (ق) لیگ کے رہنما سینیٹر کامل علی آغا‘ مسلم لیگ (ن) کے ایم این اے میاں مرغوب احمد اور جمعیت اہلحدیث پاکستان کے سیکرٹری جنرل حافظ ابتسام الٰہی ظہیر نے خطاب کیا جبکہ سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد نے مذاکرہ میں شرکت کی۔ اس موقع پر نظامت کے فرائض انچارج ایوان وقت خواجہ فرخ سعید نے ادا کئے۔ تلاوت کلام پاک قاری عبدالعزیز نے کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے کوآرڈےنیٹر میاں محمد طارق‘ چودھری باقر حسین‘ وحید عالم خان‘ نذیر خان سواتی و دیگر نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے احسان وائیں نے کہا اس ملک میں آئین کو درست کر لیا جائے تو جمہوریت چلے گی۔ 73ءکا آئین اس وقت بنا جب آدھا ملک ٹوٹ چکا تھا۔ ان کا حق دو لیکن انہوں نے کہا کہ ہم نے بنگالیوں کو کچھ نہیں دینا اور ان پر گولی چلائی۔ یوں ملک ٹوٹنے سے آئین ساز اسمبلی آدہی رہ گئی اور چار صوبوں پر مشتمل اسمبلی نے 73ءکا آئین بنانا شروع کر دیا جس کا تمام کریڈٹ پیپلز پارٹی کو دیا جاتا ہے حالانکہ اسے صرف دو صوبوں پنجاب اور سندھ میں برتری حاصل تھی جبکہ سرحد اور بلوچستان میں اکثریتی پارٹی اے این پی تھی یوں 73ءکا آئین بنانے کا کریڈٹ دونوں جماعتوں کو ملنا چاہئے۔ انہوں نے کہا اس صوبے کے لوگوں نے جمہوریت‘ اپنے حقوق‘ معاشی‘ سیاسی اور سماجی حقوق کےلئے اتنی قربانیاں دی ہیں کہ کئی ملکوں میں لوگوں نے آزادی کے لئے اتنی قربانیاں نہ دی ہوں گی اور ہمیشہ انہی سیاسی کارکنوں کے باعث ملک میں جمہوریت آئی۔ انہوں نے کہا صوبہ سرحد کا نام تبدیل کرنے کے حوالے سے میاں نوازشریف سے مذاکرات جاری ہیں اور توقع ہے جلد ہی یہ معاملہ طے ہو جائے گا کیونکہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں کہ قوم ان ترمیمات سے محروم ہو جائے۔ انہوں نے کہا کسی مہذب ملک میں یہ نہیں ہوا کہ چیف جسٹس اور چیف ایگزیکٹو میں ملاقات ہو جس میں معاملات کچھ دو اور کچھ لو کی بنیاد پر طے ہوں۔ عدلیہ کو ججوں کی تقرری کا حق دے دیا جائے تو وہ عدلیہ جس نے آئین کی تشریح کرنا ہے وہ ملک پر حکومت کرے گی۔ لوگوں نے آزاد عدلیہ کے لئے قربانیاں دی تھیں کسی فرد واحد کے لئے نہیں چیف جسٹس عدلیہ کی آزادی کو آمریت کی طرف لے جاتے ہیں تو ہمیں یہ قبول نہیں کیونکہ ہمیں شخصیت پرستی قبول نہیں۔ نوید چودھری نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کے خلاف توہین آمیز بیانات نہیں دئیے جانے چاہئے۔ کل جو زرداری کے خلاف کہا جا رہا تھا آج میاں صاحبان کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ دراصل کچھ قوتیں ہیں جو ملک میں جمہوریت کی مضبوطی نہیں چاہتیں اور یوں آپس میں اختلافات سے انہیں موقع دینے والی بات ہو گی۔ میں کہتا ہوں ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں۔ پہلے جس طرح فوجی آمروں کے ذریعے ملک پر قبضہ جمانے کی کوشش کی جاتی تھی اب عدلیہ کے ذریعے ایسا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کا مقصد 73ءکے آئین کو اسکی اصل روح کے ساتھ بحال کرنا ہے تاکہ پھر کوئی طائع آزما قوم پر مسلط نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا اب عوامی مسائل کے حل کےلئے تمام لوگوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لئے مفاہمت کی پالیسی کے تحت معاملات آگے بڑھانا ہوں گے۔ کامل علی آغا نے کہا اختیارات میں توازن اس ملک کا ہمیشہ سے المیہ رہا ہے حالانکہ ایوان صدر اور وزیر اعظم میں ایسا توازن قائم ہو کہ یہ خدشہ نہ رہے کہ یہاں جمہوریت کو خطرہ ہو اور کسی آمر کو ہم پر مسلط ہونے کا موقع ملے۔ 29 رکنی پارلیمانی کمیٹی نے ترمیم کے حوالے سے 9 ماہ لگائے لیکن اب اچانک ایک نیا طوفان اٹھا کھڑا ہوا ہے حالانکہ 17ویں ترمیم میں ججوں کی تعیناتی کا کوئی تذکرہ نہ تھا۔ دوسرا معاملہ سرحد کے نام کی تبدیلی کا تھا حالانکہ سرحد کے عوام نے47ءمیں ایک ریفرنڈم کے ذریعے پاکستان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اس نظریہ کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا تھا۔ جس قوم نے پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہ الا اللہ کا نعرہ دیا تھا اس نے پختونخواہ کے نظریے کو نہ کبھی تسلیم کیا تھا نہ کریں گے‘ ہمیں پاکستان ملا ہے تو پاکستان اور نظریہ پاکستان کے ساتھ چلیں۔ میاں مرغوب احمد نے کہا پاکستانی عوا م کے ساتھ ظلم ہے کہ کوئی اشارہ توڑ دے تو اسکی سزا ہے لیکن کوئی آئین پاکستان توڑ دے اور غیر ملکی آقاﺅں کے ہاتھوں میں کھیلتا رہے تو اس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کا نفاذ نہیں ہوتا۔ پارلیمانی پارٹی کے اختیار میں ہی نہ تھا کہ وہ ججوں کی تقرری کے معاملے کو چھیڑتی لیکن 27 رکنی کمیٹی کو الجھا دیا گیا لیکن جلد ہی قوم کے سامنے 18ویں ترمیم کا تحفہ آئے گا لیکن سرحد کے نام اور ججوں کی تقرری کے معاملے پر وفاقی وزیر قانون بابر اعوان کو ڈس کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لئے بغیر ہی اعلان کر دیا جس کے باعث آج پوری قوم کنفیوژن کا شکار ہے۔ حافظ ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا بدقسمتی سے پاکستان مختلف مواقع پر آئینی بحرانوں کا شکار ہو تا رہا لیکن 73ءکے آئین میں اسلام کی بالادستی اور جمہوری روایات کی پاسداری ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے مسائل لوڈ شیڈنگ‘ بھوک اور بےروز گاری ہیں ہمیں جمہوریت چلانم ہے تو یہ مسائل حل کر کے عوام کو ان کے حقوق دینا ہوں گے۔ ہمارے لیڈر عوام کو کچھ ڈلیور نہ کر سکے تو پھر یہاں طالبان قبضہ کر لیں گے‘ اگر 73ءکا آئین ٹوٹ گیا تو پھر اس ملک میں کچھ بھی باقی نہ بچے گا کیونکہ یہ آئین تحفظ ختم نبوت کی ضمانت دیتا ہے اور کالی کملی والے کی عظمت پر اس ملک کا بچہ بچہ کٹ مرنے کو تیار ہے۔

ای پیپر دی نیشن